ایّامِ آخِر میں نڈر شاگِردی
آئیے ہم پُراعتماد رہیں، معذرت خواہ نہیں، نڈر ہوں، ڈرپوک نہیں، وفادار رہیں، خوف ز دہ نہیں کیوں کہ ہم اِن آخِری ایّام میں خُداوند کے نُور کو تھامے ہُوئے ہیں۔
اَخلاقی اِرادہ اپنے ہر بچّے کے واسطے خُدا کی بڑی قِیمتی نعمت ہے۔۱ ہم ”کُل بنی نوع اِنسان کے عظیم ثالث کے وسِیلے سے وہ آزادی اور اَبَدی زندزِندگی چُننے، یا اِبلیس کی اسِیری اور اِختیار کے لحاظ سے غلامی اور موت چُننے میں خُود مُختار ہیں۔“۲ خُدا ہمیں نیکی کرنے پر مجبُور نہیں کرے گا، اور شَیطان ہمیں بدی کرنے پر مجبُور نہیں کر سکتا۔۳ اگرچہ بعض لوگ سوچ سکتے ہیں کہ فانی زِندگی خُدا اور بدی کی قُوت کے درمیان میں مُقابلہ ہے, نَجات دہندہ نے ایک لفظ فرمایا ”اور شَیطان خاموش کر دیا جاتا اور دُھتکار دیا جاتا ہے۔ … یہ خُدا کی نہیں، بلکہ [ہماری] ہمت کا اِمتحان لِیا جا رہا ہوتا ہے۔“۴
آخِرت کے وقت ہم وہی کاٹیں گے جو ہمارے زِندگی بھر کے فیصلوں نے بویا ہے۔۵ پَس نجات دہندہ، اُس کے برگُزِیدہ خادِموں، اور اُس کی بحال شُدہ کلِیسیا کے حوالے سے ہماری نِیّتوں، تمناؤں، باتوں، اور کاموں کا کُل مجمُوعہ ہماری محبّت کی بابت کیا کہتا ہے؟ کیا ہمارے بپتِسمائی، کہانتی، اور ہَیکل کے عہُود ہمارے لِیے دُنیا کی ستایش یا سوشل مِیڈیا پر ”لائکس“ کی تعداد سے زیادہ بامعنی ہیں؟ کیا خُداوند اور اُس کے حُکموں کے لیے ہماری محبّت اِس زِندگی میں کسی بھی چِیز یا کسی اور کے لیے ہماری محبّت سے بُہت زیادہ پُختہ ہے؟
دُشمن اور اُس کے کارِندوں نے ہمیشہ مسِیح اور اُس کے نبیوں کے کاموں کو تباہ و برباد کرنا چاہا ہے۔ نجات دہندہ کے حُکموں کو، آج کی دُنیا میں اگر یکسر نظر انداز نہیں کِیا گیا، تو بھی بُہت سے لوگوں نے اِن کو بے معنی ضرُور بنا دیا ہے۔ خُدا کے رسُول جو ”تکلِیف دہ“ سچّائیاں سِکھاتے ہیں اَکثر مُسترد کر دیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ خُود نجات دہندہ کو ”کھاؤ اور شرابی آدمی“ کہا گیا،۶ عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور تفرقہ پھیلانے کا اِلزام لگایا گیا۔ ڈرپوک اور سازِشی ٹولے نے ”مشورَہ کِیا کہ اُسے کیسے باتوں میں پھنسائیں،“۷ اور اُس کے اِبتدائی مسِیحیوں کے ”ِفرقہ“ کی بابت ”… ہر جگہ اِس کے خِلاف کہا گیا۔“۸
نجات دہندہ اور اُس کے اِبتدائی شاگِردوں نے شدِید اندرونی اور بیرونی مُخالفت کا سامنا کیا، اور ہم بھی ایسا ہی سلُوک کا تجربہ کرتے ہیں۔ آج دُنیاوی طعنوں کی چند حقیقی اور مجازی اُنگلیوں کو اپنی طرف متوجہ کیے بغیر دلیری کے ساتھ اپنے اِیمان کے مُطابق زِندگی گُزارنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ پُراعتماد طریقے کے ساتھ نجات دہندہ کی تقلید کرنا نفع بخش ہے، لیکن بعض اوقات ہم ”کھاؤ، پِیو، اور عیش کرو“۹ کے فلسفے کی وکالت کرنے والوں کے شکنجے میں پھنس سکتے ہیں، جہاں مسِیح پر اِیمان، فرمان برداری، اور توبہ کی جگہ یہ فریب لے لیتا ہے کہ خُدا چھوٹے گُناہ درگُزر کرے گا کیوں کہ وہ ہم سے بہت پیار کرتا ہے۔
