مجلسِ عامہ
یِسُوع کی تقلید کرنا: بطور صُلح جو
مجلسِ عامہ اپریل ۲۰۲۲


13:36

یِسُوع کی تقلید کرنا: بطور صُلح جو

صُلح جوجامد نہیں ہوتے؛ وہ مُنجی کے انداز میں قائل کرنے والے ہوتے ہیں۔

عزیز بھائیو اور بہنو، جب ہم ایامِ ہنگامہ خیز، فساد، اور بہت سوں کے لیے، شدید تکالیفِ قلب کا تجربہ کرتے ہیں، ہمارے دِل اپنے مُنجی اوریِسُوع مسِیح کی بحال شدہ انجیل کی ابدی برکات کے لیے بے حد تشکر سے بھر جاتے ہیں۔ ہم اُسےپیار کرتے اور بھروسہ کرتے ہیں، اور ہم دُعا کرتے ہیں کہ ہم سدا اُس کی تقلید کریں۔

سماجی رابطے کی چنوتی

انٹر نیٹ کا قوی اثر ، ہمارے زمانہ کے لیے منفرد برکت ہی نہیں ایک چنوتی بھی ہے۔

سماجی میڈیا اور معلومات کے ارفع و سریع ذرائع کے جہان میں کسی شخص کی آواز کی بڑی سرعت سے شنوائی ہو سکتی ہے۔ وہ آواز خواہ حق ہو یا باطل، خواہ منصفانہ ہو یا متعصبانہ، خواہ مہربان ہو یا ظالمانہ دُنیامیں فوری طور پر پھیل جاتی ہے۔

پُر مغز اور اچھی سماجی میڈیا پوسٹس اکثر صرفِ نظر کا شکار ہو جاتی ہیں جب کہ حقارت اور غصے کے الفاظ ، خواہ سیاسی فلسفہ کے ساتھ، خبروں میں لوگوں کے ساتھ، یا وبا پر رائے کے ساتھ اکثر ہماری سماعت پر گراں گزرتے ہیں کوئی بھی شخص یا کوئی بھی موضوع، بشمول نجات دہندہ اور اس کی بحال شدہ انجیل، بالکل جدا آوازوں کے اس سماجی رجحان سے محفوظ نہیں ہے

صلح کرانے والے بنیں

پہاڑی واعظ سب کے لیے پیغام ہے مگر یہ خصوصاً نجات دہندہ کے شاگردوں کے لیے دیا گیا تھا، وہ جنہوں نے اُس کی تقلید کرنا چُن لیا تھا۔

مُنجی نے سکھایا اِس جہانِ بے ثبات میں، تب اور اب، کیسے جینا ہے۔ ”مبارک ہیں وہ جو صُلح کراتے ہیں،“ اُس نے فرمایا، ”کیونکہ وہ خُدا کے بیٹے کہلائیں گے“۱

ہم یِسُوع مسِیح پر اپنے ایمان کی ڈھال سے صلح جو بنتے ہیں—دشمن کے سب آتشی تیروں کو بُجھاتے ہوئے— یعنی پُر سکون کرنا، ٹھنڈا کرنا، یا بجھانا ۲

جب ہم اپنا حصہ ادا کرتے ہیں، اُس کا وعدہ ہے کہ ہم ”خُدا کے فرزند“ کہلائیں گے۔ زمین پر ہر شخص خُدا کی ”اُولاد“ ہے، ۳ ، مگر ”خُدا کے فرزند“ کہلوانا اِس سے کہیں زیادہ قابلِ قدر ہے۔ جب ہم یِسُوع مسِیح کے پاس آتے اور اُس کے ساتھ عہود باندھتے ہیں، ہم اُس کی ”نسل“ اور ”بادشاہی کے وارث،“۴ ”طفلانِ مسِیح ، اُسکے بیٹے اور بیٹیاں“ بن جاتے ہیں۔۵

صُلح جو کیسے آتشی تیروں کو پرسکون اور ٹھنڈا کرتا ہے؟ یقیناً اُن کے سامنے پسیجنے سے نہیں جو ہماری بے عزتی کرتے ہیں۔ بلکہ، ہم اپنے ایمان میں بے باک رہتے ہیں، اپنے عقائد کا یقین کے ساتھ اشتراک کرتے ہیں، لیکن ہمیشہ غصے یا بغض سے مُبرا رہتے ہیں۔۶

