خُدا کے خاندان کو وسیع نُقطہ نظر سے دیکھنا
مُجھے یقین ہے، ہم اِیمان کی آنکھ سے، توجہ بڑھانے سے اپنے آپ کو اور اپنے خاندانوں کو اُمید اور خُوشی سے دیکھ سکتے ہیں۔
ہماری سب سے چھوٹی بیٹی، برکلی، جب چھوٹی تھی، تو مَیں نے پڑھنے والی عینک اِستعمال کرنا شُروع کر دی–وہ جو ہر چیز بڑی اور نزدِیک دِکھاتی ہے۔ ایک دِن، ہم اکٹھے کِتاب پڑھنے بیٹھے، مَیں نے اُسے پیار سے دیکھا بلکہ اُداسی سے بھی، کیوں کہ ایک دَم، وہ مُجھے بڑی بڑی دِکھائی دی۔ مَیں نے سوچا، ”وقت کہاں چلا گیا ہے؟ وہ تو بُہت بڑی ہو گئی ہے!“
جب مَیں نے اپنی عینک کو آنسُو صاف کرنے کے لیے اُتارا، تو مُجھے احساس ہُوا، ”اوہ—وہ بڑی نہیں ہُوئی؛ محض اِس عینک سے مجھے ایسا لگا! کوئی بات نہیں!“
بعض اوقات ہم اپنے پیاروں کو محض، شخصی نُقطہ نظر سے ہی دیکھتے ہیں۔ آج شام، مَیں آپ کی توجہ کو مُختلف نُقطہ نظر سے دیکھنے کی دعوت دیتی ہُوں—ایک اَبدی نُقطہ نظر، جو بڑی تصویر، آپ کی وسیع کہانی پر توجہ مرکُوز کرتا ہے۔
اِبتدا میں بنی آدم کا خلا میں دھکیلے جانا، بِنا اِنسان بغیر کھڑکیوں والے راکٹ سے ہُوا تھا۔ مگر اَپالو ۸ مِشن کے ذریعے سے، خلاباروں کے ساتھ راکٹ چاند پر گیا تھا۔ خلا میں تیرتے ہُوئے، وہ ہماری دِل کش دُنیا کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے اور اِس پُوری دُنیا کے قابلِ دِید، منظر کی جانب کھچے جاتے تھے۔ اُن خلابازوں نے اِتنی دِل کشی کے احساس کا تجربہ کِیا کہ اِسے اُس کا اپنا نام دے دیا گیا ہے: نُقطہ نظر کی تاثیر۔
نئے مقامِ افضل سے دیکھنے سے ہر چیز بدل جاتی ہے۔ ایک خلائی مُسافر نے کہا کہ ”چیزوں کا سائز اِس حد … تک کم لگتا ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ قابلِ مُنظم ہیں۔ … ہم یہ کر سکتے ہیں! دُنیا پر اَمن—کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ لوگوں کو ایسی ہمت … ایسی طاقت بخشتا ہے۔“۱
اِنسان ہوتے ہُوئے، ہمارا نظریہ زمینی ہے، مگر خُدا کائنات کو بڑے وسیع نُقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ تمام مخلُوق کو دیکھتا ہے، ہم سب کو دیکھتا ہے، اور اُمید سے بھرا ہُوا ہے۔
کیا یہ مُمکن ہے اِس سطح پر رہ کر—اِس نُقطہ نظر کے احساس کو پانے کے لیے ہم بھی خُدا کی مانِند دیکھنا شُروع کر دیں؟ مُجھے یقین ہے، ہم اِیمان کی آنکھ سے، توجہ بڑھانے سے اپنے آپ کو اور اپنے خاندانوں کو اُمید اور خُوشی سے دیکھ سکتے ہیں۔