فرمایا ”چاہے [اُس کی] اپنی آواز سے یا [اُس کے] خادِموں کی آواز سے،“۱۰ کیا نجات دہندہ نے ہمارے ایّام کی بابت نہیں کہا کہ ” اَیسا وقت آئے گا کہ لوگ صحِیح تعلِیم کی برداشت نہ کریں گے؛ بلکہ اپنی اپنی خواہِشوں کے مُوافِق بُہت سے اُستاد بنا لیں گے“ اور بہت سارے ”اپنے کانوں کو حق کی طرف سے پھیر کر کہانِیوں پر مُتوجِّہ ہوں گے“؟۱۱ کیا اُس نے اِس بات پر اَفسوس نہیں کِیا کہ ”یہ بے فائِدہ میری پرستِش کرتے ہیں، کیوں کہ اِنسانی احکام کے عقائد کی تعلِیم دیتے ہیں“؟۱۲ کیا اُس نے خبردار نہیں کِیا کہ ”خُود تُم میں سے اَیسے آدمی اُٹھیں گے جو اُلٹی اُلٹی باتیں کہیں گے، تاکہ شاگِردوں کو اپنی طرف کھینچ لیں“؟۱۳ کیا اُس نے پہلے سے نہیں دیکھا تھا کہ ”بدی کو نیکی اور نیکی کو بدی [کہا جائے گا]،“۱۴ اور یہ کہ ” آدمی کے دُشمن اُس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے،“؟۱۵
تو ہمارا کیا ہوگا؟ کیا ہمیں ڈرنا یا خَوف کھانا چاہیے؟ کیا ہمیں اپنے مذہب کے خول کی تہہ میں پڑے رہنا ہے؟ یقیناً نہیں! مسِیح پر اِیمان کے ساتھ، ہمیں اِنسان کی ملامت سے ڈرنے یا اُن کی بدزبانی سے گھبرانے کی ضرُورت نہیں۔۱۶ جب نجات دہندہ سر پر ہے اور زِندہ نبی ہماری ہدایت اور راہ نُمائی فرماتے ہیں، ”تو کَون ہمارا مُخالِف ہے“؟۱۷ آئیے ہم پُراعتماد رہیں، معذرت خواہ نہیں، نڈر ہوں، ڈرپوک نہیں، وفادار رہیں، خوف ز دہ نہیں کیوں کہ ہم اِن آخِری ایّام میں خُداوند کے نُور کو تھامے ہُوئے ہیں۔۱۸
نجات دہندہ نے صاف صاف فرمایا کہ ”پس جو کوئی آدمِیوں کے سامنے میرا اِقرار کرے گا مَیں بھی اپنے باپ کے سامنے … اُس کا اِقرار کرُوں گا۔ مگر جو کوئی آدمِیوں کے سامنے میرا اِنکار کرے گا مَیں بھی اپنے باپ کے سامنے … اُس کا اِنکار کرُوں گا۔“۱۹
نتیجتاً، جب کہ بعض لوگ اَیسے خُدا کو ترجیح دیتے ہیں جو بغیر احکام کے آتا ہے، آئیے ہم بڑی دلیری سے، بُزرگ ڈی ٹاڈ کرسٹوفرسن کے کلمات میں گواہی دیتے ہیں، کہ ”خُدا جو کوئی تقاضا نہیں کرتا ہے وہ عملی طور پر اَیسا خُدا ہے جِس کا وجُود ہی نہیں ہے۔“۲۰
جب کہ بعض اپنے پسندیدہ حُکموں کی تقلید کریں گے،آئیے ہم نجات دہندہ کی دعوت کو خُوشی سے قبُول کریں تاکہ ”ہر اُس بات سے جو خُدا کے مُنہ سے نِکلتی ہے جِیتے رہیں۔“۲۱
جب کہ بُہت سے لوگ مانتے ہیں کہ خُداوند اور اُس کی کلِیسیا درگُزر کرتے رہتے ہیں ”جو کُچھ [ہمارا] دِل چاہتا ہے کریں،“۲۲ آئیے ہم دلیری سے اعلان کریں کہ ”بُرائی کرنے کے لِیے کِسی بِھیڑ کی پَیروی“ کرنا غلط ہے،۲۳ کیوں کہ ”جِس بات کو خُدا نے غلط قرار دیا ہے بھِیڑ اُس کو دُرست نہیں کر سکتی۔“۲۴
”یاد رکھ، یاد رکھ … خُدا کے حُکم کِتنے سخت ہیں [پھر بھی مُخلصی بخش]۔“۲۵ اِنھیں واضح طور پر سِکھانا بعض اوقات عدم برداشت کے عمل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پَس آئیے ہم احترام کے ساتھ یہ عملی طور پر اِظہار کریں کہ خُدا کی اَولاد سے پیار کرنا نہ صرف اَمکانی ہے بلکہ ضرُوری ہے جو ہمارے اپنے سے مُختلف عقائد کو اپناتا ہے۔
