مجلسِ عامہ
اپنے سارے ایام میں خُداوند کا منظُورِ نظر رہا
مجلسِ عامہ اکتوبر ۲۰۲۱


اپنے سارے ایام میں خُداوند کا منظُورِ نظر رہا

ہم اپنی مُصِیبتوں پر کیسا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں؟ کیا ہم شُکر گُزاری محسوس کرتے ہیں کیوں کہ ہم اپنی پریشانیوں کی بجائے اپنی نعمتوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں؟

کووِڈ–۱۹ وبا بہت ساری آزمائشوں اور مسئلوں میں سے ایک ہے جس کا سامنا خُدا کی اُمت نے پُوری دُنیا کی تاریخ میں کیا ہے۔ اِسی برس کے آغاز میں، مَیں اور میرا پیارا خاندان چند تارِیک دِنوں سے گُزرے۔ وبائی مرض اور دیگر وجوہات کے سبب سے ہمارے چند عزیزوں کے اِنتقال سے ہمارے خاندان میں موت اور غم آ گئے۔ طبی علاج، روزہ، اور دُعا کے باوجود، پانچ ہفتوں کے دوران میں میرا بھائی چارلی، میری بہن سوسی، اور میرا بہنوئی جیمی پردے کے دُوسری طرف چلے گئے۔

بعض اَوقات مَیں نے سوچا کہ نجات دہندہ کیوں رویا جب اُس نے مریم کو اپنے بھائی لعزر کی موت سے نڈھال دیکھا،اگرچہ وہ جانتا تھا کہ اُس کے پاس لعزر کو زندہ کرنے کی قُدرت ہے اور بہت جلد نجات دہندہ اپنے دوست کو موت سے بچانے کے لیے اِس قُدرت کا اِستعمال کرے گا۔۱ مَیں مریم کے لیے نجات دہندہ کی ہمدردی اور دردمندی پر حیران ہُوں؛ اُس نے ناقابلِ بیان درد کو سمجھا جو مریم نے اپنے بھائی لعزر کی موت پر محسوس کیا۔

جب ہم اپنے پیاروں سے عارضی طور پر بچھڑنے کا تجربہ کرتے ہیں تو ہم وہی شدید درد محسوس کرتے ہیں۔ نجات دہندہ کی ہم پر کامِل شفقت ہے۔ وہ ہماری کوتاہ بِینی کے سبب سے ہم پر اِلزام نہیں لگاتا، اور نہ ہمارے ابدی سفر کو دیکھنے میں محدود ہونے کی بِنا پر۔ بلکہ، وہ ہمارے دُکھ اور اَلم پر ترس کھاتا ہے۔

آسمانی باپ اور اُس کے بیٹے، یِسُوع مسِیح، کی منشا ہے کہ ہم شادمان ہوں۔۲ صدر رسل ایم نیلسن نے سِکھایا ہے:”جو خُوشی ہم محسوس کرتے ہیں اُس کا دارومدار ہماری زندگی کے حالات پر کم اور بہت زیادہ اِس بات پر ہے کہ ہم اپنی زندگی کا مرکز کس چیز کو بناتے ہیں۔ جب ہماری زِندگیوں کا مرکز خُدا کا منصُوبہِ نجات ہے، … تو ہماری زندگی میں کیا ہو رہا ہے—یا کیا نہیں ہو رہا—اِس سے قطعِ نظر ہم خُوشی محسوس کر سکتے۔“۳

جب مَیں نوجوان مُبلغ تھا، مُجھے یاد پڑتا ہے جب ایک اعلیٰ پائے کے مُبلغ نےجس کا میں مداح رہا تھا اِنتہائی بُری خبر موصول کی۔ اُس کی ماں اور اُس کا چھوٹا بھائی ایک الم ناک حادثے میں اِنتقال کر گئے تھے۔ صدرِ تبلیغ نے اِس مُبلغ کو جنازے میں شامِل ہونے کے لیے گھر جانے کی پیشکش کی۔ اَلبتہ، اپنے والد کے ساتھ فون پر بات کرنے کے بعد، اُس مُبلغ نے گھر نہ جانے اور اپنے فریضہِ تبلیغ کو پُورا کرنے کا فیصلہ کیا۔

شبیہ
ہسپتال میں مُبلغ سے مُلاقات کرنا

تھوڑے عرصہ بعد، جب ہم اِسی حلقے میں خِدمات انجام دے رہے تھے، تو میرے رفیقِ کار کواور مجھے ایک ہنگامی کال موصُول ہوئی، کہ چند چوروں نے اُسی مُبلغ کی سائیکل چوری کی تھی اور اُس کو چاقو سے زخمی کر دیا تھا۔ اُسے اور اُس کے رفیقِ کار کو قریبی ہسپتال تک پیدل چلنا پڑا، جہاں میرا رفیقِ کار اور مَیں اُن سے ملاقات کرنے گئے۔ ہسپتال جاتے ہوئے، مَیں اُس مُبلغ کے لیے غمگین تھا۔ مَیں نے سوچا کہ اُس کے حوصلے پست ہوں گے اور یقیِنا اِس تکلیف دہ تجربے کے بعد، اب وہ گھر واپس جانا چاہے گا۔