صحائف مُتفق ہیں۔ مرونی اُن کی بابت کہتا ہے جِن کا اِیمان ”نہایت مضبُوط تھا“ اُنھوں نے درحقیقت … اِیمان کی آنکھ سے دیکھا، اور وہ خُوش تھے۔“۲
نجات دہندہ پر توجہ مرکُوز کرنے سے، اُنھوں نے خُوشی پائی اور اِس سچّائی کو جانا: کہ مسِیح کے وسِیلے سے، سب کُچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ہر وہ چیز جِس کے بارے میں آپ اور آپ اور آپ پریشان ہیں—وہ سب ٹھیک ہو جائے گی! اور جو اِیمان کی آنکھ سے دیکھتے ہیں وہ یہ احساس پا سکتے ہیں کہ اب سب کُچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
مَیں اپنے ہائی سکول کے آخری سال میں بہتر اِنتخاب نہیں کرتی تھی تو مَیں نے مُشکل سے وقت گُزارا۔ مُجھے یاد ہے میں اپنی ماں کو روتے دیکھتی تو سوچتی تھی کیا مَیں نے اُسے مایُوس کِیا ہے۔ اُس وقت، مَیں فِکر مند ہوتی کہ اُس کے آنسوؤں کا مطلب ہے کہ وہ میرے لیے نااُمید ہو گئی تھی، اور اگر اُسے میرے لیے اُمید محسُوس نہ ہوتی، تو ہو سکتا ہے واپسی کا کوئی راستا نہ رہتا۔
لہٰذا میرے ابّو نے توجہ بڑھانے اور زیادہ وسیع منظر دیکھنے پر عمل کِیا۔ اُنھوں نے تجربہ سے سیکھا کہ فِکر مندی محبّت کی مانِند ہی لگتی ہے، لیکن یہ ایسی نہیں ہے۔۳ اُنھوں نے اِیمان کی آنکھ کا اِستعمال کر کے دیکھا کہ سب کُچھ ٹھیک ہو گا، تو اُن کی پُر اُمید حکمتِ عملی نے مُجھے بدل دِیا۔
جب مَیں ہائی سکول سے فارغ التحصیل ہُوئی تو بی وائے یُو آئی، میرے ابّو خط بھیجتے، مُجھے یاد دِلاتے کہ مَیں کون ہُوں۔ وہ میری حوصلہ افزائی کرنے والے راہ نُما بنے، ہر کسی کو حوصلہ افزائی کرنے والا راہ نُما چاہیے؛ وہ جو آپ کو یہ نہیں کہتا، ”آپ اِتنا تیز نہیں بھاگ رہے“؛ وہ آپ کو شفقت سے یاد کراتے ہیں کہ آپ ایسا کر سکتے ہیں۔
ابّو نے لِحی کے خواب کی مثال دی۔ لِحی کی مانِند اُنھوں نے جانا کہ آپ اپنے پیاروں کا تعاقب نہیں کرتے جو کھوئے ہُوئے محسُوس کرتے ہیں۔ ”آپ جہاں ہیں وہیں رہیں اور اُنھیں بُلائیں۔ آپ [زِندگی کے] درخت کے پاس جائیں، درخت کے پاس رہیں، پھل کھاتے رہیں اور چہرے پر مُسکراہٹ کے ساتھ اپنے پیاروں کو متوجہ کرتے رہیں اور مثال سے دِکھائیں کہ پھل کھانا خُوش آئِین بات ہے!“۴
