”تب مَیں کمزوریوں کو مضبُوطی میں بدل دوں گا“
اور جب ہم خُود کو فروتن کرتے اور یِسُوع مسِیح پر اِیمان کی مشق کرتے ہیں، تو مسِیح کا فضل اور اُس کی لامحدود کفّارہ بخش قربانی ہماری تبدیلی کو ممکن بناتی ہے۔
صدر تھامس ایس مانسن نے ایک دفعہ قید خانہ کے نگراں کلنٹن ڈفی کی کہانی بیان کی تھی۔ ”۱۹۴۰ اور ۱۹۵۰ کی دہائیوں میں، [وارڈن ڈفی] اپنی جیل میں قید مرد حضرات کو سدھارنے کی کوششوں کے لیے مشہور تھے۔ ایک ناقد نے کہا، ’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ تیندوے اپنے دھبّوں کو نہیں بدلتے!‘
”وارڈن ڈفی نے جواب دیا، ’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مَیں تیندوؤں کے ساتھ کام نہیں کرتا۔ مَیں مردوں کے ساتھ کام کرتا ہوں، اور مرد ہر روز تبدیل ہوتے ہیں۔‘“۱
شیطان کا سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ مرد و زن تبدیل نہیں ہو سکتے۔ یہ جھوٹ بہت سے مختلف طریقوں سے بتایا اور دُہرایا جاتا ہے جب دُنیا یہ باور کراتی ہے کہ ہم بلاشبہ تبدیل ہو ہی نہیں سکتے۔ ہمیں سِکھایا جاتا ہے کہ ہمارے حالات ہماری عکاسی کرتے ہیں۔ ”اِس امر کو قبول کریں کہ ہم اصل میں کون ہیں“ دُنیا کہتی ہے، ”اور ہمیں اپنی حقیقی ذات کے لیے مُسْتَنَد ہونا چاہیے۔“
ہم تبدیل ہو سکتے ہیں
اگرچہ مُسْتَنَد ہونا واقعی اچھا ہے، ہمیں خُدا کے بیٹے اور بیٹیاں ہونے کے ناطے، الہٰی فطرت اور اُس کی مانند بننے کی تقدیر کے ساتھ، اپنی حقیقی، سچی ذات کے لیے مُسْتَنَد ہونا چاہیے۔۲ اگر ہمارا مقصد اِس الہٰی فطرت اور تقدیر کا مُسْتَنَد ہونا ہے تو ہم سب کو بدلنے کی ضرورت ہوگی۔ تبدیلی کے لیے صحیفائی لفظ توبہ ہے۔ ”بہت سے لوگ،“ صدر رسل ایم نیلسن سِکھاتے ہیں، ”تَوبہ کو سزا سمجھتے ہیں—اور سب سے زیادہ سنگین حالات کے علاوہ اِس سے بھاگتے ہیں۔ جب یِسُوع آپ کو اور مُجھ سے کہتا ہے کہ ’توبہ کرو،‘ تو وہ ہمیں تبدیل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔“۳
خُدا کی شرائط
کمپیوٹر سافٹ ویئر ڈویلپرز کمپیوٹر کو بتانے کے لیے مشروط بیانات اِستعمال کرتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔ اِن کو بعض اوقات if-then بیانات بھی کہا جاتا ہے—ایک مشروط جملہ جس میں ممکنہ صورت حال کو پیش کرنے کے لیے پہلی شِق ”اگر“ سے شروع ہوتی ہے، اور دُوسری شِق عام طور پر ممکنہ نتیجہ پیش کرنے کے لیے ”تو“ سے شروع ہوتی ہے۔ جیسے کہ اگر x سچ ہے، تو y کریں۔
خُداوند بھی شرائط کے ذریعے کام کرتا ہے: ایمان کی شرائط، راستبازی کی شرائط، توبہ کی شرائط۔ خُدا کے مشروط بیانات کی بہت سی مثالیں ہیں جیسا کہ:
