مجلسِ عامہ
قبولیت اور پیروی کرنے کے لِئے فروتن رہنا
مجلسِ عامہ اکتوبر ۲۰۲۳


10:40

قبولیت اور پیروی کرنے کے لِئے فروتن رہنا

ہمارے لیے خُدا کی حضُوری میں واپسی کے لیے تیار ہونے میں فروتنی لازمی ہے۔

ایلما کے پانچویں باب، میں ذاتی جانچ کے لیے ایک سوال کِیا گیا ہے: ”اور اگر تُم اِس وقت مر جاؤ تو کیا تُم یہ کہہ سکو گے کہ ہم تو بڑے فروتن تھے؟“۱ اِس سوال کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لیے خُدا کی حضُوری میں واپسی کے لیے تیار ہونے میں فروتنی لازمی ہے۔

ہم سب اپنے بارے میں یہ سوچتے ہیں کہ ہم تو بُہت فروتن ہیں، لیکن زندگی کے کُچھ تجربات ہمیں اکثر یہ احساس دلاتے ہیں کہ ہمارے اندر فِطری مغرُور آدمی یا عورت بہت زیادہ موجُود ہے۔

برسوں پہلے، جب ہماری دونوں بیٹیاں ہمارے ساتھ گھر میں رہتی تھیں، تو مَیں نے اُنھیں اور اپنی اہلیہ کو وہ کاروباری جگہ دِکھانے کا فیصلہ کیا جِس کمپنی میں کام کر رہا تھا جِس کا مَیں اِنچارج تھا۔

میرا اصل مقصد اُنھیں ایسی جگہ دِکھانا تھا جہاں، ہمارے گھر کے برعکس، ہر کوئی مُجھ سے کوئی سوال پُوچھے بغیر بِالکُل وہی کرے گا جو مَیں اُن سے کرنے کو کہُوں گا۔ جب ہم سامنے والے گیٹ پر پہنچے، تو مَیں حیران رہ گیا کہ وہ گیٹ جو عام طور پر میری گاڑی کے قریب آنے پر خُود بخُود کھُل جاتا تھا، اِس بار نہیں کھُلا۔ اِس کی بجائے، ایک سیکیورٹی گارڈ جِسے مَیں نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، گاڑی کے پاس آیا اور مُجھ سے میرے کمپنی کے شناختی کارڑ کے بارے پُوچھا۔

مَیں نے اُس سے کہا کہ مُجھے اِس جگہ اپنی کار لے جانے کے لیے کبھی بھی کِسی شناختی کارڈ کی ضرُورت نہیں پڑی اور پھِر مَیں نے اُس سے فخریہ سوال پُوچھا: ”کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کِس سے مخاطب ہیں؟“

جِس پر اُس نے جواب دیا، ”چونکہ آپ کے پاس کمپنی کا شناختی کارڑ نہیں ہے، اِس لیے مَیں نہیں جانتا کہ آپ کون ہیں، اور جب تک مَیں اِس گیٹ پر ہُوں، تو آپ کو مناسب شناخت کے بغیر احَاطے میں داخل ہونے کی اِجازت نہیں دے سکتا۔“

مَیں نے گاڑی کے عقبی آئینے میں دیکھنے کے بارے میں سوچا تاکہ اُس سب پر اپنی بیٹِیوں کا ردِعمل دیکھ سکوں، لیکن مَیں جانتا تھا کہ وہ اِس وقت کے ہر سیکنڈ سے لُطف اندوز ہو رہی ہیں! میری بیوی جو میرے ساتھ بیٹھی تھی میرے رویے پر سر ہلا کر ناپسندیدگی کا اِظہار کر رہی تھی۔ پھر میرا آخری حربہ گارڈ سے مُعافی مانگنا اور اِس سے یہ کہنا تھا کہ مُجھے اِس کے ساتھ اِتنا بُرا پیش آنے پر بُہت افسوس ہے۔ ”مَیں آپ کو مُعاف کرتا ہُوں،“ اُس نے کہا، ”لیکن کمپنی کے شناختی کارڈ کے بغیر، آپ آج اندر نہیں جا سکیں گے!“

پھر مَیں اپنا شناختی کارڈ لینے کے لیے دِھیرے دِھیرے واپس گھر روانہ ہُوا، غالباً یہ قابلِ قدر سبق سیکھتے ہُوئے: جب ہم فروتن ہونے کا اِنتخاب نہیں کرتے، تو ہم رُسوا ہوتے ہیں۔

امثال میں ہم سیکھتے ہیں کہ، ”اِنسان کا تکبُر اُس کو پست کر دے گا جبکہ فروتن شخص عزت پائے گا۔“۲ فروتنی کو فروغ دینے کے لیے، ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کلام کے مُطابق اِس کے حقیقی معنی کیا ہیں۔

کُچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ فروتن ہونے کا مطلب کُچھ اور ہے مثال کے طور پر غریب ہونا۔ لیکن درحقیقت بُہت سے ایسے ہیں جو غریب ہیں مگر مغرُور ہیں اور بُہت سے ایسے بھی ہیں جو امیر ہیں مگر پھِر بھی فروتن ہیں۔ کُچھ ایسے بھی ہیں جو بُہت شرمیلے یا احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں وہ ظاہری طور پر فروتن لیکن کئی دفعہ اندر سے تکبُر سے بھرے ہوتے ہیں۔

پھِر فروتنی کیا ہے؟ میری اِنجِیل کی مُنادی کرو کے مُطابق، یہ ”خُداوند کی مرضی کے تابع ہونے کی رضا مندی ہے۔ … یہ قابلِ تعلیم ہونا ہے۔ … [یہ] ہماری رُوحانی نشوونُما کا اہم عنصر ہے۔“۳

یقیناً ہم سب کے پاس بہتر ہونے اور مسِیح جیسی صفت اپنانے کے بُہت سے مواقع موجود ہیں۔ مَیں پہلے یہ دریافت کرنا چاہُوں گا کہ ہمیں اپنے نبی کی مشورت پر عمل کرنے کے لیے کِتنا فروتن ہونا چاہیے اور ایسا کرنے میں ہم کتنے فروتن رہے ہیں۔ یہ ہم سب کے لیے ایک اِنفرادی اِمتحان ہو سکتا ہے۔

  • کیا ہم اپنی تمام بات چیت میں کلِیسیا کا نام مُکمل لیتے ہیں؟ صدر رسل ایم نیلسن نے کہا، ”خُداوند کی کلِیسیا سے خُداوند کے نام کو ہٹانا شیطان کی بُہت بڑی فتح ہے۔“۴

  • کیا ہم اپنے نبی کی خاص دعوت کو قبُول کرتے ہُوئے خُدا کو اپنی زندگیوں پر غالب آنے دے رہے ہیں؟ ”آج مَیں اپنے اَراکین سے جہاں کہیں بھی ہیں مُطالبہ کرتا ہُوں کہ وہ مُتعصبانہ رویوں اور اِقدامات کو ترک کر دیں۔“۵

  • جیسے ہمارے نبی نے سِکھایا کیا ہم دُنیا پر غالب آ رہے ہیں اور اِنسانوں کے فلسفوں سے زیادہ مسِیح کی تعلیم پر اِعتقاد کر رہے ہیں؟۶

  • کیا ہم صُلح کرانے والے، اور لوگوں کے ساتھ اور اُن کے بارے میں مُثبت باتیں کہنے والے بن گئے ہیں؟ صدر نیلسن نے ہمیں گُزشتہ مجلسِ عامہ میں درج ذیل تعلیم دی: ”اگر کوئی بات پاکِیزہ، پسندِیدہ، یا دِل کش یا قابلِ آفریں ہے، تو ہم کِسی دُوسرے شخص کے بارے میں یہ بول سکتے ہیں—خواہ اُس کے مُنہ پر یا اُس کی پِیٹھ کے پِیچھے—ہماری گُفتگُو کا یہی معیار ہونا چاہیے۔“۷

یہ سادہ مگر قوی ہدایات ہیں۔ یاد رکھیں، کہ مُوسیٰ کے لوگوں کو شفا یاب ہونے کے لیے صرف پیتل کے سانپ کی طرف نظر کرنی تھی جو اُس نے بلند کیا تھا۔۸ لیکن ”طریقہ کی سادگی یعنی اُس کی آسانی کے باوجود اُن میں سے اکثر ہلاک ہُوئے۔“۹

اِس مجلسِ عامہ کے دوران ہم نے اپنے نبیوں اور رسُولوں کی یقینی مشورت سُنی ہے اور مزید بھی سُنیں گے۔ یہ فروتنی کو فروغ دینے اور اپنی مضبُوط آرا کو اِس سے بھی قوی یقین سے مغلوب کرنے کا کامِل موقع ہے کہ خُداوند اُن برگزیدہ راہ نُماؤں کے ذریعے کلام کرتا ہے۔

سب سے بڑھ کر، فروتنی کو فروغ دینے میں، ہمیں یہ بھی سمجھنا اور قبُول کرنا ہے کہ ہم صرف اپنی کوششوں سے اپنی چنوتیوں پر قابُو پانے یا اپنی پُوری صلاحِیت کو حاصِل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ پُوری دُنیا میں ترغیب دینے والے مُقررین، مُصنفین، اُستاد اور اثر انداز ہونے والے، خصوصاً ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر، یہی کہیں گے کہ ہر چیز کا اِنحصار صرف ہم پر اور ہمارے اعمال پر ہے۔ دُنیا دُنیاوی زورِ بازو پر یقین رکھتی ہے۔

