سَمُندر کے جزیروں پر مُنّجی کی شِفا بَخش قُوَّت
ہیکل کی برکات کے ذریعے، نجات دہندہ افراد، خاندانوں، اور قوموں کو شِفا بخشتا ہے۔
۱۹۶۰ میں میرے والد لئی میں کلِیسیائی کالج ہوائی میں پڑھاتے تھے، جہاں میں پیدا ہوا تھا۔ میری سات بڑی بہنوں نے میرے والدین کو اصرار کیا کہ وہ میرا نام ”کیمو“ رکھیں، جو ایک ہوائی نام ہے۔ ہم لئی ہوائی ہیکل کے قریب رہتے تھے جب اُنہوں نے جاپان سمیت، ایشیا پیسیفک ایریا میں زیادہ تر کلِیسیائی رکنیت کی خدمت کی۔۱ یہ وہ وقت تھا جب جاپانی مقّدسین کے گروہ ہیکل کی برکت حاصل کرنے کے لیے ہوائی آنے لگے۔
اِن ارکان میں سے ایک اوکیناوا کے خوب صورت جزیرے کی ایک بہن تھی۔ ہوائی ہیکل تک اُس کے سفر کی کہانی قابلِ ذکر ہے۔ دو دہائیوں پہلے، اُس کی شادی روایتی طور پر بدھ مت شادی کی طرز پر ہوئی تھی۔ چند ماہ بعد ہی، جاپان نے پرل ہاربر، ہوائی پر حملہ کر دیا، جس سے امریکہ کو جاپان کے ساتھ تنازعہ کی طرف دھکیل دیا گیا۔ مڈ وے اور ایو جیما جیسی لڑائیوں کے تناظر میں، جنگ کی لہروں نے جاپانی افواج کو اپنے جزیرے، اوکیناوا، کے ساحلوں تک واپس دھکیل دیا، جو جاپان کے قلب کے سامنے اتحادی افواج کے خلاف دفاع کی آخری لائن تھی۔
۱۹۴۵ میں تین ماہ تک کرب ناک، اوکیناوا کی جنگ لڑی گئی۔ ۱۳۰۰ امریکی جنگی جہازوں کے ایک بیڑے نے جزیرے کو گھیر لیا اور بمباری کی۔ فوجی اور عام شہریوں کی ہلاکتیں بہت زیادہ تھیں۔ آج اوکیناوا میں ایک باوقار یادگار موجُود ہے جس میں ۲۴۰،۰۰۰ سے زائد معرُوف لوگوں کے نام درج ہیں جو اُس جنگ میں مارے گئے تھے۔۲
حملے سے بچنے کی مایوس کن کوشش میں، اِس اوکیناوان خاتون، اُس کے شوہر اور اُن کے دو چھوٹے بچوں نے ایک پہاڑی غار میں پناہ لی۔ اُنھوں نے آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں ناقابلِ فہم تکلیف برداشت کی۔
جنگ کے دوران ایک مایوس رات، بھوک سے مرنے کے قریب اپنے خاندان اور بے ہوش شوہر کے ساتھ، اُس نے ایک ہینڈ گرنیڈ سے اُن کی تکالیف کو ختم کرنے کے بارے میں سوچا، جسے حُکام نے اِس مقصد کے لیے اُسے اور دوسروں کو فراہم کیا تھا۔ تاہم، جیسے ہی وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہوئی، ایک گہرا روحانی تجربہ اُس کے سامنے بتدریج واضح ہوا جس نے اُسے خُدا کی حقیقت اور اُس کے لیے اُس کی محبت کا واضح احساس دلایا، جس نے اُسے آگے بڑھنے کی طاقت بخشی۔ اگلے دنوں میں، خودر و گھاس پھوس، جنگلی شہد کی مکھی کے چھتے سے شہد اور قریبی ندی میں پھنسے ہوئے جانوروں کو پکا کر، اُس نے اپنے شوہر کو نئی توانائی بخشی اور اپنے خاندان کو سیر کیا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اُنھوں نے چھ ماہ تک غار میں گُزارے، جب تک مقامی دیہاتیوں نے اطلاع نہ دی کہ جنگ ختم ہو گئی ہے۔