حال ہی میں کلیسیا کے خلاف تلخ کلمات کے ساتھ تنقیدی تحریر کے بعد، سان فرانسسکو میں شہری حقوق کے قومی رہنما اور تھرڈ بیپٹسٹ چرچ کے پادری ریورنڈ اموس سی براؤن نے جواب دیا:

”میں اس فرد کے تجربے اور تناظر کا احترام کرتا ہوں جس نے یہ الفاظ لکھے۔ یہ طے ہے، اُس نے جو تحریر کیا ہے مَیں اُس سے متفق نہیں ہوں۔“

”میں [کلیِسیا کے]اِن قائدین، بشمول صدر رسل ایم نیلسن کو جاننا اپنی زندگی کی عظیم ترین خُوشیوں میں شمار کرتا ہوں۔ وہ، میرے قیاس میں، ہمارے مُلک کی بہترین قیادت کا مجسم پیکر ہیں۔“

صدر نیلسن ریورنڈ براؤن کے ساتھ

پھر اُس نے مزید کہا، ”چیزیں کیسی تھیں ہم اُس کی پکڑ کرسکتے ہیں۔ ہم اُس تمام تر اچھائی کو جو ابھی ہو رہی ہے اُسے تسلیم کرنے سے انکار کر سکتے ہیں۔… مگر یہ رویے ہماری قومی تقسیم کو شِفا نہیں بخشیں گے۔ جیسے یِسُوع نے سِکھایا، ہم بُرائی کو مزید بُرائی سے نہیں مِٹا نہیں سکتے۔ ہم فراخ دِلی سے محبت کرتے اور رحمدلی سے رہتے ہیں، حتٰی کہ اُن کے ساتھ بھی جو خُود کو ہمارا دِشمن تصور کرتے ہیں۔“۷

عزت مآب براؤن ایک صلح جو ہیں۔ اُس نے تسلی اور عزت سے آتشی تیروں کو بُجھایا۔ صُلح جوجامد نہیں ہوتے؛ وہ مُنجی کے انداز میں قائل کرنے والے ہوتے ہیں ۸

سچائیاں جنہیں ہم عزیز جانتے ہیں اُن کی طرف تانے گئے آتشی تیروں کو ٹھنڈا کرنے، پُر سکون کرنے، اور بُجھانے کے لیے ہمیں کیا چیز اندونی قوت عطا کرتی ہے۔ یہ قوت یِسُوع مسِیح پر ہمارے اِیمان اور اُس کے کلام پر ہمارے ایمان سے آتی ہے۔

”مبارک ہو تم جب لوگ میری وجہ سے تمہیں لعن طعن کرتے، تمہیں ستاتے … اور تمہارے بارے میں ہر قسم کی بُری اور جھوٹی بات کرتے ہیں۔

”…خوشی مناؤ اور باغ باغ ہو جاؤ، تم کو آسمان پر بڑا اجر ملے گا۔ کیونکہ اِسی طرح اُنہوں نے تم سے پہلے نبیوں کو بھی ایذا پہنچائی تھی۔“۹

مختاری کی اہمیت

دو اہم اصُول صُلح جو بننے کی ہماری خواہش کی راہ نمائی کرتے ہیں۔

اول، ہمارے آسمانی باپ نے ہر فرد کو اُس کی اخلاقی مُختاری ، کسی کو اپنی راہ مُنتخب کرنے کی اہلیت کے ساتھ عطا کی ہے ۱۰ یہ مُختاری خُدا کی نعمتوں میں سے افضل ترین ہے۔

دوم، اِس مُختاری کے ساتھ، ہمارے آسمانی باپ نے ”تمام چیزوں کے تضاد“ کی اجازت دی۱۱ ہم’’کڑوا چکھیں تا کہ اچھے کو گراں قدر جانیں۔‘‘۱۲ مُخالفت کو ہمیں اچَن٘بھَے میں نہیں ڈالنا چاہے۔ ہم اچھائی اور بُرائی میں تمیز کرنا سیکھتے ہیں۔