اِس بصری تصّور نے پست لمحوں میں میری مدد کی ہے جب مَیں خُود کو درخت کے پاس پاتی ہُوں، تو پھل کھاتی اور پریشانی کے باعث روتی ہُوں؛ تو، کیا، یہ واقعی کارآمد ہے؟ اِس کی بجائے، آئیے اُمید کو مُنتخب کریں—اپنے خالِق میں اور ایک دُوسرے میں اُمید خُود کو اِس سے بہتر بننے کے لیے ہم اپنی صلاحیت کو بڑھائیں۔
بُزرگ نیل اے میکس ویل کے اِنتقال کے کُچھ ہی دیر بعد، کِسی رپورٹر نے اُن کے بیٹے سے پُوچھا کہ وہ سب سے زیادہ کیا کمی محسُوس کرتے ہیں۔ اُس نے کہا اپنے والدین کے گھر میں شام کے کھانے کو، کیوں کہ وہ ہمیشہ اِس احساس کے ساتھ واپس جاتا کہ وہ سب کام اچھے سے کرتا ہے، اور اُس کے باپ کو اُس پر اعتماد تھا۔
یہ اُس وقت کی بات ہے جب ہمارے بالغ بچّے اپنے شریکِ حیات کے ساتھ اِتوار کے کھانے کے لیے گھر آنے لگے۔ اُس ہفتے میں مَیں اُن چیزوں کی فہرست بنانے لگی جو میرے ذہن میں تھیں تاکہ مَیں اُنھیں اِتوار کو تاکید کر سکُوں،: ”کوشش کریں کہ جب آپ گھر ہوں تو بچّوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں،“ یا ”اچھا سُننے والے بننا مت بُھولیں۔“
جب مَیں نے بھائی میکس ویل کی تجویز سُنی، تو مَیں نے فہرستیں پھینک دیں اور اُس تنقیدی آواز کو خاموش کر دِیا، لہٰذا مَیں نے جب دیکھا کہ ہمارے بچّے ہر ہفتے مختصر وقت کے لیے آتے ہیں، تو مَیں اُن کی بُہت سی مُثبت چیزوں پر توجہ مرکُوز کرنے لگی جو وہ پہلے سے کر رہے تھے۔ جب چند برس کے بعد، ہمارے سب سے بڑے بیٹے، رائن، کا اِنتقال ہُوا، تو مَیں اپنے اُس کے ساتھ نہایت خُوش گوار اور مُثبت وقت کی یاد سے شُکر گُزار ہُوئی۔
کِسی عزیز کے ساتھ بات چیت کرنے سے پہلے، کیا ہم اپنے آپ سے یہ سوال پُوچھ سکتے ہیں ”کیا مَیں جو کرنے یا کہنے لگا ہُوں وہ کارآمد ہے یا تکلیف دہ ہے؟“ ہمارے الفاظ ہماری اعلیٰ طاقتوں میں سے ایک ہیں، تو خاندانی افراد اِنسانی تختہ سیاہ ہیں، جو ہمارے سامنے کھڑے کہہ رہے ہیں، ”لِکھیں جو بھی آپ میرے بارے میں سوچتے ہیں!“ یہ پیغامات، خواہ شعوری ہیں یا غیر شعوری، پُر اُمید اور حوصلہ بخش ہونے چاہئیں۔۵
ہمارے کام کی تفصیل کِسی شخص کو جو کِسی مُشکل سے گُزر رہا ہے یہ سِکھانا نہیں کہ وہ بُرے یا مایُوس کُن ہیں۔ ہو سکتا ہے شاذ و نادر مواقع پر ہم درُستگی کی ترغیب پائیں، مگر آئیے اپنے پیاروں کو کہے اور اَن کہے زیادہ تر طریقوں سے وہ پیغام سُنائیں جو اُنھیں سُننا چاہیے: ”ہمارا خاندان پُورا اور مُکمل لگتا ہے کیونکہ آپ اِس میں ہیں۔“ ”آپ کو ساری زِندگی پیار کِیا جائے گا—چاہے جو بھی ہو۔“