جب خاندان گھر واپس آیا اور اپنی زندگیوں کی تعمیر نو شروع کر دی، تو اس جاپانی خاتون نے خُدا کے بارے میں جوابات کی تلاش شروع کی۔ اُس نے بتدریج یِسُوع مسِیح پر اِیمان اور بپتسمآ لینے کی ضرورت کو پروان چڑھایا۔ تاہم، وہ اپنے پیاروں کے بارے فکر مند تھی جو یِسُوع مسِیح اور بپتِسما کے علم کے بغیر وفات پا گئے تھے، بشمول اُس کی ماں کے، جو اُس کو جنم دیتے ہوئے فوت ہو گئی تھی۔
اُس کی خوشی کا تصوّر کریں جب کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسینِ آخِری ایّام کی دو مُناد بہنیں ایک دن اُس کے گھر آئیں اور اُسے سِکھایا کہ، لوگ عالم ارواح میں یِسُوع مسِیح کے بارے میں سیکھ سکتے ہیں۔ وہ اِس تعلیم سے مغلوب ہو گئی تھی کہ اُس کے والدین موت کے بعد یِسُوع مسِیح کی پیروی کرنے اور ہیکل نامی مُقدّس مقامات پر اُن کے واسطے لیے جانے والے بپتِسما کو قبول کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ وہ اور اُس کا خاندان نجات دہندہ کی طرف رُجُوع لائے اور بپتِسما پایا۔
اُس کے خاندان نے سخت محنت کی اور خوش حال ہونے لگے، مزید تین بچوں کو شامل کرتے ہوئے۔ وہ کلِیسیا میں وفادار اور سرگرم تھے۔ پھر، غیر متوقع طور پر، اس کے شوہر کو فالج کا حملہ ہوا اور اس کی موت واقع ہوگئی، جس نے اُسے اپنے پانچ بچوں کی پرورش کے لیے کئی سالوں تک متعدد ملازمتوں پر طویل گھنٹے کام کرنے پر مجبور کیا۔
اُس کے خاندان اور پڑوس میں کچھ لوگوں نے اُس پر تنقید کی۔ اُںھوں نے اُس کی مشکلات کا الزام اُس کے ایک مسیحی کلِیسیا میں شامل ہونے کے فیصلے پر لگایا۔ گہرے سانحے اور سخت تنقید سے بے خوف ہوکر، اُس نے یِسُوع مسِیح پر اپنے ایمان کو قائم رکھا، آگے بڑھنے کا عزم کیا، اِس یقین کے ساتھ کہ خُدا اُسے جانتا ہے اور کہ روشن ایام آگے آئیں گے۔۳
اُس کے خاوند کی بے وَقت موت کے چند سال بعد، جاپان کے مشن کے صدر نے جاپانی ارکان کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے الہام پایا کہ وہ ہیکل میں جانے کے لیے کام کریں۔ مشن کا صدر اوکیناوا کی جنگ کا ایک سابق امریکی فوجی تھا، جس میں اوکیناوا کی بہن اور اُس کے خاندان کو بہت نقصان اٹھانا پڑا تھا۔۴ بہر حال، عاجز بہن نے اُس کے بارے میں کہا: ”وہ تب ہمارے نفرت انگیز دشمنوں میں سے ایک تھا، لیکن اب وہ یہاں محبت اور امن کی اِنجِیل کے ساتھ آیا تھا۔ یہ، میرے لیے، ایک معجزہ تھا۔“۵
مشن کے صدر کا پیغام سُنتے ہی، بیوہ بہن کی خواہش تھی کہ وہ کسی روز ہیکل میں اپنے خاندان کے ساتھ سربمہر ہو۔ تاہم، مالی مجبوریوں اور زبان کی رکاوٹوں کی وجہ سے اُس کے لیے یہ ناممکن تھا۔