یہ ادراک کرتے ہوئے کہ بہت سے ایسے ہوں گے جو ہم جیسا عقیدہ نہیں رکھتے،ہم مُختاری کی برکات سے مسرور ہوتے ہیں۔ در حقیقت، ایام آخر میں چند ایک ہی اپنی اپنی تمام تر سوچ اور کام میں اپنے ایمان کا مرکز یِسُوع مسِیح کو بنائیں گے۔۱۳

سماجی میڈیا کے پلیٹ فارموں کی بدولت، بے اعتقادی کی ایک آواز منفی آوازوں کے انبوہ کی صورت میں ظاہر ہو سکتی ہیں، ۱۴ مگر حتٰی کہ آوازوں کے اِس انبوہ میں بھی، ہم صُلح جوئی کی راہ مُنتخب کر سکتے ہیں۔

خداوند کے راہنما

کچھ لوگ صدارتِ اول اور بارہ کی جماعت کو سیاسی، کاروباری، اور ثقافتی قائدین جیسے دُنیاوی مقاصد کے طور پر دیکھتے ہیں۔

بہر حال، ہم اپنی ذمہ داریوں تک بہت ہی مُختلف طریقے سے پہنچتے ہیں۔ ہم نہ تو ووٹ سے مُنتخب ہوتے ہیں یا درخواستوں سے چُنے جاتے ہیں۔ کسی بھِی خاص پیشہ ورانہ تیاری کے بغیر، ہمیں یِسُوع مسِیح کے نام کی اپنی آخری سانس تک پُوری دُنیا میں گواہی دینے کے لیے بُلایا اور مقرر کیاجاتا ہے۔ ہم روگیوں ، تنہا، مایوس، اور مسکینوں کو برکت دینے اور خُدا کی بادشاہی کو مضبوط کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ ہم خُداوند کی مرضی کو جاننے اور اِسکا پرچار کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں، خصوصاً اُن کو جو ابدی زندگی کے خواہاں ہیں۔۱۵

اگرچہ ہماری فروتن خواہش ہے سب مُنجی کی تعلیمات کی عزت کریں، اپنے انبیا کے ذریعے خُداوند کا کلام اکثر دُنیاوی رجحانات اور سوچ کے برعکس ہوتا ہے۔ یہ سدا سے ایسا ہی رہا ہے۔۱۶

مُنجی نے اپنے رسُولوں سےفرمایا:

”اگر دُنیا تُم سے [عداوت] رکھتی ہے، تو تُم جانتے ہو کہ اُس نے تُم سے پہلے مجھ سے بھی عداوت رکھی ہے۔ …

”…یہ سب کچھ وہ کریں گے … کیونکہ وہ میرے بھیجنے والے کو نہیں جانتے۔“۱۷

ہرایک کا خیال رکھنا

ہم حقیقی طور پر اپنے تمام پڑوسیوں سے پیار کرتے اور ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں ، چاہے وہ اس پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں جیسے ہم کرتے ہیں۔ یِسُوع نے نیک سامری کی تمثیل میں ہمیں سکھایا کہ ، اچھے اور نیک مقاصد کی پیروی کرتے ہوئےمختلف عقائد رکھنے والوں کو خلوص دل سے کسی بھی ضرورت مند کی مدد کے لیے پہنچنا چاہیے۔

فروری میں، ایروزونا ریپبلک کی شہ سُرخی بیان کرتی ہے، ”مقدسینِ آخری ایام کی جانب سے دو طرفہ بِل کی حمایت ایرزونا کے ہم جنس پرستوں اور خواجہ سرائوں کو تحفظ فراہم کرے گی۔“۱۸

ہم بطور مقدسینِ ایام آخر، ”ایمان، کاروبار، LGBTQ(ایل جی بی ٹی کیو) لوگوں اور معاشرتی قائدین کے اتحاد کا حصہ بننے پر خوش ہیں جنہوں نے اعتماد اور باہمی احترام کے جذبے سے مل کر کام کیا ہے۔“۱۹

صدر رسل ایم نیلس نے ایک دفعہ متفکر ہو کر پوچھا تھا، ”کیا سرحدیں میدانِ جنگ بنے بغیر قائم نہیں رہ سکتیں؟“۲۰