اَلبتہ، جب ہم ہسپتال پہنچے تو مَیں نے دیکھا کہ وہ مُبلغ اپنے بستر پر پڑا ہے، سرجری کا مُنتظر ہے—اور وہ مُسکرا رہا تھا۔ مَیں نے سوچا، ”وہ اَیسے وقت میں کیوں کر مُسکرا سکتا ہے؟“ جب وہ ہسپتال میں صحت یاب ہو رہا تھا، تو اُس نے جوش و خروش سے ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر مریضوں میں پمفلٹ اور مورمن کی کِتاب کے نُسخے بانٹے۔ یہاں تک کہ اِن آزمایشوں کے باوجود، وہ گھر نہیں جانا چاہتا تھا۔ بلکہ، اُس نے اپنے فریضہِ تبلیغ کے آخِری دِن تک اِیمان، جان، طاقت، اور جوش و خروش کے ساتھ خِدمات انجام دیں۔

مورمن کی کِتاب کے آغاز میں، نیفی لِکھتا ہے، ”مَیں نے اپنی زندگی میں بُہت مُصِیبتیں دیکھی ہیں، تو بھی، مَیں اپنی ساری عُمر خُداوند کا زبردست منظُورِ نظر رہا ہُوں۔“۴

مَیں اِن کئی آزمایشوں کے بارے میں سوچتا ہُوں جِن میں سے نیفی گُزرا تھا، جِن میں سے بہت سی اُسی کے نوِشتوں میں شامِل ہیں۔ اِس کی آزمایشیں ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کرتی ہیں کہ ہم سب کے اپنے اپنے تارِیک دِن ہیں۔ اِن میں سے ایک آزمایش اِس وقت پیش آئی جب نیفی کو حُکم دیا گیا کہ وہ یروشلیم واپس جائے تاکہ پیتل کے اَوراق جو لابن کے قبضے میں تھے حاصل کرے۔ نیفی کے کچھ بھائی کم اَعتقاد آدمی تھے، اور اُنھوں نے نیفی کو لاٹھی سے بھی پیٹا۔ نیفی کو ایک اور آزمایش کا سامنا کرنا پڑا جب اُس کی کمان ٹُوٹ گئی اور اپنے خاندان کے لیے خوراک حاصل نہ کر سکا۔ بعد میں، جب نیفی کو جہاز بنانے کا حُکم دیا گیا، تو اُس کے بھائیوں نے اُس کا تمسخر اُڑایا اور اُس کی مدد کرنے سے اِنکار کر دیا۔ اپنی زِندگی کے دوران میں اِن اور کئی دیگر آزمایشوں کے باوجود، نیفی نے ہمیشہ خُدا کی بھلائی کو پہچانا۔

شبیہ
نیفی جہاز پر بندھا ہوا

جب اُس کا خاندان موعودہ سرزمین جانے کے لیے سمُندر پار کر رہا تھا، نیفی کے خاندان میں سے بعض نے عیش پرستی شُروع کر دی، تلخ کلامی پر اُتر آئے، اور بھول گئے کہ یہ خُداوند کی قُدرت تھی جس نے اُنھیں بچائے رکھا تھا۔ جب نیفی نے اُنھیں تنبیہ کی، تو وہ ناراض ہو گئے اور اُس کو رسیوں سے باندھ دیا کہ وہ ہلنے کے قابل بھی نہ تھا۔ مورمن کی کِتاب بتاتی ہے کہ اُس کے بھائیوں نے ”[اُس] کے ساتھ بڑا سخت برتاؤ کیا“؛ اُس کے ٹخنے اور کلائیاں ”کافی سُوجھے ہُوئے تھے، اور اُن میں شدید درد تھا۔“۵ نیفی اپنے بھائیوں کے دِلوں کی سنگینی کی وجہ سے رنجیدہ ہُوا تھا اور بعض اوقات دُکھوں کے سبب سے مغلُوب ہو جاتا تھا۔۶ ”تو بھی،“ اُس نے کہا، ”مَیں نے خُدا ہی کی طرف نظر کی تھی اور دِن بھر اُس کی تمجید کی تھی؛ اور اپنی مُصِیبتوں کی وجہ سے خُداوند کے خلاف شکایت نہ کی تھی۔“۷