ہم دُوسروں کا احترام کر سکتے اور خُوش آمدید کہہ سکتے ہیں اُن کے اُن عقائد یا اعمال کی توثیق کِیے بغیر جو خُدا کی منشا کے مُتضاد ہیں۔ سمجھوتے اور سماجی پسندیدگی کی قُربان گاہ پر سچّائی کو قُربان کرنے کی ضرُورت نہیں ہے۔
صِیُّون اور بابل مُتضاد ہیں۔ ”کوئی آدمی دو مالِکوں کی خِدمت نہیں کر سکتا۔“۲۶ آئیے ہم سب نجات دہندہ کے تُندوتیز سوال کو یاد رکھیں، ”جب تُم میرے کہنے پر عمل نہیں کرتے تو کیوں مُجھے خُداوند خُداوند کہتے ہو؟“۲۷
آئیے ہم پُورے دِل سے، بےلوث فرمان برداری کے ذریعے سے خُداوند کے لیے اپنی محبت کا عملی مُظاہرہ کریں۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ اپنی شاگِردی اور دُنیا کے درمیان پھنس گئے ہیں، تو براہِ کرم یاد رکھیں کہ آپ کا پیارا نجات دہندہ ”دعوت نامہ بھیجتا ہے … ، پَس رحم کے بازو [آپ کی طرف] بڑھائے گئے ہیں، اور وہ کہتا ہے: توبہ کرو، اور مَیں تُمھیں قبُول کرُوں گا۔“۲۸
صدر نیلسن نے سِکھایا کہ ”یِسُوع مسِیح، اب سے لے کر اپنی دُوسری آمد کے دوران میں بڑے بڑے عظیم اُلقدر کام انجام دے گا۔“۲۹ بلکہ اُس نے یہ بھی سِکھایا کہ ”جو لوگ خُداوند کی راہ کو چُنتے ہیں وہ غالباً اذیت کو برداشت کریں گے۔“۳۰ ”اُس کے نام کی خاطِر بے عِزّت ہونے کے لائِق“۳۱ ٹھہرنا بیک وقت ہماری خُوش نصِیبی ہے جب ہم ”اُس کی آواز کو کسی دُوسرے پر ترجیح دیتے ہیں۔“۳۲
”مُبارک وہ ہے،“ نجات دہندہ نے فرمایا، ”جو میرے سبب سے ٹھوکر نہ کھائے۔“۳۳ ایک اور جگہ ہم سِیکھتے ہیں کہ ”تیری شرِیعت سے محبّت رکھنے والے مُطمئن ہیں: اُن کے لِیے ٹھوکر کھانے کا کوئی مَوقع نہیں۔“۳۴ کُچھ نہیں! تو آئیے اپنے آپ سے پُوچھیں،”کیا مَیں کُچھ عرضے برداشت کر رہا ہُوں لیکن جب کلام کے سبب سے مُصِیبت یا اذیت مُجھ پر آ پڑتی، تو کیا مَیں رفتہ رفتہ ٹھوکر کھاتا ہُوں؟۳۵ کیا مَیں یسُوع مسِیح اور اُس کے خادموں کی چٹان پر مضبُوطی سے تعمیر کِیا گیا ہُوں؟“
اَخلاقی اضافیت پسند اِس بات کی وکالت کرتے ہیں کہ سچّائی صرف سماجی تصُّورہ ہے، اِس لیِے اَخلاقی مُطلق کے وجُودات نہیں ہیں جو وہ حقِیقت کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ کوئی گُناہ نہیں ہے،۳۶ کہ ”اِنسان جو کُچھ بھی [کرتا ہے] جُرم نہیں،“۳۷ ایسا فلسفہ جس کے لیے دُشمن فخریہ تصنیف کا دعویٰ کر رہا ہے! پَس آئیے ہم بھیڑوں کے لِباس میں بھیڑیوں سے ہوشیار رہیں، جو ہمیشہ بھرتی کرتے رہتے ہیں اور ”اکثر اپنے فکری تحفظات کو [اپنے] طرزِ عمل کی خامیوں کو چُھپانے کے لیے [اِستعمال] کرتے ہیں۔“۳۸
اگر ہم واقعی مسِیح کے دلیر شاگِرد بننا چاہتے ہیں، تو ہمیں کوئی راستہ نِکل آئے گا۔ بصُورتِ دیگر، دُشمن دِل کش مُتبادل پیش کرتا ہے۔ بلکہ اِیمان دار شاگِردوں کی حیثیت سے، ”ہمیں اپنے اعتقادات کے لیے مُعذرت کرنے کی ضرُورت نہیں ہے اور نہ ہی اِس سے پیچھے ہٹنے کی ضرُورت ہے جِس کو ہم سچّ جانتے ہیں۔“۳۹