ہم ”مسِیح کے پُر امن پیروکار “بننے کی کوشش کرتے ہیں۲۱۔

ایسے اوقات جب ہمیں جواب نہیں دینا چاہیے۔

نجات دہندہ پر کچھ حملے اتنے بدنیتی پر مبنی تھے کہ اس نے کچھ نہیں کہا۔ ”اور سردار کاہن اور فقِیہ … زور شور سے اُس پر الزام لگاتے رہے … اور اُسے ٹھٹھوں میں اُڑایا، مگر یِسُوع نے [اُنہیں] کوئی جواب نہ دیا۔“۲۲ ایسے اوقات ہوتے ہیں جب صُلح جُو ہونے کا مطلب ہے کہ ہم جواب دینے کے جذبے کے خلاف مزاحمت کریں اور اِس کی بجائے، وقار کے ساتھ خاموش رہیں ۲۳

یہ ہم سب کے لیے دل شکن ہوتا ہے جب نجات دہندہ، اس کے پیروکاروں، اور اُس کی کلیسیا کے بارے میں سخت یا مسترد کرنے والے الفاظ ان لوگوں کے ذریعے بولے یا شائع کیے جاتے ہیں جو کبھی ہمارے ساتھ کھڑے تھے، ہمارے ساتھ عشائے ربانی لیتے تھے، اور ہمارے ساتھ یسوع کے الہٰی مشن کی گواہی دی تھی۔۲۴

ایسا مُنجی کی خدمت کے دوران میں بھی ہوا تھا۔

یِسُوع کے کچھ حواری جو نہایت جلالی معجزات میں اُس کے ساتھ تھے ”اُس کے ساتھ نہ [رہے]“۲۵ بد قسمتی سے، سارے مُنجی کی محبت اور اُس کے احکام کی بجا آوری کرنے کے اپنے ارادے میں ثابت قدم نہیں رہیں گے۔.۲۶

یِسُوع نے ہمیں غصہ اور جھگڑے کے چکر سے دستبردار ہونا سکھایا ہے۔ ایک مثال میں، جب فریسیوں نے یسوع کا سامنا کیا اور مشورہ کیا کہ وہ اسے کیسے تباہ کر سکتے ہیں، صحائف بتاتے ہیں کہ یسوع نے خود کو ان سے الگ کر لیا، ۲۷ اور معجزے ہوئے جب ”بڑی بھیڑ اس کے پیچھے آئی، اور اس نے ان سب کو شفا دی۔“۲۸

دوسروں کی زندگیوں کو بابرکت بنانا۔

ہم بھی خُو د کو جھگڑے سے الگ کر سکتے اور دُوسروں کی زندگیوں کو با برکت بنا سکتے ہیں۲۹ جبکہ خود کو اپنے کونے میں الگ تھلگ نہیں کرتے۔

مابوجی-مائی، عوامی جمہوریہ کانگو میں، ابتدائی طور پر کچھ لوگ، ہمارے اعتقادات کو نہ سمجھتے ہوئے اور ہمارے اراکین کو نہ جانتے ہوئے، کلیِسیا کے ناقد تھے۔

کچھ عرصہ قبل، کیتھِی اور میں نے مابوجی-مائی میں ایک خاص کلِسیائی عبادت میں شرکت کی۔ بچے چمکدار آنکھوں اور بڑی مسکراہٹوں کے ساتھ بے داغ اُجلے لباس پہنے ہوئے تھے۔ میں اُن سے اُن کی تعلیم کے بارے بات کرنے کی اُمید رکھتا تھا مگر میں نے جانا کہ بہت سے سکول نہیں جا رہے تھے۔ ہمارے قائدین نے، نہایت قلیل انسان دوست عطیات کے ساتھ، مدد کرنے کا طریقہ ڈھونڈا ۳۰ اب، ۴۰۰سے زیادہ طلباء، لڑکیاں اور لڑکے، اراکین کے ساتھ ساتھ وہ لوگ جو ہمارے عقیدے سے نہیں ہیں،اُنہیں ۱۶ اساتذہ جو کلیِسیائے یِسُوع مسِیح کے اراکین ہیں، کے ذریعے خیر مقدم کیا جاتا اور سکھایا جاتا ہے ۔

