مسِیح اور اُس کی اِنجِیل کی فَرطِ حیرت میں
کاش جو کچھ ہماری آنکھوں نے دیکھا ہے، اور ہمارے دِلوں نے محسوس کیا ہے اُس کی یاد نجات دہندہ کی کفّارہ بخش قربانی پر ہمارے تعجب کو بڑھا دے۔
میرا ایک پیارا دوست ہے جو غیر معمولی طور پر ذہین، ریٹائرڈ یونیورسٹی کا پروفیسر، ایک مفصل مصنف، اور سب سے بڑھ کر، یِسُوع مسِیح کا ایک پُرعزم شاگرد ہے۔ وہ کانفرنسوں میں شرکت، تعلیمی تحقیق اور سیاحوں کی قیادت کرنے کے واسطے درجنوں بار مُقدّس سرزمین کا سفر کر چکا ہے۔ اُس کے مطابق، ہر بار جب وہ اُس سرزمین پر جاتا ہے جہاں یِسُوع کبھی خُود چلا تھا، تو وہ تعجب کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ وہ بلاشبہ مُنجّی، اُس کی فانی خدمت، اور اُس کے پیارے وطن کے بارے میں کچھ نئی، ولولہ انگیز، اور دلچسپ بات سیکھتا ہے۔ جب میرا دوست مُقدّس سرزمین میں حاصل کردہ علم کے بارے بات کرتا ہے تو اُس کے متحیر تاثرات دُوسرے لوگوں کو لپیٹ میں لے لیتے ہیں؛ اور یہ کرامات زِندگی میں اُس کی عظیم کامیابیوں اور تعلیمی جستجو کا بنیادی عنصر رہی ہیں۔
جب مَیں نے اُس کے تجربات کو سُنا اور اُس کے بے تحاشا جوش کو محسوس کیا، تو مَیں نے اِس امر پر دھیان لگایا ہے کہ،یِسُوع مسِیح کی اِنجِیل اور ہماری شاگردیت اور بالآخر ابدی زِندگی کے سفر میں جو فرق یہ پیدا کر سکتی ہے اُس بارے میں ہم کتنے زیادہ رُوحانی احساسِ حیرت کے حامل ہو سکتے ہیں اور ہمیں کتنا اِسے محسوس کرنا چاہیے۔ جس تعجب کا میں حوالہ دیتا ہوں وہ جذبات، تعظیم، یا حیرانی کا احساس اُن سب کے لیے مشترک ہے پورے دِل سے اپنی زِندگیوں کو نجات دہندہ اور اُس کی تعلیمات پر مرکوز کرتے ہیں اور جو فروتنی سے اپنی زِندگیوں میں اُس کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں۔ ایسا احساسِ حیرت، رُوحُ القُدس کے اثر سے اِلہام پا کر، خُوشی سے مسِیح کے عقیدے کے مُوافِق جینے کے جوش و ولولے کو تحریک بخشتا ہے۔۱
اِس احساس کے ظہُور کی صحائف میں کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، یسعیاہ نبی نے اُس میں مسرور ہو کر خُداوند کے لیے اپنے تشکر کی گہرائی کا اِظہار کیا۔۲ جنھوں نے یِسُوع کو کفرنحُوم کے عِبادت خانہ میں مُنادی کرتے سُنا تھا وہ اُس کے عقیدے اور اُس اِختیار سے حَیران ہُوئے جس سے وہ اُنھیں تعلیم دیتا تھا۔۳ یہ وہی احساس تھا جس نے نوجوان جوزف سمتھ کے دِل کے ہر ریشے میں سرایت کی جب اُس نے بائبل میں یعقُوب کا پہلا باب پڑھا، جس کی بدولت اُس نے خُدا کی حکمت کی جستجو کرنے کی راہ نمائی پائی تھی۔۴
میرے بھائیو اور بہنو، جب ہم دِلی طور پر یِسُوع مسِیح اور اُس کی اِنجِیل کی فرطِ حیرت میں مبتلا ہوتے ہیں تو، ہم زیادہ مسرور ہوتے ہیں، ہم کارِ خُداوندی کے لیے بے تحاشا جوش کے حامل ہو جاتے ہیں، اور ہم تمام چیزوں میں خُداوند کے ہاتھ کا اعتراف کرتے ہیں۔ مزید براں، خُدا کے کلام کا ہمارا مُطالعہ زیادہ معنی خیز؛ ہماری دُعائیں،مزید بامقصد؛ ہماری پرستش، زیادہ قابلِ احترام؛ خُدا کی بادشاہی میں ہماری خدمت، مزید مستعد ہو جاتی ہے۔ یہ تمام اعمال رُوحُ القُدس کو ہماری زندگیوں میں زیادہ کثرت سے اثر انداز ہونے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔۵ پَس، نجات دہندہ اور اُس کی اِنجِیل کے بارے میں ہماری گُواہی مضبوط ہو گی، ہم مسِیح کو اپنے اندر زِندہ رکھیں گے،۶ اور ”اُس میں جڑ پکڑتے اور تعمِیر ہوتے اور اِیمان میں مضبُوط رہتے، … خُوب شُکر گُزاری“۷ کرتے ہوئے ہم اپنی زِندگیاں گُزاریں گے۔ جب ہم اِس طریقے سے زِندگی گُزارتے ہیں، تو ہم مزید رُوحانی لچک پاتے ہیں اور رُوحانی لا تعلقی کے جال میں گرنے سے محفوظ رہتے ہیں۔
