مجلسِ عامہ
روزانہ کی بحالی
مجلسِ عامہ اکتوبر ۲۰۲۱


روزانہ کی بحالی

ہمیں آسمانی نُور کے روزمرّہ کے جاری نفوز کی ضرورت ہے۔ ہمیں ” تازگی کے دِنوں“ کی ضرورت ہے۔ شخصی بحالی کے اوقات۔

ہم سبت کی اِس خوبصورت صبح کو مسِیح کی بابت بات کرنے، اُس کی انجیل میں شادمان ہونے ، اور اپنے نجات دہندہ کی ”راہ“ پر چلتے ہوئے ایک دوسرے کی حمایت اور تائید کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔۱

کلیِسیائے یِسُوع مسِیح برائے مقدسین آخری ایام کے ارکان کی حیثیت سے ، ہم پورے سال کے دوران ہر سبت کو اِس مقصد کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ اگر آپ کلیِسیا کے رکن نہیں ہیں ، تو ہم آپ کو نہایت گرم جوشی سے خوش آمدید کہتے ہیں اور نجات دہندہ کی پرستش کرنےاور اس کے بارے میں سیکھنے کے لیے ہمارے ساتھ شامل ہونے کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ آپ کی طرح، ہم بھی—اگرچہ غیر کامل طور پر—بہتر دوست ، پڑوسی ، اور بنی نوع انسان بننے کی کوشش کر رہے ہیں۲ اور ہم اپنے مثالی یِسُوع مسِیح کی پیروی کرتے ہوئے ایسا کرنے کے خواہاں ہیں۔

نِجات دہندہ یِسُوع مِسیح

ہم اُمید کرتے ہیں کہ آپ ہماری گواہی کا خلوص محسوس کر سکیں۔ یسُوع مِسیح زندہ ہے! وہ زندہ خدا کا بیٹا ہے ، اور وہ ہمارے زمانہ میں زمین پر انبیاء کی ہدایت فرماتا ہے۔ ہم سب کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں ، خدا کا کلام سنیں ، اور اس کی اچھائی میں شریک ہوں! میں اپنی ذاتی گواہی دیتا ہوں کہ خدا ہمارے درمیان ہے اور کہ وہ یقینا اُن سب کے قریب آئے گا جو اُس کے قریب ہوتے ہیں۔۳

ہم اُستاد کی شاگردیت کے تنگ اور سکڑے راستے پر آپ کے ساتھ چلنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔

سیدھی لکیر پر چلنے کا فن

اکثر دہرایا جانے والا نظریہ ہے کہ وہ لوگ جوگُم ہو جاتے ہیں دائروں میں چلتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے، میکس پلانکس انسٹی ٹیوٹ برائے حیاتیاتی سائبرنیٹکس کے سائنس دانوں نے اس نظریہ کی جانچ کی ۔. اُنھوں نے شرکا کوگھنے جنگل میں اتارا اور اُنہیں سادہ ہدایات دیں :”سیدھی لکیر پر چلیں۔ “ کوئی مرئی نشان نہ تھے۔ زیرِ آزمائش لوگوں کو کُلی طورپر اپنی حسِ سمت پر بھروسہ کرنا تھا۔

آپ کے خیال میں اُنہوں نے کیسا کِیا؟

سائنس دانوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا،”لوگ واقعی حلقوں میں چلتے [ ہیں ] جب اُن کے پاس چلنے پھرنے کی سمت کا قابل اعتماد اشارہ نہ ہو“۴ جب اِس کے بعد پوچھ گچھ کی گئی ، تو کچھ شرکا نے خود اعتمادی سے دعویٰ کیا کہ انھوں نے معمولی سا بھی انحراف نہیں کیا ہے۔ اُن کے اِنتہائی اعتماد کے باوجود، جی پی ایس کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انتہائی قریب تر ۲۰میٹر قطرکے دائروں میں چلتے رہے تھے۔

