کلیِسیا کی ضرورت
ہم ، یقیناً، اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ صحائف ، قدیم اور جدید ، واضح طور پر ہمارے خداوند ، یِسُوع مسِیح کے اختیار اور ہدایت سے کلیِسیا کی ابتدا اور ضرورت سکھاتے ہیں۔
بہت سال پہلے ، بارہ رسولوں کی جماعت کے رکن ایلڈر مارک ای ۔ پیٹرسن نے اس مفروضہ مثال سے خطاب کا آغاز کیا۔
” کینتھ اور اس کی بیوی، لوسیل، اچھے، دیانت دار اور راست باز لوگ ہیں۔ وہ چرچ نہیں جاتے ہیں،مگر، وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اس کے بغیر کافی اچھے ہو سکتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو دیانت داری اور نیکی کی تعلیم دیتے ہیں اور وہ خود کو بتاتے ہیں کہ کلیِسیا بھی اِن کے لیے یہ ہی سب کچھ کرے گی۔
”اور ، پھر بھی ، وہ اصرار کرتے ہیں کہ اُنہیں خاندانی تفریح کے لئے اپنے ویک اینڈ کی ضرورت ہے … [ اور ] چرچ جانا واقعی اُن کی راہ میں حائل ہو گا۔“۱
آج، میرا پیغام ایسے اچھے اور مذہبی ذہنیت والے لوگوں کے بارے میں ہے جنہوں نے اپنی کلیِسیائوں میں حاضر ہونا یا شرکت کرنا ترک کر دیا ہے۔۲ جب میں کہتا ہوں ”کلیِسیائیں“ میں عبادت گاہوں ، مساجد، یا دیگر مذہبی تنظیموں کو شامل کرتا ہوں۔ ہم فکرمند ہیں کہ ملک بھر میں اِن سب میں حاضری نمایاں طور پر کم ہے ۔۳ اگر ہم کسی بھی وجہ سے اپنی کلیسیاؤں کی قدر کرنا بند کر دیں ، تو ہم اپنی ذاتی روحانی زندگی کو خطرہ لاحق کر دیتے ہیں ، اور نمایاں تعداد جو خدا سے الگ ہوتی ہیں وہ ہماری قوموں کے لیے اُس کی برکات کو کم کر دیتی ہیں۔
چرچ میں حاضری اور سرگرمی ہمیں بہتر لوگ اور دوسروں کی زندگیوں میں بہتر اثر و رسوخ بننے میں مدد دیتی ہے۔ کلیِسیا میں ہمیں سکھایا گیا ہے کہ کیسے مذہبی اصولوں کو لاگو کرنا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔ ایک راغب کرنے والی مثال وعظ سے زیادہ قوی ہے۔ ہم یکساں سوچ کے دوسروں لوگوں سے وابستہ ہو کر مضبوطی پاتے ہیں۔ کلیِسیا میں حاضری اور شرکت، ہمارے دل ، جیسا کہ بائبل کہتی ہے، ” محبت سے آپس میں بُنے رہتے ہیں۔“۴
I۔
صحائف جو خدا نے بائبل کی صورت میں مسِیحیوں کو دیے ہیں اور جدید مکاشفہ واضح طور پر کلیِسیا کی ضرورت کی تعلیم دیتا ہے۔ دونوں بتاتے ہیں کہ یِسُوع مسِیح نے ایک کلیِسیا منظم کی اور سوچا کہ اُس کے بعد کلیِسیا اُس کے کام کو جاری رکھے گی۔ اُس نے بارہ رسُولوں کو بلاہٹ دی اور اِس کو چلانے کے لیے اُنہیں اختیار اور کنجیاں دیں۔ بائبل سکھاتی ہے کہ مسِیح ”کلیسیا کا سر“۵ ہے اور اِس کے عہدے داران دیے گئے ہیں تاکہ ”مُقدس لوگ کامل بنیں، خدمت گذاری کا کام کیا جائے، مسِیح کا بدن ترقی پائے۔“۶ یقیناً بائبل کلیِسیا کی ابتدا اور اب اِس کی ضرورت پر واضح ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کلیِسیائی عبادات میں شامل ہونے سے ان کی مدد نہیں ہو رہی ہے۔ کچھ کہتے ہیں، ” آج میں نے کچھ نہ سیکھا “یا ” کوئی بھی میرے ساتھ مہربان نہیں تھا “ یا ”مجھے ٹھیس پہنچائی گئی“ ذاتی مایوسیوں سے ہمیں یسوی مسیح کی تعلیم سے دور نہیں ہونا چاہیے۔، جس نے ہمیں خدمت کرنا سکھایا ، نہ کہ خدمت کروانا۔۷ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، ایک اور رکن نے اپنے چرچ کی حاضری کے مرکز کے بارے میں بیان کیا:
” برسوں پہلے ، میں نے چرچ جانے کے بارے میں اپنا رویہ بدلا۔ اب میں مزید اپنی خاطر چرچ نہیں جاتا، بلکہ دوسروں کے بارے میں سوچنے کے لئے۔ میں اُن لوگوں سے بات کرنے کے لیے کوئی نقطہ نکالتا ہوں جو اکیلے بیٹھتے ہوں، زائرین کو خوش آمدید کہتا ہوں، … رضاکارانہ طور کوئی ذمہ داری لینا۔ …“
”مختصراً، میں ہر ہفتے سرگرم ہونے ، غیر فعال نہ ہونے ، اور لوگوں کی زندگیوں میں مثبت فرق ڈالنےکے ارادے سے چرچ جاتا ہوں۔“۸
صدر سپنسر ڈبلیو قمبل نے سکھایا کہ ” ہم محض تفریح پانے یا حتی کہ محض ہدایت پانے کے لیے سبت کے اجلاسوں میں نہیں جاتے ہیں۔ ہم خُداوند کی عبادت کے لیے جاتے ہیں۔ یہ ایک انفرادی ذمہ داری ہے۔ … اگر عبادت آپ لیے ناکامی ہے ، تو آپ ناکام ہو گئے ہیں ۔ کوئی بھی آپ کے لیے پرستش نہیں کر سکتا؛ آپ کو خُود لازماً خداوند کے منتظر ہونا چاہیے۔“۹
کلیِسیائی حاضری ہمارے دلوں کو کھولتی اور ہماری جانوں کو پاک کر سکتی ہے۔
کسی کلیِسیا میں ہم اکیلے یا اپنی پشند یا اپنی سہولت سے خدمت نہیں کرتے ہیں۔ ہم عموماً ٹیم میں خدمت کرتے ہیں۔ خدمت کے دوران میں ہم اپنی عمر کی انفرادیت سے بالا تر ہونے کے آسمان سے بھیجے گئے مواقع پاتے ہیں۔ کلیِسیائی ہدایت یافتہ خدمت ہماری ذاتی خود غرضی پر غالب آنے میں مدد کرتی ہے جو ہماری روحانی نشوونما کو پسماندہ کر سکتی ہے۔
ذکر کرنے کے لیے اور بھی اہم فوائد ہیں ، حتی کہ مختصراً۔ کلیِسیا میں ہم خدا کی خدمت کرنے کی سعی کرنے والے شاندار لوگوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم اپنی مذہبی سرگرمیوں میں تنہا نہیں ہیں۔ ہم سب کو دوسروں کے ساتھ رفاقت کی ضرورت ہے، اور کلیِسیائی رفاقتیں ہمارے لیے اور ہمارے ساتھیوں اور بچوں کے لیے بہترین تجربہ ہیں۔ اِن رفاقتوں کے بغیر، خصوصاً بچوں اور وفادار والدین کے مابین، تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ والدین اپنے بچوں کی اپنے ایمان میں پرورش کرنا مشکل پاتے ہیں ۔۱۰
II۔
اب تک ، میں نے کلیسیاؤں کی بابت عمومی طورپر بات کی ہے۔ اب میں کلیِسیائے یِسُوع مسِیح برائے مقدسین آخری ایام میں رکنیت ، حاضری ، اور شرکت کی خصوصی وجوہات کو مخاطب کرتا ہوں۔
ہم ، یقیناً، اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ صحائف ، قدیم اور جدید ، واضح طور پر ہمارے خداوند ، یِسُوع مسِیح کے اختیار اور ہدایت سے کلیِسیا کی ابتدا اور ضرورت سکھاتے ہیں۔ ہم یہ بھی گواہی دیتے ہیں کہ یِسُوع مسِیح کی بحال شدہ کلیِسیا کو اُس کی تعلیم کی معموری سکھانے اور خدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لیے ضروری رسومات ادا کرنے کے لیے اُس کے کہانتی اختیار سے فرائض انجام دینے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔۱۱ وہ ارکان جو کلیِسیائی حاضری کو ترک کرتے ہیں اور صرف انفرادی روحانیت پر بھروسہ کرتے ہیں وہ خود کو اِن انجیلی ضروریات سے الگ کرتے ہیں :جو کہ کہانت کی قوت اور برکات، بحال شدہ تعلیم کی معموری، اور اُس عقیدے کو لاگو کرنے کی ترغیبات اور مواقع ہیں۔ وہ اپنے خاندان کو ابدی طور پر دوام بخشنے کے اہل ہونے کا اپنا موقع ضبط کرا لیتے ہیں۔