”اگر تُو میرے حُکموں کو مانتا اور آخِر تک برداشت کرتا ہے [تو] اَبَدی زِندگی پائے گا، جو خُدا کی سب نعمتوں میں سے اعلیٰ و اَرفع نعمت ہے۔“۴
یا ”اگر تُم سچّے دِل، اور نیک نیتی سے، مسِیح پر اِیمان رکھ کر دُعا کرو گے، [تو] وہ اِس کی سچّائی رُوحُ القُدس کی قُدرت سے تُم پر ظاہر کرے گا۔“۵
یہاں تک کہ خُدا کی مُحبّت، اگرچہ لامحدود اور کامل ہے، پھر بھی شرائط کے تابع ہے۔۶ مثال کے طور پر:
”اگر تُم میرے حُکموں پر عمل کروگے، [تو] میری محبّت میں قائِم رہوگے؛ جَیسے مَیں نے اپنے باپ کے حُکموں پر عمل کِیا ہے اور اُس کی محبّت میں قائِم ہُوں۔“۷
بزرگ ڈی ٹاڈ کرسٹوفرسن نے اِس اِنجِیلی سچّائی کو یہ سِکھاتے ہوئے مزید واضح کیا: ”بعض باقاعدگی سے کہتے ہیں، ’مَیں جیسا بھی ہُوں مُنجی مُجھ سے ویسے ہی پیار کرتا ہے‘ اور یقیناً یہ بات سچّ ہے۔ لیکن وہ ہم میں سے کسی کو بھی جیسے ہم ہیں اُسی حالت میں اپنی بادشاہی میں نہیں لے جا سکتا ہے، ”پَس کوئی بھی ناپاک چِیز وہاں ٹھہر نہیں سکتی، یا اُس کی حُضُوری میں ٹھہر نہیں سکتی۔“[موسیٰ ۵۷:۶،]۔ … پہلے ہمارے گُناہوں کا ازالہ ہونا چاہیے۔“۸
کمزور چِیزیں مضبُوط ہو سکتی ہیں
تبدیل ہونے میں ہماری مدد کرنے کے واسطے خُدا کی قُدرت حاصل کرنے والی برکت بھی مشروط ہے۔ نجات دہندہ نے، مورمن کی کتاب میں مرونی نبی کے ذریعے بات کرتے ہوئے، سِکھایا: ”اگر لوگ مُجھ سے رُجُوع کریں تو مَیں اُن کی کمزوری اُن پر ظاہر کروں گا۔ مَیں اِنسان کو اِس لیے کمزور کرتا ہوں تاکہ وہ فروتن ہو؛ اور میرا فضل اُن تمام انسانوں کے لیے کافی ہے جواپنے آپ کو میرے سامنے فروتن کرتے ہیں؛ کیوں کہ اگر وہ اپنے آپ کو میرے سامنے فروتن کریں، اور مجھ پر اِیمان لائیں، تب مَیں کمزوریوں کو مضبُوطی میں بدل دوں گا۔“۹
خُداوند ہمیں یہاں جس چیز کی تعلیم دے رہا ہے اُس کو مزید قریب سے دیکھتے ہوئے، ہم سیکھتے ہیں وہ سب سے پہلے کہتا ہے کہ اُس نے ہر مرد و زن کو کمزوری دی، واحد کلمہ جس کا اطلاق ایک فرد پر ہوتا، جو کہ زوال پذیر یا جسمانی مخلوق کے طور پر ہمارے فانی تجربے کا حصّہ ہے۔ ہم آدم کے گرنے کی وجہ سے نفسانی مرد و زن بن گئے ہیں۔ لیکن یِسُوع مسِیح کے کفّارے کے وسیلے سے، ہم اپنی کمزوری یا اپنی زوال پذیر فطرت پر غالب آ سکتے ہیں۔