ہمارے لیے سیدھی لکیر میں چلنا کیوں مشکل ہوتا ہے ؟ کچھ محققین قیاس کرتے ہیں علاقہ میں خفیف، بظاہراً معمولی انحراف بھی فرق ڈالتے ہیں۔ دوسروں نے اِس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہم سب کی ایک ٹانگ دوسری سے قدرے مضبوط ہوتی ہے۔ بہر کیف،”غالب امکان ہے“بالکل سیدھا راستہ کہاں ہے اِس سے متعلق ہم بڑھتی ہوئی بے یقینی کی [بدولت] بالکل سیدھا چلنا مشکل پاتے ہیں۔“۵

سبب کچھ بھی ہو، یہ انسانی فطرت ہے: قابل اعتماد نشانات کے بغیر، ہم راہ سے بھٹک جاتے ہیں۔

راہ سے بھٹکنا

کیا یہ دلچسپ بات نہیں ہے کہ کتنےخفیف، بظاہراً ادنیٰعوامل ہماری زندگیوں میں بڑا فرق لا سکتے ہیں ؟

بطور پائلٹ میں ذاتی تجربے سے یہ جانتا ہوں۔ ہر بار جب میں نے ہوائی اڈے پر اُترنے کا آغاز کیا، تو میں جانتا تھا کہ میرا زیادہ تر بقیہ کام مسلسل راستے کی معمولی تصحیح کرنے پر مشتمل ہو گا تاکہ جہاز کو بحفاظت ہمارے مطلوبہ لینڈنگ رن وے تک پہنچایا جا سکے۔

گاڑی چلاتے وقت بھی آپ کو ایسا ہی تجربہ حاصل ہوسکتا ہے۔ ہوا، سڑک کی بے ضابطگیاں، ٹائروں کا ناقص توازن، بے توجہی—دوسرے ڈرائیوروں کی حرکات کا تذکرہ کرنا ضروری نہیں —سب آپ کو آپ کے مطلوبہ راستے سے دور کر سکتے ہیں۔ اِن عوامل پر توجہ دینے میں ناکامی آپ کا دِن خراب کر سکتی ہے۔۶

حوض میں کار

ہم پر اِس کا جسمانی طور پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔

ہم پر اِس کا اطلاق رُوحانی طور پر بھی ہوتا ہے۔

ہماری روحانی زندگیوں میں زیادہ تر تبدیلیاں—دونوں مثبت اور منفی—بتدریج رونما ہوتی ہیں، ایک وقت میں ایک قدم ۔ میکس پلانک مطالعہ کے شرکا کی مانند، ہمیں احساس نہیں ہو سکتا کہ کب ہم راہ سے ہٹ گئے ہیں۔ حتٰی کہ ہمیں بہت اعتماد بھی ہو سکتا ہے کہ ہم سیدھی راہ پر چل رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری راہ نمائی کرنے کے لیے سنگِ میل کی مدد کے بغیر، ہم لازم طور پر راستہ سے بالکل بھٹک جاتے ہیں اور اُن مقامات پر جا نکلتے ہیں جن کا ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہم ہوں گے۔

یہ بات افراد کے لیے سچ ہے۔ یہ معاشروں اور اقوام کے لیے بھی سچ ہے۔ صحائف مثالوں سے بھرے پڑے ہیں۔

قُضاۃ کی کتاب میں تحریر ہے کہ یشوع کی وفات کے بعد ، ”ایک اور پشت پیدا ہوئی … جو نہ خُداوند کو اور نہ اسرائیل کے جو کام کیے تھے جانتی تھی “ ۷

حیران کن آسمانی مداخلت، ظہور، بچائے جانے، اور معجزانہ فتوحات کے باوجود جو بنی اسرائیل موسٰی اور یشوع کی زندگیوں میں دیکھ چُکی تھی، ایک ہی پُشت میں لوگوں نے راہ ترک کر دی تھی اور اپنی خواہشات کے مطابق چلنا شروع کر دیا تھا۔ اور ، یقینا، اِس رویے کی قیمت چُکانے میں اُنہیں زیاد دیر نہ لگی۔

بعض اوقات برگشتہ ہونے میں نسلیں لگتی ہیں۔ بعض اوقات ایسا سالوں یا مہینوں کے میں بھی ہوتا ہے۔۸ مگر ہم سب اِ س کا شکار ہیں۔ اس سے قطع نظر،کہ ماضی میں ہمارے روحانی تجربات کتنے مضبوط رہے ہیں، بطور انسان ہم بھٹک جاتے ہیں۔ آدم کے دنوں سے لے کر اب تک یہ طریقہ رہا ہے۔