بحال شدہ کلیِسیا کا ایک اور عظیم فائدہ یہ ہے کہ یہ ہماری رُوحانی ترقی میں مدد کرتی ہے۔ ترقی کا مطلب تبدیلی ہے۔ رُوحانی لحاظ سے اس کا مطلب توبہ کرنا اور خداوند کے قریب تر ہونے کے خواہاں ہونا ہے۔ بحال شدہ کلیِسیا میں ہمارے پاس عقائد ، طریقہ کار ، اور الہامی مددگار ہیں جو توبہ کرنے میں ہماری معاونت کرتے ہیں۔ اُن کا مقصد یہاں تک کہ رکنیتی مشاورت میں بھی سزا نہیں جیسا کہ فوجداری کی عدالت میں ہوتا ہے۔ کلیِسیائی رکنیت کی مشاورتی مجالس محبت سے یِسُوع مسِیح کے کفارہ کے وسیلے سے ممکن ہونے والی معافی کے رحم کااہل ہونے میں ہماری مدد کرنے کی خواہاں ہے۔
انفرادی رُوحانیت کبھی بھی بحال شدہ کلیِسیا کی فراہم کردہ بےلوث خدمت کی تحریک اور ڈھانچہ مہیا نہیں کر سکتی۔ اُس کی عظیم مثالیں نوجوان مرد و خواتین اور بزرگ ہیں جو تبلیغی بلاہٹوں کو قبول کرنے کے لیے اپنی تعلیمی یا ریٹائرمنٹ کی سرگرمیوں کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ وہ اجنبیوں کے لیے انجان مقامات پر مبلغین کے طور پر کام کرتے ہیں جو اُن کے منتخب کردہ نہیں ہوتے ہیں۔ وفادار ارکان کا بھی یہی حال ہے جو اِس بےلوث خدمت میں شریک ہوتے ہیں جسے ہم ” کارِ ہیکل “ کہتے ہیں۔ ایسی کوئی بھی خدمت کلیِسیا کے بغیر ممکن نہ ہو گی جو اِس کی کفالت کرتی، اسے منظم کرتی ، اور اِس کی ہدایت کرتی ہے۔
ہمارے اراکین کے مذہبی ایمان اور کلیِسیائی خدمت نے اُنہیں سکھایا ہے کہ کس طرح معاشرے کے عظیم تر مفاد میں باہمی کوشش سے کام کرنا ہے۔ ہمارے موجودہ معاشرے کے طرز عمل میں موجود انفرادیت کی غالب مشق میں اِس قسم کا تجربہ اور ترقی رونما نہیں ہوتی۔ ہماری مقامی حلقوں کی جغرافیائی تنظیم میں ، ہم ان لوگوں کے ساتھ وابستہ ہو کر کام کرتے ہیں جن کو ہم بصورت دیگر منتخب نہ کرتے ، وہ لوگ جو ہمیں سکھاتے اور ہماری جانچ کرتے ہیں۔
محبت ، ہمدردی ، معافی ، اور صبر جیسے روحانی خصائل کو سیکھنے میں ہماری مدد کرنے کے علاوہ، یہ ہمیں سیکھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے کہ مختلف پس منظر اور ترجیحات کے افراد کے ساتھ کیسے کام کرنا ہے۔ اس فائدے نے ہمارے بہت سارے ارکان اور بہت سی تنظیموں کی مدد کی ہے جو ان کی شرکت سے برکت پاتے ہیں۔ مُقدسین آخری ایام راہ نمائی کرنے اور باہمی کاوشوں میں متحد ہونے کی صلاحیت کے باعث بہت شہرت رکھتے ہیں۔ اس روایت کی ابتدا ہمارے بہادر پیش روؤں سے ہوئی جنہوں نے مغرب میں پہاڑی وادیوں کو آباد کیا اورمشترکہ بھلائی کے لیےبےغرض تعاون کی ہماری قابل قدر روایت کو قائم کیا۔
زیادہ تر انسان دوست اور خیراتی کاوشوں کے لیے بڑے پیمانے پر انفرادی وسائل کو جمع کرنے اور انتظام کرنے کی ضرورت ہے۔ بحال شدہ کلیِسیا دنیا بھر میں اپنی عظیم انسان دوست کاوشوں سے ایسا ہی کرتی ہے۔ ان میں تعلیمی اور طبی سامان ، بھوکوں کو کھانا کھلانا ، پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کرنا ، لتوں کے اثرات کو پلٹنےمیں مدد کرنا ، اور اور دیگر بہت سارے کام شامل ہیں۔ ہمارے کلیِسیائی ارکان قدرتی آفات میں مددگار ہاتھ کے منصوبوں کے لیے مشہور ہیں۔ کلیِسیائی رکنیت ہمیں اس طرح کے بڑے پیمانے کی کاوشوں کا حصہ بننے کی اجازت دیتی ہے۔ ارکان غریبوں کی مدد کرنے کے لیے جو اُن کے درمیان میں ہوتے ہیں اُن کے لیے روزے کے ہدیے بھی ادا کرتے ہیں۔