بعض اوقات، ہمیں کسی سے نصیحت سے زیادہ تسلی؛ لیکچر سے زیادہ سُننے کی ضرورت ہوتی ہے؛ جو سُنے اور اُس پر دھیان دے، ”اُنھوں نے جو بھی کہا مُجھے اُسے کہنے کا احساس کیسے ہوگا؟
یاد رکھیں، خاندان خُدا کی عطا کردہ تجربہ گاہ ہیں جہاں ہم چیزوں کو سمجھ رہے ہیں، لہٰذا غلط اندازے اور غلط حساب صرف مُمکن ہی نہیں، بلکہ غالباً ہیں۔ کیا یہ دِلچسپ نہ ہو اگر، ہماری زِندگی کے اِختتام پر، ہم یہ دیکھ سکیں کہ وہ رشتے، حتیٰ کہ وہ مُشکل لمحے، ہی وہ چیزیں تھیں جِنھوں نے ہمیں اپنے نجات دہندہ کی مانِند بننے میں مدد کی؟ ہر مُشکل میل جول ہمارے لیے یہ سیکھنے کا موقع ہے کہ خُدا کی مانِند محبّت—کے اِس درجہ کو کیسے گہرا کِیا جائے۔۶
آئیے اپنے نُقطہ نظر کو وسیع کریں کہ خاندانی تعلقات ہمیں اسباق سِکھانے کی کامل سواری ہیں جِنھیں سیکھنے کے لیے ہم یہاں آئے ہیں۔
آئیے مان لیں، زوال پذیر دُنیا، جِس میں کامل شریکِ حیات، والدین، بیٹا، بیٹی، پُوتا/پُوتی، صلاح کار، یا دوست بننے کا کوئی طریقہ نہیں—اَلبتہ نیک بننے کے لاکھوں طریقے ہیں۔۷ آئیے درخت کے نزدِیک رہیں، خُدا کی محبّت میں شریک ہوں، اور دُوسروں سے اِس کی شراکت کریں۔ اپنے آس پاس لوگوں کو اُوپر اُٹھانے سے، ہم مِل کر بُلند ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے، پھل کھانے کی یاد کافی نہیں ہے؛ اُن طریقوں میں ہمارا بار بار شریک ہونا لازم ہے—نُور سے بھرے، صحیفوں کو کھولیں، جو تاریکی کو دُور کرتے ہیں؛ تب تک گھُٹنوں کے بل رہنا جب تک ہماری عام دُعا پُرزور دُعا میں تبدیل نہ ہو جائے تاکہ ہم اپنے وسیع نُقطہ نظر کو دوبارہ جگہ پر لائیں، اور آسمانی نُقطہ نظر سے جُڑ جائیں۔ ایسا تب ہوتا ہے جب دِل موم ہوتے ہیں، اور ہم خُدا کی مانِند دیکھنے لگتے ہیں۔
اِن آخری ایّام میں، شاید ہمارا ارفع کام ہمارے عزیزوں کے ساتھ ہوگا—نیک لوگ اِس بدکار دُنیا میں رہتے ہیں۔ ہماری اُمید اُس لحاظ سے بدلتی ہے جِس سے وہ اپنے آپ کو دیکھتے ہیں کہ درحقیقت وہ کون ہیں۔ تو محبّت کی اُس عدسے سے وہ دیکھیں گے وہ کیسے بن سکتے ہیں۔
مگر ایک ہے جو نہیں چاہتا کہ ہم یا ہمارے عزیز ساتھ مِل کر گھر واپس جائیں۔ اور چُوں کہ ہم اُس سیّارے پر رہتے ہیں جو وقت اور سالوں کی محدُود مُدت کا پابند ہے،۸ مُخالف خوف کے اُس اِنتہائی احساس کو قائم رکھتا ہے۔ یہ دیکھنا مُشکل ہوتا ہے جب ہم توجہ وسیع کرتے ہیں، کہ ہماری سِمت ہماری رفتار سے زیادہ اہم ہے۔