پھر وہ کہتا ہے کہ اُس کا فضل کافی ہے اور اگر ہم اپنے آپ کو فروتن کریں گے اور اُس پر اِیمان لائیں گے، تب ”وہ کمزوریوں [جمع کا ضیعہ جو ایک سے زیادہ پر اطلاق رکھتا ہو] کو [ہمارے] لیے مضبُوطی میں بدل دے گا۔“ با اِلفاظِ دیگر، جب ہم سب سے پہلے اپنی زوال پذیر فطرت، اپنی کمزوری کو بدلیں گے، تب ہی ہم اپنے رویے، اپنی کمزوریوں کو تبدیل کرنے کے قابل ہوں گے۔
تبدیلی کے تقاضے
آئیں خُداوند کے نمونے کے مطابق تبدیل ہونے کے تقاضوں کا جائزہ لیں:
اوّل، ہمیں لازمی طور پر خُود کو فروتن کرنا ہے۔ تبدیلی کے لیے خُداوند کی شرطِ لازم فروتنی ہے۔ ”اگر وہ اپنے آپ کو میرے سامنے فروتن کریں گے،“۱۰ اُس نے کہا۔ فروتنی کا مخالف تکبر ہے۔ غرور اس وقت ہوتا ہے جب ہم سوچتے ہیں کہ ہم بہتر جانتے ہیں۔ جب ہم اپنی سوچ یا احساس کو خُدا کی سوچ یا احساس سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔
بنیامین بادشاہ، نے سِکھایا کہ، ”نفسانی آدمی خُدا کا دشمن ہے … اور ہمیشہ سے ہمیشہ تک رہے گا، سوائے اِس کے کہ وہ … نفسانی آدمی کو ترک کر دے اور مسِیح خُداوند کے کفّارے کے وسیلے سے مُقدّس بن جائے، اور بچّے کی مانند فرمانبر دار، حلیم، تابعدار، صابر بنے ۔“۱۱
تبدیل ہونے کے لیے، ہمیں نفسانی آدمی کو ترک کرنے اور فروتن اور فرمانبردار بننے کی ضرورت ہے۔ ہمیں لازماً زِندہ نبی کی پیروی کرنے کے لیے کافی فروتن ہونا ہے۔ ہیکلی عہُود باندھنے اور اُن پر قائم رہنے کے لیے خاصا فروتن۔ اتنے فروتن کہ روزانہ توبہ کریں۔ ہمیں تبدیل ہونے کے لیے لازماً فروتن ہونا ہے، کہ ”خُدا کی حضوری میں [اپنے] دِلوں کو رُجُوع لائیں۔“۱۲
دوّم، ہمیں لازماً یِسُوع مسِیح پر اِیمان لانا ہے۔ ایک بار پھر، نجات دہندہ کے اِلفاظ: ”اگر وہ اپنے آپ کو میرے سامنے فروتن کریں، اور مُجھ پر اِیمان لائیں،“۱۳ تو وہ ہمیں ہماری کمزوریوں پر غالب آنے کی قوت بخشے گا۔ فروتنی، یِسُوع مسِیح پر اِیمان کے ساتھ مل کر، ہمیں اُس کے فضل کی قابل قُدرت اور اُس کے کفّارہ کی بدولت دستیاب برکات کی مَعمُوری تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت دے گی۔
صدر نیلسن نے سِکھایا کہ ”سچّی توبہ اِس اِیمان کے ساتھ شروع ہوتی ہے کہ یِسُوع مسِیح ہمیں پاک کرنے، شِفا دینے اور مضبُوطی بخشنے میں قادِر ہے۔ … یہ ہمارا اِیمان ہے جو ہماری زِندگیوں میں خُدا کی قُدرت کو کھولتا ہے۔“۱۴
سوّم، اپنے فضل کے وسیلے سے وہ کمزور چیزوں کو مضبوط بنا سکتا ہے۔ اگر ہم خُود کو فروتن بنائیں اور یِسُوع مسِیح پر اِیمان رکھیں، تو اُس کا فضل ہمیں تبدیل ہونے کے قابل بنائے گا۔ بااِلفاظ دیگر، وہ ہمیں تبدیل ہونے کا اِختیار بخشتا ہے۔ ایسا اُس کے قول کے موافق، ممکن ہے کہ، ”میرا فضل تمام اِنسانوں کے لیے کافی ہے۔“۱۵ جب ہم تبدیل ہونے کے خواہاں ہوتے ہیں تو اُس کا مضبوط، قوت بخش فضل ہمیں تمام رکاوٹوں، تمام چنوتیوں، اور تمام کمزوریوں پر غالب آنے کی قُدرت بخشتا ہے۔