آخِر میں، میرے پیچھے بیٹھے ہُوئے خُدا کے ۱۵ بندوں کے بارے میں ایک بات۔ جب کہ دُنیاوی لوگ ”جو غَیب بِینوں سے کہتے ہیں غَیب بِینی نہ کرو اور نبِیوں سے کہ ہم پر سچّی نُبُوّتیں ظاہِر نہ کرو،“۴۰ جو اِیمان دار ہیں اُنھیں ”عالمِ بالا سے رحمتوں کا تاج بھی پہنایا جائے گا، ہاں اور تھوڑے حُکموں کے ساتھ نہیں، اور اپنے وقت پر مُکاشفوں کے ساتھ۔“۴۱
تعجب کی بات نہیں، یہ مرد اکثر اُن لوگوں کے لیے عصائے برق بن جاتے ہیں جو خُدا کے کلام سے ناخوش ہیں جب نبی اِس کا اعلان کرتے ہیں۔ وہ جو نبیوں کو رد کرتے ہیں یہ نہیں سمجھتے کہ ”کِتابِ مُقدّس کی کِسی نبُوّت کی بات کی تاوِیل کِسی کے ذاتی اِختیار پر مَوقُوف نہیں“ یا کسی اِنسان کی مرضی کا نتِیجہ ہے، ”بلکہ خُدا کے [وہ] پاک بندے رُوحُ القُدس کی تحرِیک کے سبب سے [اب کلام] کرتے [ہیں]۔“۴۲
پولُس کی مانِند، خُدا کے یہ بندے ”ہمارے خُداوند کی گواہی دینے سے … شرمِندہ نہیں ہوتے“ اور اُس کے ”قَیدی [ہیں]“۴۳ اِس لحاظ سے کہ جو تعلیم وہ سِکھاتے ہیں وہ اُن کی نہیں بلکہ اُس کی ہے جس نے اُنھیں بُلایا ہے۔ پطرس کی مانِند، اُن کے لِیے ”مُمکِن نہیں کہ جو [اُنھوں] نے دیکھا اور سُنا ہے وہ نہ کہیں۔“۴۴ مَیں گواہی دیتا ہُوں کہ صدارتِ اَوّل اور بارہ کی جماعت نیک اور دیانت دار مرد ہیں جو خُدا اور اُس کے بچّوں سے محبت کرتے ہیں اور جن سے وہ پیار کرتا ہے۔ اُن کا کلام ہمیں ایسے قبُول کرنا چاہیے جَیسے وہ خُداوند کےاپنے مُنہ سے نِکلا ہے، ”پُورے صبر اور اِیمان کے ساتھ۔ پَس اِن باتوں پر عمل کرنے سے جہنم کے دروازے [ہم] پر غالِب نہ آئیں گے؛ … اور خُداوند خُدا تارِیکی کی طاقتوں کو [ہمارے] سامنے سے پراگندہ کرے گا۔“۴۵
”کوئی بھی ناپاک ہاتھ اِس کارِ اِلہٰی کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتا“؛۴۶ یہ آپ کے ہم راہ یا میرے یا آپ کے بغیر فتح مندی کے ساتھ آگے بڑھے گا، لہذا ”آج ہی تُم اُسے جِس کی پرستِش کرو گے چُن لو۔“۴۷ اُس بڑی اور وسیع و عریض عِمارت سے نِکلنے والی اُونچی اُونچی مخالف آوازوں سے فریب نہ کھانا یا خوف زدہ نہ ہونا۔ شِکستہ دِلوں اور پشیمان رُوحوں پر ہلکی، مدھم سرگوشی کی پُرسکون تاثِیر کے سامنے اُن کے مایُوس کُن شور کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
مَیں گواہی دیتا ہُوں کہ مسِیح زِندہ ہے، کہ وہ ہمارا نجات دہندہ اور مُخلصی دینے والا ہے، اور کہ وہ صدارتِ اَوّل اور بارہ رسُولوں کی جماعت کے وسِیلے سے اپنی کلِیسیا کی راہ نمائی فرماتا ہے، اِس طرح یہ یقین دِلاتا ہے کہ ہم ”ہر ایک تعلِیم کے جھوکے سے مَوجوں کی طرح اُچھلتے بہتے نہ پِھریں۔“۴۸
صدر نیلسن نے سِکھایا، ”یِسُوع مسِیح کے سچّے شاگِرد چاہتے ہیں کہ باہر نِکلیں، گواہی دیں اور دُنیا کے لوگوں سے الگ تھلگ نظر آئیں۔ وہ بے باک، وفادار اور دلیر ہیں۔“۴۹
بھائیو اور بہنو، نیک بننے کے لیے یہ مُناسب دِن ہے۱ یِسُوع مسِیح کے مُقدّس نام پر، آمین۔