مسِیح میں مزید فروغ پانا: رُجحان کی تمثیل
خداوند کے وقت میں، یہ ضروری نہیں کہ ہم کہاں سے شُروع کریں، بلکہ جہاں ہم جا رہے ہیں وہ سب سے زیادہ اہم ہے۔
نو عمر لڑکے کی حیثیت سے، میری بڑی بڑی آرزوئیں تھیں۔ ایک روز سکول کے بعد میں نے پُوچھا، ”ماں، جب مَیں بڑا ہو جاؤں تو مُجھے کیا بننا چاہیے: باسکٹ بال کا ماہر کھلاڑی یا راک سٹار؟“ بدقسمتی سے، کلارک کے ”بچکانہ کمال“ نے مُستقبل کے کھلاڑی یا موسیقی کی شان و شوکت کے کوئی آثار نہ دِکھائے۔ اور مُتعدد کوششوں کے باوجُود، مُجھے بار بار اپنے سکول کے ایڈوانسڈ تعلیمی پروگرام میں داخلہ نہ مِلا۔ میرے اَساتذہ نے آخِر کار مشورہ دیا کہ مُجھے بس حسبِ معمول جماعت میں رہنا چاہیے۔ وقت کے ساتھ، میں نے ازالہ دینے والی مطالعاتی عادات کو فروغ دیا۔ لیکن جاپان میں میرے فریضہِ تبلیغ تک اَیسا نہ ہوا تھا تب مَیں نے محسُوس کیا کہ میرے فکری اور رُوحانی اَمکانات اُبھرنا شُروع ہو گئے ہیں۔ مَیں نے محنت جاری رکھی۔ بلکہ اپنی زِندگی میں پہلی بار، مَیں نے مُنظم طریقے سے خُداوند کو اپنی ترقی میں شامِل کیا، اور اِس سے سارا فرق پڑ گیا۔
بھائیو اور بہنو، اِس کلیسیا میں، ہم خُدا کے بچّوں میں مُضمر اِلہٰی صلاحیت اور مسِیح میں مزید فروغ پانے کی اپنی لیاقت پر اِیمان رکھتے ہیں۔ خُداوند کے وقت میں، یہ ضروری نہیں کہ ہم کہاں سے شُروع کریں، بلکہ جہاں ہم جا رہے ہیں وہ سب سے زیادہ اہم ہے۔۱
اِس سچّائی کی وضاحت کے لیے، مَیں بُنیادی ریاضی کی طرف توجہ دِلاؤں گا۔ اب، مجلِسِ عامہ میں ریاضی کا لفظ سُن کر خوف و ہراس نہ پھیل جائے۔ ہمارے بی وائی یو–آئیڈاہو کے شُعبہِ ریاضی نے مُجھے یقین دِلایا ہے کہ نوخیز بھی اِس مرکزی تصور کو سمجھ پائیں گے۔ یہ یک سطری فارمولا کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ ہمارے مقصد کے لیے، قاطع، ہماری آغازی سطر ہے۔ قاطع کے لیے بُلندی یا پستی نکتہِ آغاز ہو سکتا ہے۔ رُجحانی خط ہے، جس کا جُھکاؤ مُثبت یا منفی ہو سکتا ہے۔
ہم سب کی زِندگی میں مُختلف رکاوٹیں آتی ہیں—ہم مُختلف جگہوں سے زِندگی کی مختلف نعمتوں کے ساتھ آغاز کرتے ہیں۔ بعض کی پیدایش بُلند خطوط پر،مواقوں سے بھرپُور ہوتی ہے۔ دُوسروں کو شُروع سے ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کٹھن اور غیر منصفانہ لگتے ہیں۔۲ اِس کے بعد ہم ذاتی ترقی کے رُجحان کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ ہمارے مستقبل کا تعین ہمارے نقطہ آغاز سے بہت کم اور ہمارے رُجحان سے بہت زیادہ ہوگا۔ یِسُوع مسِیح اِلہٰی وصف کو دیکھتا ہے چاہے ہم کہیں سے بھی آغاز کریں۔ جو اُس نے لاچاروں، گُناہ گاروں اور معذُوروں میں دیکھا۔ اُس نے اِسے ماہی گیر، محصُول لینے والے، اور حتیٰ کہ شِدت پسند میں دیکھا۔ ہم کہاں سے آغاز کرتے ہیں اِس سے قطعِ نظر، مسِیح اِس پر غَور کرتا ہے کہ ہمیں جو کچھ عطا کیا گیا ہے اِس کے ساتھ ہم کیا کرتے ہیں۔۳ اگرچہ دُنیا ہمارے وسائل پر توجہ دیتی ہے، خُدا ہمارے رُجحان پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ خُداوند کے حساب میں، وہ اپنی ہر ممکن کوشش کرے گا کہ ہمارے رُجحانات کو آسمان کی طرف موڑ سکے۔