ہماری سب سے بڑی کمزوریاں ہماری عظیم ترین طاقتیں بن سکتی ہیں۔ ہم تبدیل ہو سکتے اور ”نئی مخلوق“ بن سکتے ہیں۔۱۶ کمزور چیزیں واقعی ”[ہمارے] لیے مضبوطی میں بدل“ سکتی ہیں۔۱۷
نجات دہندہ نے اپنا لامحدود اور اَبَدی کفّارہ ترتیب دیا تاکہ ہم حقیقت میں بدل سکیں، توبہ کر سکیں اور بہتر بن سکیں۔ درحقیقت ہم نئے سرے سے پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہم عادات، علتوں، اور حتیٰ کہ ”برائی کرنے کی خواہش“ پر بھی غالب آ سکتے ہیں۔۱۸ پیارے آسمانی باپ کے بیٹے اور بیٹیوں کی حیثیت سے، ہمارے اندر تبدیل ہونے کی قُدرت پائی جاتی ہے۔
تبدیلی کی مثالیں
صحائف تبدیل ہونے والے مردوں اور عورتوں کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں۔
ساؤل، ایک فریسی اور ابتدائی مسِیحی کلِیسیا کا سرگرم ظلم ڈھانے والا،۱۹ پولُس، خُداوند یِسُوع مسِیح کا رسُول بن گیا۔
ایلما بدکار نوح بادشاہ کے دربار میں کاہن تھا۔ اُس نے ابینادی کا کلام سُنا، مکمل طور پر توبہ کی، اور مورمن کی کتاب کے عظیم مبلغین میں سے ایک بن گیا۔
اُس کے بیٹے ایلما نے اپنی جوانی کلِیسیا کو تباہ کرنے کی کوشش میں گُزاری۔ اُس کا شمار”نہایت مکروہ گُناہ گاروں“۲۰ میں ہوتا تھا جب تک کہ اُس کا دِل نہ بدلا اور وہ اپنی کوششوں سے ایک قوی مشنری بن گیا۔
موسیٰ کو فرعون کے خاندان میں گود لیا گیا اور ایک مصری شہزادے کے طور پر اُس نے عیش و عشرت میں پرورش پائی۔ لیکن جب وہ سمجھ گیا کہ وہ اصل میں کون ہے اور اپنی الہٰی تقدیر کے بارے میں جان گیا، تو وہ بدل گیا اور عہد عتیق کا عظیم شَرِیعت دینے والا نبی بن گیا۔۲۱
میری اہلیہ کے دادا، جیمز بی کیسر، نے ہمیشہ اپنے دِل کی بڑی تبدیلی سے مُجھے متاثر کیا ہے۔۲۲ وہ ۱۹۰۶ میں سالٹ لیک وادی میں وفادار مُقدّسینِ آخِری ایّام کے پیش روؤں سے پیدا ہوئے، اُنھوں نے چھوٹی عمر میں اپنی ماں کو کھو دیا اور اپنی جوانی کے دوران جدوجہد کی۔ اُن کی نوعمری اور بالغ نوجوانی کے سال کلِیسیا سے دور گُزرے تھے؛ جس کے دوران اُنھوں نے بہت سی بُری عادتیں اپنا لی تھیں۔ اِس کے باوجود، اُنھوں نے ایک وفادار خاتون سے ملاقات کی اور شادی کی اور دونوں نے مل کر پانچ بچّوں کی پرورش کی۔
