یِسُوع کی تقلید کرنا: بطور صُلح جو
صُلح جوجامد نہیں ہوتے؛ وہ مُنجی کے انداز میں قائل کرنے والے ہوتے ہیں۔
عزیز بھائیو اور بہنو، جب ہم ایامِ ہنگامہ خیز، فساد، اور بہت سوں کے لیے، شدید تکالیفِ قلب کا تجربہ کرتے ہیں، ہمارے دِل اپنے مُنجی اوریِسُوع مسِیح کی بحال شدہ انجیل کی ابدی برکات کے لیے بے حد تشکر سے بھر جاتے ہیں۔ ہم اُسےپیار کرتے اور بھروسہ کرتے ہیں، اور ہم دُعا کرتے ہیں کہ ہم سدا اُس کی تقلید کریں۔
سماجی رابطے کی چنوتی
انٹر نیٹ کا قوی اثر ، ہمارے زمانہ کے لیے منفرد برکت ہی نہیں ایک چنوتی بھی ہے۔
سماجی میڈیا اور معلومات کے ارفع و سریع ذرائع کے جہان میں کسی شخص کی آواز کی بڑی سرعت سے شنوائی ہو سکتی ہے۔ وہ آواز خواہ حق ہو یا باطل، خواہ منصفانہ ہو یا متعصبانہ، خواہ مہربان ہو یا ظالمانہ دُنیامیں فوری طور پر پھیل جاتی ہے۔
پُر مغز اور اچھی سماجی میڈیا پوسٹس اکثر صرفِ نظر کا شکار ہو جاتی ہیں جب کہ حقارت اور غصے کے الفاظ ، خواہ سیاسی فلسفہ کے ساتھ، خبروں میں لوگوں کے ساتھ، یا وبا پر رائے کے ساتھ اکثر ہماری سماعت پر گراں گزرتے ہیں کوئی بھی شخص یا کوئی بھی موضوع، بشمول نجات دہندہ اور اس کی بحال شدہ انجیل، بالکل جدا آوازوں کے اس سماجی رجحان سے محفوظ نہیں ہے
صلح کرانے والے بنیں
پہاڑی واعظ سب کے لیے پیغام ہے مگر یہ خصوصاً نجات دہندہ کے شاگردوں کے لیے دیا گیا تھا، وہ جنہوں نے اُس کی تقلید کرنا چُن لیا تھا۔
مُنجی نے سکھایا اِس جہانِ بے ثبات میں، تب اور اب، کیسے جینا ہے۔ ”مبارک ہیں وہ جو صُلح کراتے ہیں،“ اُس نے فرمایا، ”کیونکہ وہ خُدا کے بیٹے کہلائیں گے“۱
ہم یِسُوع مسِیح پر اپنے ایمان کی ڈھال سے صلح جو بنتے ہیں—دشمن کے سب آتشی تیروں کو بُجھاتے ہوئے— یعنی پُر سکون کرنا، ٹھنڈا کرنا، یا بجھانا ۲
جب ہم اپنا حصہ ادا کرتے ہیں، اُس کا وعدہ ہے کہ ہم ”خُدا کے فرزند“ کہلائیں گے۔ زمین پر ہر شخص خُدا کی ”اُولاد“ ہے، ۳ ، مگر ”خُدا کے فرزند“ کہلوانا اِس سے کہیں زیادہ قابلِ قدر ہے۔ جب ہم یِسُوع مسِیح کے پاس آتے اور اُس کے ساتھ عہود باندھتے ہیں، ہم اُس کی ”نسل“ اور ”بادشاہی کے وارث،“۴ ”طفلانِ مسِیح ، اُسکے بیٹے اور بیٹیاں“ بن جاتے ہیں۔۵
صُلح جو کیسے آتشی تیروں کو پرسکون اور ٹھنڈا کرتا ہے؟ یقیناً اُن کے سامنے پسیجنے سے نہیں جو ہماری بے عزتی کرتے ہیں۔ بلکہ، ہم اپنے ایمان میں بے باک رہتے ہیں، اپنے عقائد کا یقین کے ساتھ اشتراک کرتے ہیں، لیکن ہمیشہ غصے یا بغض سے مُبرا رہتے ہیں۔۶
حال ہی میں کلیسیا کے خلاف تلخ کلمات کے ساتھ تنقیدی تحریر کے بعد، سان فرانسسکو میں شہری حقوق کے قومی رہنما اور تھرڈ بیپٹسٹ چرچ کے پادری ریورنڈ اموس سی براؤن نے جواب دیا:
”میں اس فرد کے تجربے اور تناظر کا احترام کرتا ہوں جس نے یہ الفاظ لکھے۔ یہ طے ہے، اُس نے جو تحریر کیا ہے مَیں اُس سے متفق نہیں ہوں۔“