اِس اُصول سے اُن لوگوں کو تسلی ملنی چاہیے جو کسمپرسی میں ہیں، اور اُن لوگوں کو توقفکرنا چاہیے جن کے پاس ہر نعمت ہے۔ مجھے نامساعد حالات، بشمول غربت،محدودتعلیمی رسائی،اور مُشکل خاندانی حالات سے اِبتدا کرنے والے اَفراد سے بات چیت کا آغاز کرنے دیں۔ دیگر جسمانی بِیماریوں، ذہنی صحت کی معذوریوں، یاقوی جینیاتی میلان کا سامنا کرتے ہیں۔۴ ہر کوئی جو کٹھن حالات میں بڑی مُشکل سے آغاز کر رہا ہے، براہ کرم یہ بات جان لے کہ نجات دہندہ ہماری مُشکلات کو جانتا ہے۔ اُس نے ”[ہماری] کم زوریاں اپنے پر [لے لیں]، کہ اُس کے پیالے رحم سے بھر [جائیں] تاکہ وہ … یہ جان [جائے] … کہ کیسے [ہماری] کم زوریوں میں [ہمیں] تقویت دینی ہے۔“۵
مشکل حالات کا سامنا کرنے والوں کے لیے مَیں حوصلہ افزائی کے دو پہلوؤں کا ذِکر کرنا چاہتا ہُوں۔ اَوّل، اِس بات پر توجہ دیں کہ آپ نے جانا کہاں ہے نہ کہ کہاں سے شُروع کیا۔ آپ کے حالات کو نظر انداز کرنا غلط ہو گا—وہ حقیقی ہیں اور اُن کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اَلبتہ مُشکل نقطہِ آغاز پر ضرورت سے زیادہ پریشان ہونا آپ کی رکاوٹ کا سبب بن سکتا ہے اور یہاں تک کہ آپ کے فیصلے کی لیاقت کو محدود کر سکتا ہے۔۶
برسوں پہلے مَیں نے بوسٹن، میساچوسٹس کے وسطی شہر کے نوجوانوں کے ایک گروپ کے ساتھ خدمت انجام دی تھی، وہ بڑی حد تک اِنجِیل اور کلیسیا کی توقعات کے لیے نئے تھے۔ میری ہمدردی اور اُن کے حالات کی فکرمندی کے اِمتحان نے مُجھے اُلجھن میں ڈالا اور چاہا کہ خُدا کے اُصُولوں سے تھوڑا سا انحراف برتوں۔۷ آخِر کار مُجھے احساس ہُوا کہ اپنی محبت ظاہر کرنے کا سب سے پُختہ طریقہ اپنی توقعات کو کبھی کم نہ کرنا تھا۔ ہر کام جو میں کرناجانتا تھا، ہم مل کر اُن کی مخفی صلاحیتوں کی طرف متوجہ ہُوئے، اور اُن میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے رُجحان کو بُلند کرنا شروع کیا۔ اِنجِیل میں اُن کی ترقی بتدریج مگر مستحکم تھی۔ آج، وہ تبلیغی خِدمات انجام دے چُکے، کالج سے فارغ اُلتحصیل ہو چُکے، ہیکل سے نِکاح یافتہ ہیں، اور قابل ذِکر نجی اور پیشہ ورانہ زِندگیاں گُزار رہے ہیں۔
دوم، اپنے رُجحان کو بُلند و بالا لے جانے کے عمل میں خُداوند کو شامل کریں۔ بی وائے یو–پاتھ وے ورلڈ وائڈ کے صدر کی حیثیت سے اپنی خدمت کے دوران میں، مجھے لیما، پیرو میں ایک بڑے اِجتماع میں بیٹھنا یاد ہے، جہاں بُزرگ کارلوس اے گاڈوئے مُقرر تھے۔ جب اُنھوں نے جماعت کی طرف دیکھا، تو وہ بہت سارے وفاداریونیورسٹی طالب علموں کی پہلی نسل کو دیکھ کر جذبات سے ملغوب نظر آتے تھے۔ شاید ایسے ہی حالات سے گُزرتے ہُوئے اُنہوں نے اپنی ذاتی مشکلات پر غو رکیا، بزرگ گوڈوئے نے جذباتی اَنداز میں کہا: خداوند ”آپ کی اِس سے زیادہ مدد کرے گا جتنا آپ اپنی مدد کر سکتے ہیں۔ [پس] خُداوند کو اِس عمل میں شامل کریں۔“۸ نیفی نبی نے سِکھایا ”کہ بالآخر سب کُچھ کرنے کے بعد یہ فضل کے وسیلے سے ہے کہ ہم بچائے جاتے ہیں۔“۹ ہمیں اپنی بہترین کوشش کرنالازم ہے، ۱۰جس میں توبہ شامل ہے، مگر یہ صرف اُس کے فضل کے وسیلے سے ہی ہے کہ ہم اپنی اِلہٰی صلاحیت کا اِدراک پا سکتے ہیں۔۱۱