اچھی خبر یہ ہے

مگر سب کچھ کھو نہیں گیا۔ بھٹکنے والے امتحان کے شرکا کے برعکس، ہمارے پاس قابل اعتماد ، بصری سنگِ میل ہیں جن کو ہم اپنے راستے کی جانچ کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

اور وہ سنگِ میل کیا ہیں؟

یقیناً اِن میں روزانہ دُعا کرنا اور صحائف پر غور کرنا اور آ، میرے پیچھے ہو لے جیسے الہامی آلات کا استعمال کرنا شامل ہے۔ ہر روز ، ہم فروتنی اور دیانت داری کے ساتھ خُدا کے تخت کے قریب جا سکتے ہیں۔ ہم اپنے اعمال پر غور کر سکتے ہیں اور اپنے دِن کے لمحات کا جائزہ لے سکتے ہیں—اُس کی منشا کی روشنی میں اپنی مرضی اور خواہشات پر غور کرنا۔ اگر ہم بھٹک گئے ہیں، تو ہم خُدا سے ہمیں بحال کرنے کی التجا کرتے ہیں، اور ہم بہتر کرنے کا عزم کرتے ہیں۔

نِجات دہندہ اپنی بھیڑوں کی راہنُمائی کرتا ہے

خُود شناسی کا یہ وقت بحالیکا موقع ہے۔ یہ غور و خوض کا باغ ہے جہاں ہم خُداوند کے ساتھ چہل قدمی کر سکتے ہیں اور اپنے آسمانی باپ کے تحریر شُدہ اور رُوحُ الُقدس کے ذریعہ مُنکشف کلام سے ہدایت، تادیب پا سکتے، اور پاکیزہ ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک مقدس وقت ہے جب ہم شفیق مسیح کی پیروی کرنے کے اپنے مقدس عہود کو یاد کرتے ہیں ، جب ہم اپنی ترقی کا اندازہ لگاتے ہیں اور خود کو اُن روحانی سنگ میلوں سے ہم آہنگ کرتے ہیں جو خدا نے اپنے بچوں کے لیے مہیا کیے ہیں۔

اِسے اپنی ذاتی، روزانہ کی بحالی کے طور پر سوچیں ۔ جلال کی راہ پر بطور زائرین ہمارے سفر میں، ہم جانتے ہیں کہ برگشتہ ہونا کتنا آسان ہے۔ لیکن جس طرح معمولی انحراف ہمیں نجات دہندہ کی راہ سے نکال سکتے ہیں، اسی طرح دوبارہ ترتیب کے چھوٹے اور سادہ اعمال ہمیں واپس بھی لے کر جا سکتے ہیں۔ جب تاریکی ہماری زندگیوں میں گھس جاتی ہے ، جیسے اکثر ہوتا ہے، ہماری روز مرہ کی بحالی ہمارے دلوں کو آسمانی نور کے لیے کھولتی ہے ، جو ہماری جانوں کو منور کرتا ہے ، سائے ، خوف ، اور شکوک کو دور کرتا ہے۔

چھوٹے پتوار، بڑے بحری جہاز

جب ہم اِس کے خواہاں ہوتے ہیں، یقینا ” خُدا ہمیں اپنے پاک رُوح کے مُطابق عِلم دے گا، ہاں، رُوحُ القُدس کی نعمت کے وسیلہ سے جو بیان سے باہر ہے۔“9 جتنی بار ہم پوچھتے ہیں ، وہ ہمیں راہ سکھائے گا اور اِس کی پیروی کرنے میں ہماری مدد کرے گا۔

یقیناً ، اِس کے لیے ہماری طرف سےجہدِ مسلسل چاہیے۔ ہم ماضی کے رُوحانی تجربات سے مطمئن نہیں ہو سکتے ہمیں ایک مُسلسل بہاؤ درکار ہے۔