ایسی لا تعلقی خُداوند کی اِنجِیل میں مکمل طور پر مشغول ہونے کے ہمارے جوش و جذبے کی بتدریج کمی کی وجہ سے رُونما ہوتی ہے۔ عموما اس کا آغاز تب ہوتا ہے جب ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم اس زندگی میں اپنی خوشی کے لیے پہلے ہی سے تمام ضروری علم اور برکات پا چکے ہیں۔ ایسا بھی کہہ سکتے ہیں کہ، یہ غیر ناقدانہ اِطمینان، ہمیں اِنجِیلی تحائف کو معمولی سمجھنے پر مجبور کرتا ہے، اور بعد ازاں، ہم یِسُوع مسِیح کی اِنجِیل کے لابدی عناصر میں غوطہ زن ہونے۸ اور اُس کے ساتھ باندھے گئے عہُود دونوں کو نظر انداز کرنے کا خطرہ مول لیتے ہیں۔ نتیجتاً، ہم بتدریج خُود کو خُداوند سے دور کر لیتے ہیں؛ ”اِس کی سُنو“۹ کی صلاحیت کو کمزور کرتے اور اُس کے کام کی عظمت کو ادنیٰ تصوّر کرتے ہوئے بے حس ہو جاتے ہیں۔ پہلے سے حاصل کردہ سچّائیوں کے بارے میں شک ہمارے دِل و دماغ میں داخل ہو سکتا ہے، جس کے باعث ہم دشمن کی آزمائشوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔۱۰
پاسٹر ایڈن وِلسن ٹوزر، ایک نامور مصنف اور دلیر مسِیحی، نے تحریر کیا، ”غیر ناقدانہ اِطمینان کُل رُوحانی ترقی کا سخت ضرر رساں دشمن ہے۔“ ۱۱ مسیح کی پیدائش کے تھوڑی دیر بعد نیفی کے لوگوں کے ساتھ ایسا بالکل نہیں ہوا تھا ؟ وہ ”آسمان کے نشان اور عجائب پر کم حیراں ہونے لگے، … [اُس کا انکار کرتے ہوئے] جو کچھ اُنھوں نے سُنا اور دیکھا تھا۔“ یوں شیطان نے ”اُن کی آنکھوں کو اندھا اور اُنھیں گمراہ کر دیا کہ مسِیح کی تعلیم احمقانہ ہے اور بیفائدہ چیز ہے۔“۱۲
بھائیو اور بہنو، اپنی کامل اور لامحدود مُحبّت میں اور ہماری انسانی فطرت کو جانتے ہوئے،۱۳ مُنجّی نے رُوحانی لا تعلقی کے جال میں گرنے سے بچنے کے لیے ہمارے واسطے راہ تیار کی ہے۔ مُنجّی کی دعوت ہمیں ایک وسیع تر تناظر فراہم کرتی ہے، بلحاظ اِس پیچیدہ دُنیا کے جس میں ہم رہتے ہیں: ”مُجھ سے سیکھ، اور میری باتیں سُن، میرے رُوح کی فروتنی میں چل، اور تُو مُجھ مَیں تسلّی پائے گا۔“۱۴ جب ہم نجات دہندہ کی اِس دعوت کو قبول کرتے ہیں، تو ہم اپنی فروتنی، اصلاح پذیری کی خواہش، اور مزید اُس کی مانند بننے کی اُمید کا مظاہرہ کرتے ہیں۔۱۵ اِس دعوت میں ”[اپنے] سارے دِل، جان، عقل، اور طاقت سے“ اُس کی خدمت کرنا اور خُدا کے بچّوں کی خدمت گُزاری کرنا شامل ہے۔۱۶ اِس سفر میں ہماری کاوشوں کا مرکز، یقیناً، دو عظیم احکام ہیں: خُداوند اپنے خُدا سے مُحبّت رکھنا اور اپنے پڑوسِی سے اپنے برابر مُحبّت رکھنا۔۱۷