رُوح کی رفاقت کے ذریعے اطمینان اور خوشی محسوس کرنے کے علاوہ ، ہمارے چرچ آنے والے ارکان انجیلی زندگی گزارنے کے ثمرات سے لطف اندوز ہوتے ہیں، جیسا کہ حکمت کے کلام پر عمل کرنے کی برکات اوردہ یکی کے قانون کے مطابق زندگی گزارنے پر مادی اور روحانی خوشحالی کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ہمیں الہامی قائدین کی مشورت کی برکت بھی حاصل ہے ۔
اِن میں سے سب سےاہم کہانتی رسوم ہیں جو ابدیت کے لیے ضروری ہیں، بشمول عشائے ربانی جو ہم سبت کے دن لیتے ہیں۔ بحال شدہ کلیِسیا میں حتمی رسم شادی کا ابدی عہد ہے ، جس سے پرجلال خاندانی رشتوں کو قائم و دائم رکھنے کو ممکن بنایا گیا ہے۔ صدر رسل ایم نیلسن نے ہہمیں اِسے بڑے یاد گار انداز سے سکھایا ہے۔ انہوں نے کہا : ”ہم خدا کی موجودگی میں اپنے راستے کی خواہش نہیں کر سکتے۔ ہمیں اُن قوانین کی فرمانبرداری کرنی ہے جس کی [اُس برکت ] پیش گوئی کی گئی ہے“۱۲
ان قوانین میں سے ایک ہر سبت کے دن چرچ میں عبادت کرنا ہے۔۱۳ ہماری پرستش اور ابدی اصولوں کا اطلاق ہمیں خدا کے قریب تر لاتا اور محبت کرنے کی ہماری صلاحیت کو بڑھاتا اور تقویت دیتا ہے۔ پارلے پی پراٹ ، جو اِس زمانے کے اصل رسولوں میں سے ایک ہیں ، نے بیان کیا کہ جب نبی جوزف سمتھ نے ان اصولوں کی وضاحت کی تو اس نے کیسا محسوس کیا: ”میں نے محسوس کیا کہ خدا واقعی میرا آسمانی باپ ہے ؛ کہ یِسُوع میرا بھائی تھا ، اور کہ میری سینے کی بیوی ایک لافانی ، ابدی رفیق تھی : ایک مہربان ، خدمت گزار فرشتہ ، مجھے آرام پہنچانے کے لیے دی گئی ہے ، اور ہمیشہ سے ہمیشہ تک کے جلال کا تاج۔ مختصراً ، اب میں رُوح اور فہم سے بھی محبت کر سکتا ہوں۔“۱۴
آخر میں، میَں سب کو یاد دِلاتا ہوں کہ ہم یہ ایمان نہیں رکھتے کہ ساری بھلائی صرف کلیِسیاکے ذریعے ہی کی جا سکتی ہے۔ کلیِسیا سے آزاد ، ہم لاکھوں لوگوں کو لامحدود اچھے کاموں کی حمایت اور نذر کرتے دیکھتے ہیں۔ انفرادی طور پر ، مُقدسین آخری ایام اِن میں سے بہت سے کاموں میں شریک ہوتے ہیں۔ ہم اِن کاموں کو ابدی سچائی ”اور رُوح ہر آدمی کو جو دُنیا میں آتا ہے نُور عطا کرتا ہے؛“کے مظہر کے طور پر دیکھتے ہیں کہ ۱۵
اُن نیک کاموں کے باوجود جو کلیِسیا کے بغیر بھی تکمیل پا سکتے ہیں ، عقائد کی معموری اور اس کی بچانے اور سرفرازی بخش رسومات صرف بحال شدہ کلیِسیا میں ہی دستیاب ہیں۔ اِس کے علاوہ ، کلیِسیائی حاضری ہمیں ایمان کی مضبوطی اور تقویت بخشتی ہے جو دوسرے ایمانداروں کے ساتھ وابستہ ہونے اور ان کے ساتھ مل کر پرستش کرنے سے آتی ہے جو عہد کے راستے پر رہنے اور مسِیح کے بہتر شاگرد بننے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ میں دُعا گو ہوں کہ ہم سب اِن کلیِسیائی تجربات میں ثابت قدم رہیں جب ہم ابدی زندگی کے خواہاں ہوتے ہیں، جو خدا کی تمام نعمتوں میں سب سے عظیم ترین ہے، یِسُوع مسِیح کے نام پر ، آمین۔