ہم دوسروں کی گواہیوں پر ہمیشہ کے لئے تکیہ نہیں کر سکتے۔ ہمیں لازماً اپنی خود کی تعمیر کرنی ہے۔

ہمیں آسمانی نُور کے روزمرّہ کے جاری نفوز کی ضرورت ہے۔

ہمیں ” تازگی کے دِنوں“ کی ضرورت ہے ۔۱۰ بحالی کے اوقات۔

”رواں پانی “ لمبے عرصے تک غلیظ نہیں رہ سکتا۔“۱۱ اپنے خیالات اور اعمال کو خالص رکھنے کے لیے ، ہمیں مُتحرک رہنا ہے!)

بہرحال ، انجیل اور کلیسیاء کی بحالی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ایک بار وقوع پذیر ہو اور ختم ہو جائے۔ یہ ایک عملِ پہم ہے—ایک ایک دِن کرکے، ایک ایک دِ ل سے۔

جیسے ہمارے ایّام گُزرتے ہیں ویسے ہمارے جیون۔ ایک مصنف نے اِسے یوں بیان کیا: ”ایک دن پوری زندگی کی مانند ہے۔ آپ ایک کام شروع کرتے ہیں ، مگر کچھ اور کرتے ہوئےاختتام کرتے ہیں، کوئی کام کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں ، مگر کبھی بھی کر نہیں پاتے۔ … اور آپ کی زندگی کے آخر میں، آپ کا پورا وجود بھی اُسی بے ہنگم معیّار کا ہے۔ آپ کی ساری زندگی ایک ہی دن جیسی وضَع رکھتی ہے“ ۱۲

کیا آپ اپنی زندگی کی وضع بدلنا چاہتے ہیں؟

اپنے دن کی وضع بدلیں۔

کیا آپ اپنا دن بدلنا چاہتے ہیں؟

اِسی گھڑی تبدیل ہوں۔

اِسی لمحے جو آپ سوچتے ، محسوس کرتے اور کرتے ہیں اسے تبدیل کریں۔

بڑے بڑے جہاز چھوٹی سی پتوار سے گھمائےجاتےہیں۔۱۳

چھوٹی اینٹیں شاندار محلات بن سکتی ہیں۔

چھوٹے بیج اُونچے دیودار بن سکتے ہیں۔

اچھے طریقے سے گزارے گئے منٹ اور گھنٹے زندگی کا سامانِ تعمیر بن جاتے ہیں۔ وہ نیکی کو تحریک دے سکتے ہیں ، ہمیں خامیوں کی غُلامی سے نکال سکتے ہیں، اور ہمیں مُعافی اور تقدیس کے مخلصی دینے والے راستے کی جانب لے جا سکتے ہیں۔

نئی ابتدا کا خُدا

آپ کے ساتھ، مَیں نئے موقع ، نئی زندگی ، نئی اُمید کے شاندار تحفے کے لئے اپنے دل کو تشکر سے سرشار کرتا ہوں۔

ہم اپنے رحیم و کریم خُدا کی تمجید میں اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔ یقیناً ، وہ نئی ابتدا کا خُدا ہے۔ اُس کی ساری محنت کا ارفع اختتام ہماری، اُس کے بچوں کی مدد کرنا ہے، لافانیت اور ابدی زندگی کی جستجو میں کامیاب ہونا ہے۔۱۴

ہم مسِیح میں نئی مخلوق بن سکتے ہیں، کیوں کہ خُدا نے وعدہ کیا ہے، ”جتنی مرتبہ میرے لوگ توبہ کریں گے میں اپنے خلاف ان کی خطائیں معاف کروں گا “۱۵ اور ”خُداوند، اُنھیں یاد نہیں رکھتا۔“۱۶

میرے پیارے بھائیو اور بہنو ، عزیز دوستو ، ہم سب وقتاً فوقتاً بھٹک جاتے ہیں ۔

مگر ہم یقیناً راہ پر واپس آ سکتے ہیں۔ ہم اِس زندگی کی تاریکی اور آزمائشوں میں سے اپنا راستہ تلاش کر سکتے ہیں اور اپنے پیارے آسمانی باپ کی طرف واپس جانے کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں اگر ہم اُس کی مُہیّا کردہ نِشانیوں کو ڈھُونڈیں اور قبُول کریں ، ذاتی مکاشفہ کو قبول کریں ، اور روزانہ بحالی کی کوشش کریں۔ یوں ہم اپنے محبوب نجات دہندہ ، یِسُوع مسِیح کے سچے شاگرد بن جاتے ہیں۔