میرے پیارے بھائیو اور بہنو، ہم اپنی مُصِیبتوں پر کیسا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں؟ کیا ہم اِن کی وجہ سے خُداوند کے سامنے بُڑبڑاتے ہیں؟ یا، نیفی اور میرے سابق مُبلغ دوست کی طرح، کیا ہم قول، فکر اور عمل میں شُکر گُزاری محسوس کرتے ہیں کیوں کہ ہم اپنی پریشانیوں کی بجائے اپنی نعمتوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں؟

ہمارے نجات دہندہ ، یِسُوع مسِیح نے اپنی فانی خِدمت کے دوران میں ہمیں نمونہ دیا۔ مُشکل اور آزمایش کے لمحات میں، بعض چیزیں اَیسی ہوتی ہیں جو ہمیں دُوسرے اِنسانوں کی خِدمت کرنے سے بڑا سکُون اور اَطمینان دیتی ہیں۔ متّی کی کِتاب بیان کرتی ہے کہ کیا ہُوا جب نجات دہندہ کو معلوم ہُوا کہ ہیرودیاس کی بیٹی کو خُوش کرنے کے لیے ہیرودیس بادِشاہ نے اُس کے رِشتہ دار، یُوحنّا بپتسما دینے والے،کا سر قلم کروا دیا ہے:

”اور اُس کے شاگِردوں نے آ کر لاش اُٹھا لی اور اُسے دفن کر دِیا اور جا کر یِسُوعؔ کو خبر دی۔

”جب یِسُوعؔ نے یہ سُنا تو وہاں سے کشتی پر الگ کِسی وِیران جگہ کو روانہ ہُوا اور لوگ یہ سُن کر شہر شہر سے پَیدل اُس کے پِیچھے گئے۔

”اُس نے اُتر کر بڑی بِھیڑ دیکھی اور اُسے اُن پر ترس آیا اور اُس نے اُن کے بِیماروں کو اچّھا کر دِیا۔

”اور جب شام ہُوئی تو شاگِرد اُس کے پاس آ کر کہنے لگے کہ جگہ وِیران ہے اور وقت گُذر گیا ہے؛ لوگوں کو رُخصت کر دے تاکہ گاؤں میں جا کر اپنے لیے کھانا مول لیں۔

”یِسُوعؔ نے اُن سے کہا اِن کا جانا ضرُور نہیں۔ تُم ہی اِن کو کھانے کو دو۔“۸

یِسُوع مسِیح نے ہمیں دِکھایا کہ آزمایش اور مُصِیبت کے وقت ،ہم دُوسروں کی مُشکلات کو پہچان سکتے ہیں۔ دردمندی کے ساتھ آگے بڑھ کر، ہم اُن تک پہنچ سکتے ہیں اور اُنھیں اُٹھا سکتے ہیں۔ اور جب ہم اَیسا کرتے ہیں، تو ہم اپنی مثلِ مسِیح خِدمت کے ذریعے سے بھی اُٹھائے جاتے ہیں۔ صدر گورڈن بی ہنکلی نے فرمایا: ”پریشانی کا بہترین توڑ جو میں جانتا ہوں کام ہے۔ مایوسی کی بہترین دوا خِدمت ہے۔ تھکاوٹ کا بہترین علاج کسی اَیسے شخص کی مدد کرنا ہے جو زیادہ تھکا ہُوا ہے۔“۹

یِسُوع مسِیح کی، اِس کلِیسیا میں، مُجھے دُوسرے لوگوں کی خِدمت اور خِدمت گُزاری کے بہت سے مواقع ملے ہیں۔ عین اِنھی گھڑیوں میں جب مَیں محسوس کرتا ہُوں کہ آسمانی باپ میرے بوجھ کو ہلکا کرتا ہے۔ صدر رسل ایم نیلسن اِس جہاں میں خُدا کے نبی ہیں؛ وہ ایک بڑی مثال ہے کہ ہمیں مُشکل آزمایشوں کے دوران میں دُوسروں کی خِدمت کیسے کرنی چاہیے۔ مَیں اپنی گواہی کو بہت سے دُوسرے مُقدّسین کے ساتھ مِلاتا ہُوں، کہ خُدا ہمارا پیار کرنے والا آسمانی باپ ہے۔ مَیں نے اپنے تارِیک دِنوں میں اُس کی لامحدود محبت کو محسوس کیا ہے۔ ہمارا نجات دہندہ، یِسُوع مسِیح ہمارے درد اور ہماری مُصِیبتوں کو سمجھتا ہے۔ وہ ہمارے بوجھ کو کم کرنا اور ہمیں تسلی دینا چاہتا ہے۔ ہمیں اُس کی تقلید کرتے ہُوئے اُن لوگوں کی خِدمت اور خِدمت گُزاری کرنی چاہیے جن کا بوجھ ہمارے اپنے بوجھ سے زیادہ بھاری ہے۔ یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔

شائع کرنا