اِس قسم کا رویہ یِسُوع کے الہٰی کردار کا حصّہ رہا ہے اور اپنی زمینی خدمت کے دوران جو کچھ بھی اُس نے کیا اُس میں فروتنی اور بھلائی ہمیشہ سے واضح تھیں۔۱۸ پَس، جب ہم دانستہ طور پر اور حقیقی معنوں میں اُس کی طرف نظر کرتے ہیں اور اُس کے کامل نمونہ سے سیکھتے ہیں،۱۹ تو ہم اُس کو بہتر طور پر جان پاتے ہیں۔ ہمارا جوش بڑھ جاتا ہے اور ہم اپنی زِندگیوں میں اُس حتمی معیار کو شامل کرنے کی خواہش کے حامل ہو جاتے ہیں جو کہ واضح کرتا ہے کہ ہمیں کِس طرح زِندگی گُزارنی چاہیے، ہمیں کِس قسم کی مثال قائم کرنی چاہیے، اور کِن احکام کی ہمیں پیروی کرنی چاہیے۔ ہم خُدا اور اپنے پڑوسیوں کے لیے اضافی فہم، حکمت، الہٰی کردار، اور فضل بھی پاتے ہیں۔۲۰ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ نجات دہندہ کے اثر اور مُحبّت کو اپنی زِندگیوں میں محسوس کرنے کی ہماری صلاحیت گہری ہوگی، ہمارے اِیمان کو بڑھائے گی، ہمیں راست اعمال کرنے کی خواہش بخشے گی، اور اُس کی اور دُوسروں کی خدمت کرنے کی ترغیب دے گی۔۲۱ اِس کے علاوہ، فانیت میں جن برکات اور چنوتیوں کا ہم تجربہ کرتے ہیں اُن کے لیے ہمارا تشکر مستحکم ہو جائے گا اور یہ ہماری حقیقی پرستش کا حصّہ بن جائے گا۔۲۲
میرے عزیز دوستو، یہ ساری چیزیں اِنجِیل کے بارے میں ہماری رُوحانی خواہش کو مضبوط بناتی ہیں اور ہمیں شادمانی سے خُداوند کے ساتھ باندھے گئے عہُود پر قائم رہنے کی تحریک بخشتی ہیں—حتیٰ کہ آزمائشوں اور چنوتیوں کے درمیان میں بھی جن کا ہم سامنا کرتے ہیں۔ بے شک، اِن نتائج کے وقوع پذیر ہونے کے لیے، ہمیں نجات دہندہ کی تعلیمات میں اِیمان اور حقیقی ارادے کے ساتھ اپنے آپ کو غرق کرنے،۲۳ اُس کی صفات کو اپنی ذات میں شامل کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔۲۴ اِس کے علاوہ، ہمیں اپنی توبہ کے ذریعے اُس کے قریب تر ہونے،۲۵ اپنی زِندگیوں میں اُس کی معافی اور اُس کی مخلصی کی قُدرت کے خواہاں ہونے، اور اُس کے احکام پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ خُداوند نے خُود وعدہ کیا ہے کہ اگر ہم اپنے سارے دِل سے اُس پر توکل کریں گے، اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچانیں گے اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کریں گے تو وہ ہماری راہ نمائی کرے گا۔۲۶
مَیں نے حال ہی میں ایک شخص سے ملاقات کی، جس کا نام ویس ہے اور آج جو مجلس عامہ میں شریکت کر رہا ہے، اُس نے مسِیح اور اُس کی اِنجِیل کے بارے میں جاننے کی دعوت قبول کی اور ۲۷ برس خُود کو عہد کی راہ سے دور رکھنے کے بعد اُس کی مُحبّت کے متحیر احساس کا تجربہ کرنا شروع کیا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ ایک روز فیس بُک کے ذریعے ایک مبلغ، ایلڈر جونز، نے اُس سے رابطہ کیا، جسے پاناما میں اپنے اصل تفویض کردہ تبلیغی مقام پر جانے سے قبل ویس کے علاقے میں وقتی طور پر تفویض کیا گیا تھا۔ اگرچہ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ ویس پہلے سے ہی کلِیسیا کا رُکن تھا، لیکن جب ایلڈر جونز نے اُس کی پروفائل کو دیکھا، تو اُس نے رُوحُ القُدس کی ہدایت کو محسوس کیا اور جانا کہ اُسے فوری طور پر ویس سے رابطہ کرنا چاہیے۔ اُس نے فوری طور پر اِس تحریک پر عمل کیا۔ ویس اِس غیر متوقع رابطے سے حیران تھا اور اُسے اِس بات کا ادراک ہوا کہ عہد کی راہ سے دوری کے باوجود بھی خُداوند اُس سے واقف تھا۔