جب ہم ایسا کرتے ہیں، خُدا ہم پر مسکرائے گا۔ ”خُداوند … اُس مُلک میں جِسے وہ تجھ کو دیتا ہے تجھ کو برکت بخشے گا۔ خُداوند تجھ کو اپنی پاک قوم بنا کر قائم رکھے گا۔“۱۷

کہ ہم روزانہ بحالی کے خواہاں ہوں اور یِسُوع مسِیح کی راہ پر چلنے کی مسلسل کوشش کریں، میری دُعا ہے۔ یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔

حوالہ جات

  1. یِسُوع نے کہا،” راہ اور حق اور زندگی میں ہی ہوں۔“یوحنا ۱۴:۶۔ این آئی وی پہلی صدی مطالعہ بائبل اس وضاحت پر مشتمل ہے : ” عبرانی بائبل میں راہ یا راستے کی شبیہہ اکثر خدا کے احکام یا تعلیمات کو ماننے کے لیے کھڑی ہوتی تھی [ دیکھئے زبور ۱:۱ ؛ ۱۶ : ۱۱ ؛ ۸۶ : ۱۱]۔ یہ عقائد ، تعلیمات یا اعمال کے ایک سیٹ میں فعال شرکت کے لیے ایک عام قدیم استعارہ تھا۔ بحیرہ مردار طومار کی برادری نے خود کو ” راہ “ کے پیرو کار کہلاتے تھے، جس سے ان کا مطلب تھا کہ وہ اس راہ کی اپنی تشریح کے پیرو کار تھے جو خدا کو خوش کرتا تھا۔ پولس اور پہلے مسِیحیوں نے بھی اپنے آپ کو ’ راہ کے پیروکار ‘کہا [ دیکھیں اعمال ۲۴ : ۱۴] ” ( بائبل راہ ، سچائی ، اور زندگی کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟ میں “بائبل گیٹ وے ، biblegateway.com/topics/the-way-the-truth-and-the-life ) ۔.

    ۱۸۷۳ میں ، قسطنطینہ میں یروشلیم کے بطریق کی لائبریری میں دیداچے کے عنوان سے ایک قدیم کتاب دریافت ہوئی۔ بہت سے دانشوروں کا خیال ہے کہ یہ پہلی صدی کے اواخر میں لکھا اور استعمال کیا گیا تھا۔ ( عیسوی ۸۰ – ۱۰۰ )۔ دیڈچی کا اغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے : ” دو طریقے ہیں ، زندگی کا ایک اور ایک موت کا ، مگر دونوں طریقوں میں بڑا فرق ہے ۔. تب زندگی کا طریقہ یہ ہے : ”اول ، تو اس خُدا سے محبت رکھنا جس نے تجھے بنایا ؛ دوئم ، اپنے پڑوسی سے اپنی مانند“(بارہ رسولوں کی تعلیم، ترجمہ۔ روسویل ڈی ہچکیک اور فرانسیس براؤن [۱۸۸۴]، ۳ )۔

    دیگر ذرائع ، جیسا کہ ایکسپوزٹر کی بائبل کی تفسیر ، اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ”کلیِسیا کے ابتدائی وجود کے دوران میں، جنھوں نے یِسُوع کی مسیحائی کو قبول کیا اور اس کا دعوی کیا کہ ان کا خداوند خود کو ”راہ“کہتا ہے [ دیکھیں اعمال ۱۹ : ۹ ، ۲۳ ؛ ۲۲ : ۴ ؛ ۲۴ : ۱۴ ، ۲۲] “ ( ایڈ فرینک ای ۔ گیبلین اور دیگر [ ۱۹۸۱ ] ، ۹ : ۳۷۰ ) ۔.