آخِر میں، مَیں اُن لوگوں کو دو شعبوں میں نصیحت کرتا ہُوں جو اپنا آغاز بُلندی سے کرتے ہیں۔ اَوّل، کیا ہم اُن حالات کے لیے تھوڑی سی فروتنی دِکھا سکتے ہیں جنھیں ہم نے خُود سے پیدا نہیں کیا؟ جیسا کہ بی وائی یو کے سابق صدر ریکس ای لی نے اپنے طالب علموں کو حوالہ دیا، ”ہم سب نے اُن کنوؤں سے پانی پِیا ہے جنھیں ہم نے خُود نہیں کھودا اور ہم نے اُن اَنگٹھیوں سے آگ تاپی ہے جنھیں ہم نے خُود تیار نہیں کیا۔“۱۲ پھر اُس نے اپنے طالب علموں سے کہا کہ وہ بدلہ چُکائیں اور اُن تعلیمی کنوؤں کو معمُور کریں جوپہلے پیش روئوں نے تعمیر کیے تھے۔ دُوسروں کے کاشت شدہ کھیتوں میں پھر سے بِیج بونے میں ناکامی توڑے سے نفع کمائے بغیر واپس کرنے کے مُترادف ہے۔
دوم، بُلند نقطہِ آغاز پر توجہ مرکوز کرنا اکثر ہمیں اِس احساسِ فریب میں پھنسا سکتا ہے کہ ہم ترقی کر رہے ہیں جب کہ حقیقت میں ہمارا باطنی رُجحان مکمل جمُود کا شِکار ہو سکتا ہے۔ ہارورڈ پروفیسر کلے ٹن ایم کرسچن سن نے سِکھایا کہ سب سے زیادہ کامیاب لوگ سب سے زیادہ فروتن ہوتے ہیں کیوں کہ وہ اِس قدر پُراعتماد ہوتے ہیں کہ کسی سے بھی اِصلاح اور تعلیم پا سکتے ہیں۔۱۳ بزرگ ڈی ٹاڈ کرسٹوفرسن نے ہمیں ہدایت دی کہ ”رضامندی سے قبول کرنے کے راستے تلاش کریں اور یہاں تک کہ اِصلاح کے مُشتاق رہیں۔“۱۴ یہاں تک کہ جب اَمُور موّثر انداز میں انجام دیتے ہُوئے دِکھائی دیں، سنجِیدہ فریاد و مُناجات اور رضامندی سے توبہ کے ذریعے ہمیں مزید بہتری کے مواقعوں کی جُستجُو میں رہنا چاہیے۔
اِس بات سے قطع نظر کہ ہم آسُودہ یا مُشکل حالات میں آغاز کرتے ہیں، ہمیں اپنی حتمی مُمکنہ صلاحیت کا اِدراک صرف تب ہوگا جب ہم خُدا کو اپنا رفیقِ کار بنائیں گے۔ میری حال ہی میں مُمتاز ماہرِ تعلیم کے ساتھ بات چِیت ہُوئی وہ بی وائی یو–پاتھ وے کے بارے میں پُوچھ رہا تھا۔ وہ ذہین تھا اور اُس کی تحقیق مُخلص تھی، مگر وہ واضح طور پر غیر مذہبی جواب چاہتا تھا۔ مَیں نے اِس کے ساتھ ہماری حاضری و ٹھہراؤ قائم کرنے کے پروگرامز اور اَتالیقی کاوِشوں کا تذکرہ کیا۔ اَلبتہ مَیں نے یہ کہہ کر اختتام کیا، ”یہ سب موّثر طریقے ہیں، لیکن ہمارے طالب علموں کی ترقی کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم اُنھیں اُن کی اِلہٰی صلاحیت سے رُوشناس کرواتے ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ اگر آپ کی پُوری زِندگی آپ کو بتایا گیا ہو کہ آپ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔ اور پھر یہ سِکھائے جانے کے اثر پر غور کریں کہ آپ اِلہٰی اَمکان کے ساتھ خُدا کے حقیقی بیٹے یا بیٹی ہیں۔“ اُس نے توقف کیا، پھر صرف جواب دیا، ”یہ قوی ہے۔“
بھائیو اور بہنو، اِس کے معجزات میں سے ایک، خُداوند کی کلیسیا، یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک مسِیح میں مزید بہتر بن سکتا ہے۔ مَیں کسی اور اِدارے کے بارے میں نہیں جانتا جو اپنے اَرکان کو خِدمت کرنے، صِلہ چُکانے، توبہ کرنے، اور زیادہ موّثر لوگ بننے کے بہت زیادہ مواقع فراہم کرتا ہے۔ چاہے ہم دُشوار یا آسُودہ رُوحانی حالات سے آغاز کریں، آئیں ہم اپنی نظر اور رُجحان کو آسمان کی طرف رکھیں۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں، تو مسِیح ہمیں زیادہ بُلند مقام پر لے جائے گا۔ یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