پھر کئی جدید حل سامنے آئے۔ لاگت نصف تک کم ہو سکتی ہے اگر جاپان میں اَرکان بے موسم ہوائی جانے کے لیے ایک پورا جہاز کرایہ پر لیں۔۶ اراکین نے جاپانی مقدسین گاتے ہیں کے عنوان سے اپنے ونائل ریکارڈوں کو بھی قلم بند اور فروخت کیا۔ یہاں تک کہ کچھ اراکین نے تو گھر بھی بیچ ڈالے۔ سفر کرنے کے لیے دوسروں نے اپنی نوکریاں چھوڑ دیں۔۷
اراکین کے لیے دوسرا چیلنج یہ تھا کہ ہیکل کی پیشکش جاپانی زبان میں دستیاب نہیں تھی۔ کلِیسیائی رہنماؤں نے ایک جاپانی بھائی کو ودیعت کی تقریب کا ترجمہ کرنے کے لیے ہوائی ہیکل جانے کی بُلاہٹ بخشی۔۸ وہ جنگ کے بعد تبدیل ہونے والا پہلا جاپانی تھا، جسے وفادار امریکی فوجیوں نے تعلیم دی اور بپتسما دیا۔۹
جب ودیعت پانے والے جاپانی ارکان جو ہوائی میں رہتے تھے اُںھوں نے پہلی بار اِس ترجمہ کو سُنا، تو وہ رُو پڑے۔ ایک رُکن نے قلم بند کیا: ”ہم کئی بار ہیکل گئے ہیں۔ ہم نے انگریزی میں تقریبات سُنی ہیں۔ [لیکن] ہم نے کارِ ہیکل … کی رُوح کو کبھی ویسے محسوس نہیں کیا جیسے کہ اب ہم اِسے اپنی مادری زبان میں [سُن کر] محسوس کر رہے ہیں۔“۱۰
اُسی سال بعد میں، ۱۶۱ بالغین اور بچّے ہوائی ہیکل کی طرف جانے کے لیے ٹوکیو سے رُخصت ہوئے۔ ایک جاپانی بھائی نے سفر پر غور کیا: ”جب مَیں نے ہوائی جہاز سے باہر دیکھا اور پرل ہاربر کو دیکھا، اور یاد کیا کہ ہمارے ملک نے ۷ دسمبر، ۱۹۴۱، کو اِن لوگوں کے ساتھ کیا کِیا تھا، تو مَیں اپنے دل میں خوف زدہ ہوا۔ کیا وہ ہمیں قبول کریں گے؟ لیکن مجھے حیرت ہوئی کہ اُنھوں نے اُس سے زیادہ محبت اور مہربانی کا مظاہرہ کیا جتنا مَیں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔“۱۱
جاپانی مقّدسین کی آمد پر، ہوائی کے اراکین نے اُن کا استقبال پھولوں کی لاتعداد پتِیوں کے ساتھ کیا اور گلے ملے اور بوسوں کا تبادلہ کیا، جو کہ جاپانی ثقافت کے لیے غیر ملکی رواج تھا۔ ہوائی میں تبدیلی کے ۱۰ دن گزارنے کے بعد، جاپانی مُقدّسین کو ہوائی کے مُقدّسین نے ”الوہا اوئی“ کے راگ کو گاتے ہوئے الوداع کیا۔۱۲
جاپانی ارکان کے لیے منظم ہونے والے دوسرے ہیکل کے سفر میں بیوہ اوکیناوان بہن بھی شامل تھی۔ اُس نے دس ہزار میل (سولہ ہزار-کلومیٹر) کا سفر اُن مشنریوں کے فراخدلانہ تحفے کی بدولت طے کیا جنہوں نے اُس کی برانچ میں خدمت کی تھی اور اُس کی میز پر بہت سا کھانا کھایا تھا۔ ہیکل میں ہوتے ہوئے، اُس نے خُوشی کے آنسو بہائے جب اُس نے اپنی ماں کے بپتِسما کے لیے معاون کے طور پر کام کیا اور اپنے مرحوم شوہر کے ساتھ سربمہر ہوئی۔