یاد رہے، ”اگر آپ تیزی سے جانا چاہتے ہیں، تو اکیلے جائیں۔ اگر آپ بُہت دُور جانا چاہتے ہیں تو ساتھ چلیں۔“۹ خُوش قِسمتی سے، خُدا جِس کی ہم عِبادت کرتے ہیں وقت کا پابند نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ درحقیقت ہمارے عزیز کون ہیں اور درحقیقت ہم کون ہیں۔۱۰ پَس وہ ہمارے ساتھ صابر ہے، اور اُمید کرتا ہے کہ ہم ایک دُوسرے کے ساتھ صابر ہوں۔
مَیں تسلیم کرُوں گی کہ ایسے اوقات بھی ہوتے ہیں، جب ہمارا عارضی گھر دُنیا، غم کا جزیرہ لگتا ہے—لمحے جب میری ایک آنکھ میں اِیمان ہوتا ہے اور دُوسری روتی ہے۔۱۱ کیا آپ اِس احساس کو جانتے ہیں؟
یہ احساس مُجھے منگل کو ہُوا تھا۔
کیا ہم اِس کے بجائے اپنے نبی کی طرز و طریق کو مُنتخب کر سکتے ہیں جب وہ ہمارے خاندانوں میں مُعجزوں کا وعدہ کرتا ہے؟ خُوشی کے احساس کی ہماری صلاحیت بڑھے گی، خواہ ہنگامہ بڑھ جاتا ہے۔ وہ وعدہ کرتا ہے کہ ہمارے حالات سے قطع نظر وسیع، نُقطہ نظر کی تاثیر کا تجربہ ابھی کِیا جاسکتا ہے۔۱۲
اِیمان کی اِس آنکھ کو اب پھر سے پانا ہے، یعنی اِیمان کی ایک گُونج، جو اِس سیّارے پر آنے سے پہلے ہمارے پاس تھی۔ اِس غیر یقینی لمحے کو گُزرتا دیکھنا ہے، کہ ہم ”خُوشی سے وہ تمام کام کریں جو ہمارے اِختیار میں ہیں؛ اور پھر … کھڑے رہیں۔“۱۳
کیا آپ کی زِندگی میں ابھی کوئی مسئلہ ہے، جِس سے آپ پریشان ہیں جو حل نہیں کِیا جا سکتا؟ اِیمان کی آنکھ کے بِنا، آپ کو ایسا احساس ہُوا ہو کہ خُدا نے چیزوں کی نگرانی کھو دی، تو کیا یہ سچ ہے؟
یا شاید آپ کو بڑا خوف ہے کہ آپ اِس مُشکل وقت سے خُود ہی گُزریں گے، مگر اِس کا مطلب یہ ہو گا کہ خُدا نے آپ کو چھوڑ دِیا ہے، تو کیا یہ سچ ہے؟
یہ میری گواہی ہے کہ نجات دہندہ کے پاس یہ قُدرت ہے کہ وہ اپنے کفّارے کے وسِیلہ سے، آپ کے کِسی بھی ڈراؤنے خواب جِن سے آپ گُزر رہے ہیں وہ اُسے برکت میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اُس نے ہم سے وعدہ کِیا ہے، ”غیر مُتبدل عہد کے ساتھ“ کہ جب ہم اُس کو پیار اور اُس کی پیروی کرتے ہیں، ”تو سب چیزیں جِن کے سبب سے [ہم] ستائے گئے ہوں مِل کر [ہماری] بھلائی کریں گی۔“۱۴ سب چیزیں۔
چُوں کہ ہم عہد کے فرزند ہیں، ہم اِس پُراُمید احساس کو ابھی مانگ سکتے ہیں!