لیکن بحال شُدّہ اِنجِیل، کے ذریعے ہم سیکھتے ہیں کہ ہمارا بُہت زیادہ اِنحصار آسمانی باپ کی رحمت اور ہمارے نجات دہندہ، یِسُوع مسِیح کے کفّارے پر ہے؛ ”پَس ہم جانیں کہ جو کُچھ بھی ہم کر سکتے ہیں، اُس کے بعد ہم اُس کے فضل کے وسیلے سے بچّائے جاتے ہیں۔“۱۰ اِسی لیے خُدا کے ساتھ عہُود باندھنا اور اُنھیں پُورا کرنا بُہت ضروری ہے، ایسا کرنے سے ہمیں یِسُوع مسِیح کے کفّارہ کے وسیلے سے اُس کی شفا، قابلیت، اور کامِل کرنے کی قدرت تک مُکمل رسائی حاصل ہو گی۔

ہر ہفتے عِشائے ربانی کی عبادت میں شرکت کرنا اور باقاعدگی سے ہیکل میں عبادت کرنا اور رسُومات میں شرکت کرنا عہُود قائم کرنا اور اُن کی تجدید کرنا اِس بات کی علامت ہے کہ ہم آسمانی باپ اور نجات دہندہ، یِسُوع مسِیح پر اپنے اِنحصار کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ پہچان ہماری زندگیوں میں اُن کی قوت کو دعوت دے گی کہ وہ ہمارے تمام مسائل میں ہماری مدد فرمائیں اور بالآخر ہماری تخلیق کے مقاصد کو پُورا کریں۔

کُچھ ہی عرصہ پہلے خُداوند پر بھروسے کی میری فروتنی اور فہم کی سطح ایک بار پھر سے آزمائی گئی تھی۔ مَیں ایک ٹیکسی میں ہوائی اڈے کو جا رہا تھا تاکہ ایک چھوٹی سی فلائٹ لے کر ایسی جگہ جاؤں جہاں مُجھے ایک اِنتہائی مُشکل صُورتِ حال حَل کرنی تھی۔ ٹیکسی ڈرائیور، جو کلِیسیا کا رُکن نہیں تھا، اُس نے آئینے میں میری طرف دیکھا اور بولا، ”مَیں دیکھ سکتا ہُوں کہ آپ آج ٹھیک نہیں ہیں!“

”کیا واقعی تُم بتا سکتے ہو؟“ مَیں نے پوچھا۔

”جِی بالکُل،“ اُس نے کہا۔ پھر اُس نے کُچھ ایسے کہا،”درحقیقت آپ کے چہرے پر اِنتہائی منفی احساس ہے!“

مَیں نے اُسے واضح کیا کہ مُجھے ایک بُہت ہی مُشکل صُورتِ حال سے نپٹنا تھا، جب اُس نے پھر مُجھ سے پُوچھا، ”کیا آپ نے اُسے حل کرنے کے لِئے اپنی پُوری طاقت لگا دی ہے؟“

مَیں نے جواب دِیا کہ میں جو کُچھ بھی کر سکتا تھا مَیں نے کِیا۔

پِھر اُس نے کُچھ ایسا کہا جو مَیں نے کبھی نہیں بھُلایا: ”پس اِسے خُدا پر چھوڑ دو، اور سب کُچھ ٹھیک ہو جائے گا۔“

مَیں مانتا ہُوں کہ مُجھ پر یہ آزمائش آئی کہ اُس سے پُوچھوں، ”کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کِس سے بات کر رہے ہیں؟“ مگر مَیں نے ایسا نہیں کِیا! بلکہ مَیں اُس پُورے ایک گھنٹے کی فلائٹ میں، الٰہی مدد مانگنے کے لیے، خُداوند کے حضُور فروتن ہُوا۔ جیسے ہی مَیں ہوائی جہاز سے نِکلا، تو مُجھے پتا چلا کہ مُشکل صورتِ حال حل ہو چُکی تھی اور یہ کہ میرا وہاں جانا بھی اب ضروری نہیں تھا۔

بھائیو اور بہنو، خُداوند کی طرف سے حُکم، دعوت اور وعدہ واضح اور تسلی بخش ہے:”فروتن بن، تو خُداوند تیرا خُدا ہاتھ پکڑ کر تیری راہ نُمائی کرے گا، اور تُجھے تیری دُعاؤں کا جواب دے گا۔“۱۱

خُدا کرے کہ ہم فروتن ہو کر اپنے نبیوں کی مشورت پر عمل کریں اور اُنھیں قبُول کریں کہ صرف خُدا اور یِسُوع مسِیح ہی ہمیں—کلِیسیا میں پائی جانے والی رُسوم اور عہُود کے ذریعے تبدیل کر سکتے ہیں—اور اِس زندگی میں بہترین اِنسان بنیں اور، ایک دن، ہم مسِیح میں کامِل بن جائیں۔ یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