”میں [کلیِسیا کے]اِن قائدین، بشمول صدر رسل ایم نیلسن کو جاننا اپنی زندگی کی عظیم ترین خُوشیوں میں شمار کرتا ہوں۔ وہ، میرے قیاس میں، ہمارے مُلک کی بہترین قیادت کا مجسم پیکر ہیں۔“
پھر اُس نے مزید کہا، ”چیزیں کیسی تھیں ہم اُس کی پکڑ کرسکتے ہیں۔ ہم اُس تمام تر اچھائی کو جو ابھی ہو رہی ہے اُسے تسلیم کرنے سے انکار کر سکتے ہیں۔… مگر یہ رویے ہماری قومی تقسیم کو شِفا نہیں بخشیں گے۔ جیسے یِسُوع نے سِکھایا، ہم بُرائی کو مزید بُرائی سے نہیں مِٹا نہیں سکتے۔ ہم فراخ دِلی سے محبت کرتے اور رحمدلی سے رہتے ہیں، حتٰی کہ اُن کے ساتھ بھی جو خُود کو ہمارا دِشمن تصور کرتے ہیں۔“۷
عزت مآب براؤن ایک صلح جو ہیں۔ اُس نے تسلی اور عزت سے آتشی تیروں کو بُجھایا۔ صُلح جوجامد نہیں ہوتے؛ وہ مُنجی کے انداز میں قائل کرنے والے ہوتے ہیں ۸
سچائیاں جنہیں ہم عزیز جانتے ہیں اُن کی طرف تانے گئے آتشی تیروں کو ٹھنڈا کرنے، پُر سکون کرنے، اور بُجھانے کے لیے ہمیں کیا چیز اندونی قوت عطا کرتی ہے۔ یہ قوت یِسُوع مسِیح پر ہمارے اِیمان اور اُس کے کلام پر ہمارے ایمان سے آتی ہے۔
”مبارک ہو تم جب لوگ میری وجہ سے تمہیں لعن طعن کرتے، تمہیں ستاتے … اور تمہارے بارے میں ہر قسم کی بُری اور جھوٹی بات کرتے ہیں۔
”…خوشی مناؤ اور باغ باغ ہو جاؤ، تم کو آسمان پر بڑا اجر ملے گا۔ کیونکہ اِسی طرح اُنہوں نے تم سے پہلے نبیوں کو بھی ایذا پہنچائی تھی۔“۹
مختاری کی اہمیت
دو اہم اصُول صُلح جو بننے کی ہماری خواہش کی راہ نمائی کرتے ہیں۔
اول، ہمارے آسمانی باپ نے ہر فرد کو اُس کی اخلاقی مُختاری ، کسی کو اپنی راہ مُنتخب کرنے کی اہلیت کے ساتھ عطا کی ہے ۱۰ یہ مُختاری خُدا کی نعمتوں میں سے افضل ترین ہے۔
دوم، اِس مُختاری کے ساتھ، ہمارے آسمانی باپ نے ”تمام چیزوں کے تضاد“ کی اجازت دی۱۱ ہم’’کڑوا چکھیں تا کہ اچھے کو گراں قدر جانیں۔‘‘۱۲ مُخالفت کو ہمیں اچَن٘بھَے میں نہیں ڈالنا چاہے۔ ہم اچھائی اور بُرائی میں تمیز کرنا سیکھتے ہیں۔
یہ ادراک کرتے ہوئے کہ بہت سے ایسے ہوں گے جو ہم جیسا عقیدہ نہیں رکھتے،ہم مُختاری کی برکات سے مسرور ہوتے ہیں۔ در حقیقت، ایام آخر میں چند ایک ہی اپنی اپنی تمام تر سوچ اور کام میں اپنے ایمان کا مرکز یِسُوع مسِیح کو بنائیں گے۔۱۳
سماجی میڈیا کے پلیٹ فارموں کی بدولت، بے اعتقادی کی ایک آواز منفی آوازوں کے انبوہ کی صورت میں ظاہر ہو سکتی ہیں، ۱۴ مگر حتٰی کہ آوازوں کے اِس انبوہ میں بھی، ہم صُلح جوئی کی راہ مُنتخب کر سکتے ہیں۔
خداوند کے راہنما
کچھ لوگ صدارتِ اول اور بارہ کی جماعت کو سیاسی، کاروباری، اور ثقافتی قائدین جیسے دُنیاوی مقاصد کے طور پر دیکھتے ہیں۔
بہر حال، ہم اپنی ذمہ داریوں تک بہت ہی مُختلف طریقے سے پہنچتے ہیں۔ ہم نہ تو ووٹ سے مُنتخب ہوتے ہیں یا درخواستوں سے چُنے جاتے ہیں۔ کسی بھِی خاص پیشہ ورانہ تیاری کے بغیر، ہمیں یِسُوع مسِیح کے نام کی اپنی آخری سانس تک پُوری دُنیا میں گواہی دینے کے لیے بُلایا اور مقرر کیاجاتا ہے۔ ہم روگیوں ، تنہا، مایوس، اور مسکینوں کو برکت دینے اور خُدا کی بادشاہی کو مضبوط کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ ہم خُداوند کی مرضی کو جاننے اور اِسکا پرچار کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں، خصوصاً اُن کو جو ابدی زندگی کے خواہاں ہیں۔۱۵