۱۹۴۳ میں، عظیم معاشی پستی کے مشکل سالوں کے بعد اور دُوسری جنگِ عظیم کے دوران، بڈ، جیسا کہ دوست اور خاندان والے اُنھیں بُلایا کرتے تھے، روزگار کی تلاش میں یوٹاہ چھوڑ کر لاس اینجلس، کیلیفورنیا، چلے گئے۔ اُس وقت گھر سے دور، وہ اپنی بہن اور اُس کے شوہر کے ساتھ رہائش پذیر ہوئے، جو اپنے حلقے کے اُسقف کے طور پر خدمت کر رہا تھا۔
اپنی بہن اور بہنوئی کی مُحبّت اور اثر کی بدولت، اُنھوں نے کلِیسیا میں اپنی دلچسپی کی تجدید کی اور ہر رات سونے سے پہلے مورمن کی کتاب پڑھنا شروع کر دی۔
ایک رات، ایلما باب ۳۴ کو پڑھتے ہوئے، درج ذیل اِلفاظ نے اُن کے دِل کو چھو لیا:
”ہاں، مَیں چاہتا ہوں کہ تُم آؤ اور اپنے دِلوں کو اور سخت نہ کرو۔ …
”کیوں کہ دیکھو، یہ زِندگی اِنسان کے لیے خُدا سے ملاقات کی تیاری کا وقت ہے؛ ہاں، دیکھو اِس زِندگی کا وقت اِنسان کے لیے اپنی محنت کرنے کا وقت ہے۔“۲۳
اِن آیات کو پڑھتے ہوئے، اُن پر ایک قوی احساس چھا گیا اور وہ جانتے تھے کہ اُنھیں تبدیل ہونا، توبہ کرنی، اور لازمی طور پر کیا کرنا ہے۔ وہ اپنے بستر سے اُٹھے اور گھٹنے ٹیک کر، خُداوند سے یہ التجا کرتے ہوئے دُعا کرنے لگے کہ وہ اُسے معاف کر دے اور اپنی زِندگی میں تبدیلی لانے کی اُنھیں قُدرت بخشے۔ اُن کی دعا قبول ہوئی، اور اُس وقت سے، اُنھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ بڈ نے اپنی زِندگی کے آخِر تک ایک وفادار، پُرعزم مُقدّسینِ آخِری ایّام کے طور پر کلِیسیا میں خدمت کی۔ وہ ہر طرح سے تبدیل ہو گئے تھے۔ اُن کا ذہن، اُن کا دِل، اُن کے اعمال، اُن کی ہستی بدل گئی تھی۔
بھائیو اور بہنو، ہمارا الہٰی مقدر اور مقصد آخِر کار ہمارے آسمانی باپ اور نجات دہندہ یِسُوع مسِیح کی مانند بننا ہے۔ ہم ایسا تبدیل ہونے یا توبہ کرنے کے باعث کرتے ہیں۔ ہم ”[اپنی] صورت پر [نجات دہندہ کی] شبیہ پاتے ہیں۔“۲۴ ہم نئے، پاک، مختلف بن جاتے ہیں، اور ہم اِس امر میں ہر روز مشغول رہتے ہیں۔ بعض اوقات یہ سفر دو قدم آگے اور ایک قدم پیچھے کی مانند محسوس ہوسکتا ہے، مگر ہم اِیمان کے ساتھ فروتنی سے آگے بڑھنا جاری رکھتے ہیں۔
اور جب ہم خُود کو فروتن کرتے اور یِسُوع مسِیح پر اِیمان کی مشق کرتے ہیں، تو مسِیح کا فضل اور اُس کی لامحدود کفّارہ بخش قربانی ہماری تبدیلی کو ممکن بناتی ہے۔
میں شہادت اور گُواہی دیتا ہوں کہ یِسُوع مسِیح حقیقت میں ہمارا نجات دہندہ اور مُخلصی دینے والا ہے۔ اُس کا فضل واقعی کافی ہے۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ وہا،” راہ اور حق اور زندگیہے۔“25 یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