جاپان سے ہوائی تک ہیکل کے سفر کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری رہا جب تک کہ ۱۹۸۰ میں ٹوکیو جاپان ہیکل کی تقدیس نہ ہُوئی، جو اُس زمانے کی ۱۸ ویں فعال ہیکل تھی۔ اِس سال نومبر میں، ۱۸۶ ویں ہیکل کی تقدیس اوکیناوا، جاپان میں کی جائے گی۔ یہ وسطی اوکیناوا کے غار سے دور نہیں ہے جہاں یہ عورت اور اُس کے خاندان نے پناہ لی تھی۔۱۳
اگرچہ مَیں اوکیناوا کی اِس شان دار بہن سے کبھی نہیں ملا، لیکن اُس کا ورثہ اُس کی وفادار نسل کے ذریعے زندہ ہے جن میں سے بہت سوں کو مَیں جانتا اور پیار کرتا ہوں۔۱۴
میرا باپ، بحر الکاہل کی دُوسری جنگ عظیم کا فوجی، بہت خوش ہوا جب مجھے جاپان میں نوجوان مُناد کی حیثیت سے خدمت کرنے کی بُلاہٹ موصول ہوئی۔ میں ٹوکیو ہیکل کی تقدیس کے تھوڑی دیر بعد ہی جاپان پہنچا اور ہیکل کے لیے اُن کی مُحبّت کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
ہیکل کے عہُود ہمارے آسمانی باپ کی طرف سے اُس کے بیٹے، یِسُوع مسِیح، کے وفادار پیروکاروں کے لیے تحائف ہیں۔ ہیکل کے ذریعے، ہمارا آسمانی باپ افراد اور خاندانوں کو نجات دہندہ اور ایک دوسرے کے ساتھ باندھتا ہے۔
صدر رسل ایم نیلسن نے گزشتہ سال اعلان کیا:
”ہر وہ شخص جو بپتسما کے حوض میں اور ہَیکلوں میں عہُود باندھتا ہے—اور اُن کو برقرار رکھتا ہے—یِسُوع مسِیح کی قُدرت تک رسائی پانے میں اُن کے واسطے اضافہ ہوتا ہے۔ …
”خُدا کے ساتھ عہُود کو نبھانے کا اجر آسمانی قُدرت ہے—وہ قُدرت جو ہمیں اپنی آزمایشوں، اِمتحانوں اور دِلی صدموں کا بہتر طور پر مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط بناتی ہے۔ یہ قُدرت ہمارے راستے کو آسان کرتی ہے۔“۱۵
ہیکل کی برکات کے ذریعے، نجات دہندہ افراد، خاندانوں، اور قوموں—حتی کہ اُن کو شفا دیتا ہے جو کبھی تلخ دشمن کے طور پر ہمارے سامنے کھڑے تھے۔ جی اُٹھے خُداوند نے کتابِ مورمن میں تنازعات میں گھرے معاشرے کے لیے اعلان کیا، اُن لوگوں کے لیے جو تعظیم کرتے ہیں ”میرے نام کی، اپنے پروں میں شفا لیے فرزندِ صداقت طالع ہوگا۔“۱۶
مَیں خُداوند کے وعدے کی جاری تکمیل کے گواہ ہونے کے لیے شُکر گُزار ہوں کہ ”وقت آئے گا جب نجات دہندہ کا علم ہر قوم، قبیلے، زبان، اور لوگوں میں پھیلے گا“۱۷ جن میں ”سَمُندر کے جزیروں“ پر بسنے والے بھی شامل ہیں۔۱۸
مَیں اِن آخِری ایّام میں مُنّجی یِسُوع مسِیح اور اُس کے نبی اور رسُولوں کی گواہی دیتا ہوں۔ مَیں سنجیدگی سے آسمانی طاقت کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ آسمان میں، جو کچھ زمین پر بندھا ہوا ہے اُسے باندھ سکتی ہے۔
یہ نجات دہندہ کا کام ہے، اور ہیکلیں اُس کا مقّدس گھر ہیں۔
اٹل یقین کے ساتھ، مَیں اِن سچائیوں کا یِسُوع مسِیح کے نام پر اعلان کرتا ہوں، آمین۔