تب سے، ویس اور مبلغین نے کثرت سے بات چیت کرنا شروع کی۔ ایلڈر جونز اور اُس کے ساتھی نے ہفتہ وار خدمت اور رُوحانی پیغامات پیش کیے جن سے ویس کو نجات دہندہ اور اُس کی اِنجیل کے بارے میں اپنے فَرطِ حیرت کو بحال کرنے میں مدد حاصل ہوئی۔ اِس کی بدولت ویس کو سچائی اور اُس کے لیے نجات دہندہ کی مُحبّت کی گواہی کے شعلے کو دُوبارہ بھڑکانے میں مدد ملی۔ ویس نے اُس اِطمینان کو محسوس کیا جو مددگار کی طرف سے حاصل ہوتا ہے اور اُس نے وہ مضبوطی پائی جس کی اُسے گلّے میں واپس لوٹنے کے واسطے ضرورت تھی۔ اُس نے مجھے بتایا کہ اِس تجربے نے اُسے رُوحانی اور جذباتی طور پر دُوبارہ زِندگی بخشی اور مشکل تجربات کے نتیجے میں برسوں سے جمع ہونے والے تلخ جذبات کو ختم کرنے میں اُس کی مدد کی۔
جیسا کہ میرے مذکورہ بالا مفکر پروفیسر دوست نے مشاہدہ کیا ہے، یِسُوع مسِیح اور اُس کی اِنجِیل کے بارے میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ حیرت انگیز اور دلچسپ سیکھنے کو ملتا ہے۔۲۷ خُداوند نے، بشمول ہمارے، اُن تمام لوگوں کے ساتھ شاندار وعدے کیے ہیں جو اُس سے سیکھنا چاہتے ہیں اور اُس کے کلام کو اپنی زِندگیوں میں شامل کرنے کے خواہاں ہیں۔ حنوک سے، اُس نے کہا، ”دیکھ، میرا رُوح تیرے ساتھ [ہوگا]، پَس مَیں تیری ساری باتوں کو واجب ٹھہراؤں گا؛ اور پہاڑ تیرے سامنے سے بھاگیں گے، اور دریا اپنے راستے بدلیں گے؛ اور تُو مُجھ میں بسے گا اور مَیں تُجھ میں۔“۲۸ اپنے خادم بنیامین بادشاہ کے ذریعے، اُس نے اعلان کیا، ”تُم مسِیح کے بچّے، اُس کے بیٹے، اور اُس کی بیٹیاں کہلاؤ گے؛ کیونکہ دیکھو، آج کے دن تُم رُوحانی طور پر اُس سے پیدا ہوئے ہو؛ چونکہ تُم کہتے ہو کہ اُس کے نام پر اِیمان کے سبب تمھارے دِل تبدیل ہوئے ہیں؛ سو، تُم اُس سے پیدا ہوئے ہو اور اُس کے بیٹے اور بیٹیاں بن گئے ہو۔“۲۹
پَس، جب ہم حقیقی طور پر اور مسلسل نجات دہندہ سے سیکھنے اور اُس کی مثال کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو میں اُس کے نام پر، آپ سے وعدہ کرتا ہوں، کہ اُس کی الہٰی صفات ہمارے ذہنوں اور دِلوں میں لکھی جائیں گی،۳۰ کہ ہم مزید اُس کی مانند بنیں گے، اور یہ کہ ہم اُس کے ساتھ چلیں گے۔۳۱
میرے پیارے بھائیو اور بہنو، میں دُعاگو ہوں کہ ہم ہمیشہ یِسُوع مسِیح اور اُس کی مکمل، لامحدود، اور کامل مُحبّت کے فَرطِ حیرت میں مبتلا رہیں۔ کاش جو کچھ ہماری آنکھوں نے دیکھا ہے اور ہمارے دِلوں نے محسوس کیا ہے اُس کی یاد نجات دہندہ کی کفّارہ بخش قربانی پر ہمارے تعجب کو بڑھا دے، جو ہمارے رُوحانی اور جذباتی زخموں کو بھر سکتا ہے اور اُس کے قریب جانے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔ کاش ہم اُن عظیم وعدوں پر تعجب کریں جو باپ نے اپنے ہاتھوں میں رکھے ہیں اور جو اُس نے اِیمانداروں کے لیے تیار کیے ہیں:
”بادِشاہی تُمھاری ہے اور اُس کی برکتیں تُمھاری ہیں، اور اَبدیّت کے فضائل تُمھارے ہیں۔
”اور جو ساری باتیں شُکر گُزاری سے قَبُول کرتا ہے وہ پُرجلال بنایا جائے گا۔“۳۲
یِسُوع دُنیا کا مخلصی دینے والا ہے، اور یہ اُس کی کلِیسیا ہے۔ میں اِن سچائیوں کی گواہی ہمارے مُنجّی، یِسُوع مسِیح کے پُر جلال، مُقدّس، اور ارفع نام پر دیتا ہوں، آمین۔