کِلنگا مُویا

چودہ سالہ کِلنگا مُویا نے کہا، ”[بہت تھوڑی رقم کے ساتھ،] میں نے چار سال سکول جائے بغیر گزارے۔ … کلیِسیا نے جو سب کچھ کیا ہے میں اُس کے لیے نہایت شکر گزار ہوں۔ … اب میں فرانسیسی لکھ، پڑھ اور بول سکتی ہوں“۳۱ اس اقدام کے بارے میں بات کرتے ہوئے، مابوجی -مائی کے میئر نے کہا، ”میں کلِسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدسینِ آخری ایام سے متاثر ہوں کیونکہ جب [دوسری]کلِسیائیں خُود کو اپنے کُونوں میں منقسم کر رہی ہیں… [آپ ضرورت مند کمیونٹی کی مدد کرنے کے لیے [دُوسروں]کے ساتھ کام کر رہے ہیں]۔“۳۲

ایک دوسرے سے پیارکریں

ہر بار جب میں یوحنا ۱۳، کا مطالعہ کرتا ہوں مجھے مُنجی کی کامل صُلح جو کے طور پر یاد دِلائی جاتی ہے۔ یِسُو ع نے محبت سے اپنے رسُولوں کے پاؤں دھوَئے۔ پھر، ہم پڑھتے ہیں ”یِسُوع اپنے دِل میں گھبرایا“۳۳ جب اُس نے اُس ایک کے بارے میں سوچا جو اُس کو دھوکہ دینے کی تیاری کر رہا تھا میں نے مُنجی کے احساسات اور خِیالات کا تصور کرنے کی کوشش کی ہے جب یہوداہ چلا گیا۔ یِسُوع نے اپنے احساسِ ”گھبراہٹ“ یا دھوکہ کے بارے مزید کچھ نہ کہا۔ بلکہ، اُس نے اپنے رسُولوں سے محبت کی بات کی، اُس کے الفاظ صدیوں سے جھلک رہے ہیں:

”میں تمھیں ایک نیا حکم دیتا ہوں، کہ تم ایک دوسرے سے محبت رکھو؛ جس طرح میں نے تم سے محبت رکھی۔ …

”اگر آپس میں مُحبّت رکھّو گے تو اِس سے سب جانیں گے کہ تُم میرے شاگِرد ہو۔“۳۴

ہم اُس سے محبّت رکھیں اور ایک دُوسرے سے محبت رکھیں۔ ہم صلح جوبنیں ، تاکہ ہم ”خُدا کے فرزند“ کہلا سکیں۔ میں یہ یسوع کے نام سے کہتا ہوں۔

حوالہ جات

  1. متّی ۵:‏۹۔

  2. دیکھیے افسیوں ۶:‏۱۶؛ عقائد اور عہود ۳ :‏۸۔

  3. اعمال۲۸:۱۷ ۔

  4. مضایاہ ۱۵:‏۱۱۔

  5. مضایاہ ۵:‏۷۔

  6. صدر ڈیلن ایچ اوکس نے سکھایا: ”نجات دہندہ کے پیروکاروں کو تہذیب کی مثالیں ہونا چاہیے۔۔ ہمیں سب لوگوں سے محبت کرنی چاہیے، اچھا سامع ہونا چاہیے، اور اُن کے مُخلص اعتقادات کے لیے فکر ظاہر کرنی چاہیے۔ اگرچہ ہم غیر متفق ہو سکتے ہیں، ہمیں ناگوار نہیں ہونا چاہیے۔ متنازعہموضوعات پر ہمارے موقف اور ابلاغ کو متنازعہ نہیں ہونا چاہیے“ (”دوسروں سے محبت کرنا اور اختلافات کے ساتھ زندگی گزارنا،“لیحونا ، نومبر ۲۰۱۴ ، ۲۷ )۔

  7. ”آموس سی براؤن: اختلافات کو مرحم لگانے کے لیے ایل ڈی ایس کی تقلید کرتے ہوئے آگے بڑھیں ,” سالٹ لیک ٹرایبیون , “ جنوری ۲۰، ۲۰۲۲،sltrib.com.