اگرچہ ہماری فروتن خواہش ہے سب مُنجی کی تعلیمات کی عزت کریں، اپنے انبیا کے ذریعے خُداوند کا کلام اکثر دُنیاوی رجحانات اور سوچ کے برعکس ہوتا ہے۔ یہ سدا سے ایسا ہی رہا ہے۔۱۶
مُنجی نے اپنے رسُولوں سےفرمایا:
”اگر دُنیا تُم سے [عداوت] رکھتی ہے، تو تُم جانتے ہو کہ اُس نے تُم سے پہلے مجھ سے بھی عداوت رکھی ہے۔ …
”…یہ سب کچھ وہ کریں گے … کیونکہ وہ میرے بھیجنے والے کو نہیں جانتے۔“۱۷
ہرایک کا خیال رکھنا
ہم حقیقی طور پر اپنے تمام پڑوسیوں سے پیار کرتے اور ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں ، چاہے وہ اس پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں جیسے ہم کرتے ہیں۔ یِسُوع نے نیک سامری کی تمثیل میں ہمیں سکھایا کہ ، اچھے اور نیک مقاصد کی پیروی کرتے ہوئےمختلف عقائد رکھنے والوں کو خلوص دل سے کسی بھی ضرورت مند کی مدد کے لیے پہنچنا چاہیے۔
فروری میں، ایروزونا ریپبلک کی شہ سُرخی بیان کرتی ہے، ”مقدسینِ آخری ایام کی جانب سے دو طرفہ بِل کی حمایت ایرزونا کے ہم جنس پرستوں اور خواجہ سرائوں کو تحفظ فراہم کرے گی۔“۱۸
ہم بطور مقدسینِ ایام آخر، ”ایمان، کاروبار، LGBTQ(ایل جی بی ٹی کیو) لوگوں اور معاشرتی قائدین کے اتحاد کا حصہ بننے پر خوش ہیں جنہوں نے اعتماد اور باہمی احترام کے جذبے سے مل کر کام کیا ہے۔“۱۹
صدر رسل ایم نیلس نے ایک دفعہ متفکر ہو کر پوچھا تھا، ”کیا سرحدیں میدانِ جنگ بنے بغیر قائم نہیں رہ سکتیں؟“۲۰
ہم ”مسِیح کے پُر امن پیروکار “بننے کی کوشش کرتے ہیں۲۱۔
ایسے اوقات جب ہمیں جواب نہیں دینا چاہیے۔
نجات دہندہ پر کچھ حملے اتنے بدنیتی پر مبنی تھے کہ اس نے کچھ نہیں کہا۔ ”اور سردار کاہن اور فقِیہ … زور شور سے اُس پر الزام لگاتے رہے … اور اُسے ٹھٹھوں میں اُڑایا، مگر یِسُوع نے [اُنہیں] کوئی جواب نہ دیا۔“۲۲ ایسے اوقات ہوتے ہیں جب صُلح جُو ہونے کا مطلب ہے کہ ہم جواب دینے کے جذبے کے خلاف مزاحمت کریں اور اِس کی بجائے، وقار کے ساتھ خاموش رہیں ۲۳
یہ ہم سب کے لیے دل شکن ہوتا ہے جب نجات دہندہ، اس کے پیروکاروں، اور اُس کی کلیسیا کے بارے میں سخت یا مسترد کرنے والے الفاظ ان لوگوں کے ذریعے بولے یا شائع کیے جاتے ہیں جو کبھی ہمارے ساتھ کھڑے تھے، ہمارے ساتھ عشائے ربانی لیتے تھے، اور ہمارے ساتھ یسوع کے الہٰی مشن کی گواہی دی تھی۔۲۴
ایسا مُنجی کی خدمت کے دوران میں بھی ہوا تھا۔
یِسُوع کے کچھ حواری جو نہایت جلالی معجزات میں اُس کے ساتھ تھے ”اُس کے ساتھ نہ [رہے]“۲۵ بد قسمتی سے، سارے مُنجی کی محبت اور اُس کے احکام کی بجا آوری کرنے کے اپنے ارادے میں ثابت قدم نہیں رہیں گے۔.۲۶