  2. دیکھو مضایاہ ۲:۱۷۔

  3. دیکھیں عقائد اور عہود ۸۸: ۶۳۔

  4. ” دائروں میں چلنا“ ، ۲۰ اگست، ۲۰۰۹،میکس پلانگ جینس شافٹ، ایم پی جی۔ڈی ای۔

  5. ” دائروں میں چلنا“ ایم پی جی۔ڈی ای۔ یہ تصویر مطالعہ میں چار شرکاء کی جی پی ایس ٹریکنگ کو ظاہر کرتی ہے۔ اُن میں سے تین ایک ابر آلود دن چلتے رہے۔ اُن میں سے ایک ( ایس ایم ) نے چلنا شروع کیا جب سورج بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا ، مگر ۱۵ منٹ کے بعد بادل چھٹ گئے، اور شریک سورج کی جھلکیاں دیکھ سکتا تھا۔ غور کریں کیسے ، ایک بار جب سورج دکھائی دے رہا تھا ، تو چلنے والا سیدھی لکیر پر چلنے میں بہت زیادہ کامیاب رہا۔

  6. ایک المناک مثال کے طور پر کہ کس طرح کورس کی صرف دو ڈگریوں کی خرابی کی وجہ سے ایک مسافر طیارے کو انٹارکٹکا میں کوہِ ائِریبس پر حادثے کا سامنا کرنا پڑا ، جس میں ۲۵۷ لوگ ہلاک ہوئے ، دیکھیں ڈیٹئر ایف اُوکڈورف ،”چند درجوں کا معاملہ ہے لیحونا ، مئی ۲۰۰۸ ، ۵۷ – ۶۰۔

  7. ُقضاۃ ۲ : ۱۰۔

  8. امریکہ میں مسِیح کی ملاقات کے بعد ، لوگ واقعی اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ، بپتسمہ پاتے ، اور روح القدس پاتے تھے۔ جہاں وہ کبھی جھگڑالو اور مغرور لوگ تھے ، اب ان کے درمیان میں تفرقے اور جھگڑے نہ تھے ، اور ہر شخص ایک دُوسرے کے ساتھ عادلانہ پیش آیا “ (۴ نیفی ۱ :۲)۔ راستبازی کا یہ زمانہ کوئی دو صدیوں تک قائم رہا اِس سے قبل کہ تکبر لوگوں کو راہ سے ہٹںےپر آمادہ کرنے کا موجب بنا۔ تاہم ، رُوحانی انحراف بھی بہت جلد رُونما ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ، دہائیوں پہلے ، مورمن کی کتاب میں قاضیوں کی حکومت کے پچاسویں سال میں، ”لوگوں میں مسلسل اطمینان اور بڑی خوشی“تھی۔ لیکن تکبر کی وجہ سے جو کلیِسیا کے ارکان کے دلوں میں داخل ہوا، چار سال کے مختصر عرصہ کے بعد، ”کلیسیا میں بہت سے اختلافات ہوئے ، اور لوگوں میں بھی جھگڑا ہوا ، یہاں تک کہ بہت زیادہ خون بہایا گیا“( دیکھئے ہیلیمن ۳ : ۳۲ – ۴ : ۱

  9. عقائد اور عہود ۱۲۱: ۲۶۔

  10. اعمال ۳: ۱۹۔

  11. عقائد اور عہود ۱۲۱: ۳۳۔

  12. مائیکل کریچٹن ،جریسک پارک ( ۲۰۱۵ )، ۱۹۰۔

  13. ”بحری جہازوں کو بطورِ مثال لیں۔ اگرچہ وہ بہت بڑی ہیں اور تیز ہواؤں سے غوطہ زن ہیں ، لیکن پائلٹ جہاں کہیں بھی جانا چاہتا ہے وہ ایک نہایت چھوٹِ پتوار سے چلا جاتا ہے “ ( یعقوب ۳ : ۴ ، نیا بین الاقوامی ورژن )۔

  14. دیکھیں موسیٰ ۱: ۳۹۔

  15. مضایاہ ۳۰:۲۶۔

  16. عقائد اور عہود ۵۸: ۴۲۔

  17. استثنا۲۸: ۸-۹؛ مزید دیکھیں آیات ۱- ۷۔