  8. بزرگ ڈیل جی رینلنڈ نے فرمایا، جب مسِیح کی محبت ہماری زِندگیوں کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے، ہم اِختلافِ رائے سے فروتنی، صبر، اور شفقت کے ساتھ رُجُوع کرتے ہیں۔“(”اطمینانِ مسِیح دشمنی کو موقوف کرتا ہے، “لیحونا، نومبر ۲۰۲۱)۔

  9. متّی ۵: ۱۱–۱۲۔

  10. دیکھیں ۲ نیفی ۱۰:‏۲۳۔

  11. دیکھیں ۲ نیفی ۲: ۱۱۔

  12. موسیٰ۶: ۵۵۔

  13. دیکھیں ۱ نیفی ۱۴:‏۱۲۔

  14. حالیہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ۵ میں سے ۳ بہت سے لوگوں نے اس کہانی کی شہ سرخی کا اشتراک کیا ہے جو انہوں نے بھی نہیں پڑھی ( دیکھیں کیٹلن ڈیوی ، ”۶ میں سے ۱۰ میں یہ لنک پڑھے بغیر بتائیں گے ، ایک نیا ، مایوس کن مطالعہ کہتا ہے“واشنگٹن پوسٹ، ۱۶ جون ، ۲۰۱۵ ، washingtonpost.com ؛ ماکسم گبیالکوو اور دیگر، ” سماجی کلکس : ٹوئٹر پر کیا اور کون پڑھتا ہے ؟ “[ کاغذ ۲۰۱۶ ACM سگ میٹرکس انٹرنیشنل کانفرنس میں کمپیوٹر سائنس کی پیمائش اور ماڈلنگ پر پیش کیا گیا ، جون ۱۴ ، ۲۰۱۶ ] ، dl.acm.org )۔

  15. تعجب کی ایسی کوئی بات نہیں اگربعض اَوقات اِبتدا میں آپ کے ذاتی خیالات خُداوند کے نبی کی تعلیم سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ یہ فروتنی کو سیکھنے کے لمحات ہیں، جب ہم دُعا کے لیے اپنے گھٹنے ٹیکتے ہیں۔ دراصل، ہم اِیمان کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں،اور خُدا پر توکل کرتے ہیں، اِس یقین کے ساتھ کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے آسمانی باپ سے زیادہ واضح رُوحانی علم پائیں گے۔

  16. دیکھیے عقائد اور عہُود ۱ :‏۱۶-۱۶۔

  17. یوحنا ۱۵: ۱۸،۲۱؛ تاکید کا اِضافہ کیا گیا۔

  18. دیکھئے “مقدسین ایامِ آخرکا حمایت کا دوطرفہ بل ہم جنس پرستوں اور ٹرانسجینڈر ایریزوناز کی حفاظت کرے گا,” ایریزونا ریپبلک فروری ۷، ۲۰۲۲، axcentral.com.

  19. کلیسیائے یسوع مسیح کیوں ایریریزونا میں جماعتی مذہبی آزادی اور عدم امتیازی بل کی حمایت کرتی ہے،“فروری ۷ ، ۲۰۲۲، newsroom.ChurchofJesusChrist.org۔

  20. رسل ایم نیلسن، ”ہمیں رواداری اور محبت سکھا،“ انزائن، مئی ۱۹۹۴ ،۶۹۔

  21. مرونی ۷: ۳۔ صدر گورڈن بی ہینکلی نے فرمایا: ”ہمیں نہ صرف روادار ہونا چاہیے، بلکہ ہمیں ان لوگوں کے لیے مثبت شکر گزاری کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے جو چیزوں کو اس طرح نہیں دیکھتے جیسے ہم اِنہیں دیکھتے ہیں۔ ہمیں کسی بھی طرح سے اپنی تھیالوجی، اپنے اعتقادات، ابدی سچائی کے اپنے علم سے جیسا کہ آسمان کے خدا کی طرف سے نازل کیا گیا ہےسمجھوتہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم سچائی کی اپنی گواہی پیش کر سکتے ہیں، خاموشی سے، خلوص سے، ایمانداری سے، لیکن کبھی بھی اس انداز میں نہیں کہ دوسروں کو ناراض کرے۔ … ہمیں ان دوسروں کے تشکر اور احترام کو نتھی کرنا سیکھنا چاہیے جو اپنے عقائد اور اعمال میں جتنے بھی مخلص ہیں ہم “ (”Out of Your Experience Here “[بریگھم ینگ یونیورسٹی کی ڈیوشنل ، ۱۶ اکتوبر ، ۱۹۹۰ ] ، ۶ ، speeches.byu.edu ) ۔.