جب کہ ہم کامل خاندانوں میں نہیں ہیں ہم دُوسروں کے لیے اپنی محبّت کو تب تک کامل کر سکتے ہیں جب تک کہ یہ مُستقل، غیر مُتبدل، کوئی فرق نہیں پڑتا-جیسی محبّت نہیں بن جاتی—وہ محبّت جو تبدیلی کی حمایت کرتی ہے اور ترقی اور واپس لے کر جاتی ہے۔
اُنھیں واپس لانا نجات دہندہ کا کام ہے۔ یہ اُس کا کام اور اُس کا وقت ہے۔ یہ ہمارا کام ہے کہ مَیں وہ اُمید اور دِل مہیّا کرُوں جِس کے لیے وہ گھر آ سکیں۔ ”ہمارے پاس نہ تو [خُدا کا] اِختیار ہے کہ سزا دیں اور نہ ہی اُس کی مُخلصی دینے کی قُدرت، مگر ہمیں اُس کی محبّت پر عمل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔“۱۵ صدر نیلسن نے یہ بھی سِکھایا ہے کہ دُوسروں کو ہم سے جانچ پڑتال سے زیادہ محبّت کی ضرُورت ہے۔ ”اُنھیں یِسُوع مسِیح کے سچّے عِشق کا احساس پانے کی ضرُورت ہے جو ہماری باتوں اور کاموں سے ظاہر ہوتا ہے۔“۱۶
عِشق وہ چیز ہے جو دِلوں میں تبدیلی لاتا ہے۔ یہی سب کا خالص ترین مقصد ہے، اور دُوسرے اِسے محسُوس کر سکتے ہیں۔ آئیے ۵۰ برس پہلے کی گئی پیشین گوئی کو مضبُوطی سے تھامے رکھیں: ”کوئی گھرانہ تب تک ناکام نہیں ہوتا جب تک وہ کوشش کرنا ترک نہیں کرتا۔“۱۷ یقیناً، جو لوگ سب سے زیادہ محبّت کرتے ہیں وہ طویل کامیابی پاتے ہیں!
دُنیاوی خاندانوں میں، ہم وہی کر رہے ہیں جو خُدا نے ہمارے ساتھ کیا ہے، راستا بتاتے اور اُمید کرتے ہیں کہ ہمارے پیارے اُس سمت جائیں گے، اور جِس راہ پر سفر کرنے کا اُنھوں نے اِنتخاب کِیا ہے اُسے جانتے ہیں۔
اور جب وہ اِس جہان کی دُوسری جانب چلے جائیں تو آسمانی گھر کی اُس محبّت بھری کشش سے کھِنیچے چلے جائیں،۱۸ مُجھے یقین ہے کہ وہ اِس سے واقف ہوں گے کیوں کہ اُن کو یہاں بھی پیار کِیا گیا تھا۔
آئیے اُس وسیع نُقطہ نظر کو اِستعمال کریں اور اپنے پیاروں کو دیکھیں اور اُن کے ساتھ بحیثیت مُشترکہ ساتھی بن کر اپنے خُوب صُورت سیّارے پر رہیں۔
آپ اور مَیں؟ ہم ایسا کر سکتے ہیں! ہم اِس کی اُمید اور اِس پر قائم رہ سکتے ہیں! ہم درخت کے نزدیک رہیں اپنے چہروں پر مُسکراہٹ سے پھل میں شراکت کریں، اور آنکھوں میں مسِیح کا نُور بسائیں جس پر وہ اپنی تاریک ترین گھڑیوں میں اعتماد کر سکیں۔ تو جیسے ہی وہ ہمارے چہروں میں نُور کو دیکھیں، تو وہ اِس کی جانب کھِنچے چلے جائیں گے۔ پھر ہم اُن کی توجہ محبّت اور نُور کے اصل ماخذ، ”روشن اور صُبح کے سِتارے،“ یِسُوع مسِیح پر دوبارہ توجہ مرکُوز کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔۱۹
مَیں اپنی گواہی دیتی ہُوں کہ یہ—یہ سب کُچھ—بُہت بہتر ہونے والا ہے کہ آپ اور مَیں کبھی تصّور نہیں کر سکتے ہیں! یِسُوع مسِیح پر اِیمان کی آنکھ سے، ہم دیکھ سکیں کہ آخر میں سب کُچھ ٹھیک ہو جائے گا، اور ابھی بھی سب کُچھ ٹھیک ہو گا۔ یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