یِسُوع نے ہمیں غصہ اور جھگڑے کے چکر سے دستبردار ہونا سکھایا ہے۔ ایک مثال میں، جب فریسیوں نے یسوع کا سامنا کیا اور مشورہ کیا کہ وہ اسے کیسے تباہ کر سکتے ہیں، صحائف بتاتے ہیں کہ یسوع نے خود کو ان سے الگ کر لیا، ۲۷ اور معجزے ہوئے جب ”بڑی بھیڑ اس کے پیچھے آئی، اور اس نے ان سب کو شفا دی۔“۲۸
دوسروں کی زندگیوں کو بابرکت بنانا۔
ہم بھی خُو د کو جھگڑے سے الگ کر سکتے اور دُوسروں کی زندگیوں کو با برکت بنا سکتے ہیں۲۹ جبکہ خود کو اپنے کونے میں الگ تھلگ نہیں کرتے۔
مابوجی-مائی، عوامی جمہوریہ کانگو میں، ابتدائی طور پر کچھ لوگ، ہمارے اعتقادات کو نہ سمجھتے ہوئے اور ہمارے اراکین کو نہ جانتے ہوئے، کلیِسیا کے ناقد تھے۔
کچھ عرصہ قبل، کیتھِی اور میں نے مابوجی-مائی میں ایک خاص کلِسیائی عبادت میں شرکت کی۔ بچے چمکدار آنکھوں اور بڑی مسکراہٹوں کے ساتھ بے داغ اُجلے لباس پہنے ہوئے تھے۔ میں اُن سے اُن کی تعلیم کے بارے بات کرنے کی اُمید رکھتا تھا مگر میں نے جانا کہ بہت سے سکول نہیں جا رہے تھے۔ ہمارے قائدین نے، نہایت قلیل انسان دوست عطیات کے ساتھ، مدد کرنے کا طریقہ ڈھونڈا ۳۰ اب، ۴۰۰سے زیادہ طلباء، لڑکیاں اور لڑکے، اراکین کے ساتھ ساتھ وہ لوگ جو ہمارے عقیدے سے نہیں ہیں،اُنہیں ۱۶ اساتذہ جو کلیِسیائے یِسُوع مسِیح کے اراکین ہیں، کے ذریعے خیر مقدم کیا جاتا اور سکھایا جاتا ہے ۔
چودہ سالہ کِلنگا مُویا نے کہا، ”[بہت تھوڑی رقم کے ساتھ،] میں نے چار سال سکول جائے بغیر گزارے۔ … کلیِسیا نے جو سب کچھ کیا ہے میں اُس کے لیے نہایت شکر گزار ہوں۔ … اب میں فرانسیسی لکھ، پڑھ اور بول سکتی ہوں“۳۱ اس اقدام کے بارے میں بات کرتے ہوئے، مابوجی -مائی کے میئر نے کہا، ”میں کلِسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدسینِ آخری ایام سے متاثر ہوں کیونکہ جب [دوسری]کلِسیائیں خُود کو اپنے کُونوں میں منقسم کر رہی ہیں… [آپ ضرورت مند کمیونٹی کی مدد کرنے کے لیے [دُوسروں]کے ساتھ کام کر رہے ہیں]۔“۳۲
ایک دوسرے سے پیارکریں
ہر بار جب میں یوحنا ۱۳، کا مطالعہ کرتا ہوں مجھے مُنجی کی کامل صُلح جو کے طور پر یاد دِلائی جاتی ہے۔ یِسُو ع نے محبت سے اپنے رسُولوں کے پاؤں دھوَئے۔ پھر، ہم پڑھتے ہیں ”یِسُوع اپنے دِل میں گھبرایا“۳۳ جب اُس نے اُس ایک کے بارے میں سوچا جو اُس کو دھوکہ دینے کی تیاری کر رہا تھا میں نے مُنجی کے احساسات اور خِیالات کا تصور کرنے کی کوشش کی ہے جب یہوداہ چلا گیا۔ یِسُوع نے اپنے احساسِ ”گھبراہٹ“ یا دھوکہ کے بارے مزید کچھ نہ کہا۔ بلکہ، اُس نے اپنے رسُولوں سے محبت کی بات کی، اُس کے الفاظ صدیوں سے جھلک رہے ہیں:
”میں تمھیں ایک نیا حکم دیتا ہوں، کہ تم ایک دوسرے سے محبت رکھو؛ جس طرح میں نے تم سے محبت رکھی۔ …
”اگر آپس میں مُحبّت رکھّو گے تو اِس سے سب جانیں گے کہ تُم میرے شاگِرد ہو۔“۳۴
ہم اُس سے محبّت رکھیں اور ایک دُوسرے سے محبت رکھیں۔ ہم صلح جوبنیں ، تاکہ ہم ”خُدا کے فرزند“ کہلا سکیں۔ میں یہ یسوع کے نام سے کہتا ہوں۔