  22. دیکھیں لُوقا ۲۳ :۱۱-۹ ۔

  23. بُزرگ ڈئیٹر ایف اُکڈورف نے فرمایا:”یِسُوع مسِیح کے پیروکار کی حیثیت سے، ہم [اُس] کی تقلید کرتے ہیں۔ ہم دُوسروں کو شرمندہ نہیں کرتے یا حملہ آور نہیں ہوتے ہیں۔ ہم خُدا کی محبت اور اپنے پڑوسیوں کی خدمت کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ ہم خُوشی سے احکامِ خُدا کی بجا آوری کرنے اور انجیل کے اصُولوں پر عمل پیرا ہونے کے خواہاں ہوتے ہیں“(”پانچ پیغامات جو خُدا کے تمام بچوں کو سُننے چاہیں،“[ بریگم ینگ یونیورسٹی کا دعایہ تعلیمی ہفتہ۔، اگست ۱۷، ۲۰۲۱]، ۵، speeches.byu.edu)۔

  24. بزرگ نیل اے میکس ویل نے فرمایا:”کلیِسیا کے ارکان ہزار سالہ دور تک گہیوں اور کڑوے دانوں کی صورتحال میں رہیں گے کچھ اصلی کڑوے دانے گندم کا بہروپ دھار لیتے ہیں، بشمول چند مُشتاق افراد جو ہم میں سے باقی سب کو کلِیسیا کی تعلیم پر واعظ دیتے ہیں جس پر وہ اب اعتقاد نہیں رکھتے ہیں۔ وہ کلِیسیا کے وسائل کے استعمال پر تنقید کرتے ہیں جس میں وہ مزید حصہ نہیں ڈالتے ہیں۔ وہ متکبرانہ انداز میں بھائیوں کو مشورہ دینے کی کوشش کرتے ہیں جن کی وہ مزید تائید نہیں کرتے ہیں۔ متضاد، بلاشبہ،خود کو چھوڑ کر، وہ کلیِسیا کو چھوڑ دیتے ہیں، لیکن وہ کلیسیا کا پیچھا نہیں چھوڑ تے ہیں“(”بچے کی مانند بننا،“انزائن، مئی ۱۹۹۶، ۶۸)۔

  25. یُوحنّا ۶: ۶۶۔

  26. ”گناہ کا لطف [صرف]چند روزہ ہے“(دیکھئے عبرانیوں ۱۱: ۲۴- ۲۶

  27. دیکھیں متّی ۱۲: ۱۵-۱۔

  28. متّی ۱۲:‏۱۵۔

  29. دیکھئے ۳ نیفی ۳۰-۲۹۔

  30. ڈان باسکو فاونڈیش کی مدد کے ساتھ، سکول پروگرام نے تدریس اور مواد میں قابلِ قدر مہارت پائی۔

  31. ملیکا، ایک والدین، نے کہا، ”مجھے یہ پروگرام پسند ہے کیونکہ اِس نے میری بیٹی کو … پڑھنا لکھنا سیکھنے اور ایک بہتر مستقبل کی امید رکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ میں اسے سکول نہیں بھیج سکا کیونکہ میں بازار میں مکئی کا آٹا بیچ کر کمائی کر رہا ہوں … جو صرف کھانے کے لیے کافی ہے۔ میں اِس کے لیے کلیِسیا کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔“ ایک معلمہ، بہن مونیک نے کہا، ”یہ پروگرام ان بچوں کے لیے ایک عظیم نعمت کے طور پر آیا۔ میری جماعت میں … ان میں سے اکثر یتیم ہیں۔ وہ اسے پیار کرتے ہیں ، باقاعدگی سے جماعتوں میں شرکت کرتے اور اپنا ہوم ورک کرتے ہیں “ ( بزرگ جوزف ڈبلیو سیٹی نے تبصرے اور تصاویر فراہم کی ہیں)۔

  32. مئیر نٹمبا لوئس یا تشوپیوٹا ، کلیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدسین آخری ایام کی جانب سے شروع کردہ ایمبوجی-میئی خواندگی منصوبے سے متعلق ایک عوامی مجلس میں خطاب کرتے ہوئے ، ۱۰ اکتوبر ، ۲۰۲۱۔

  33. یوحنا ۱۳: ۲۱

  34. یوحنا ۱۳: ۳۴–۳۵۔