مجلسِ عامہ
خُدا سے ہمارا رشتہ
مجلسِ عامہ اپریل ۲۰۲۲


خُدا سے ہمارا رشتہ

ہمارے فانی تجربے میں کیا شامل ہے اِس سے قطع نظر، ہم خدا پر بھروسہ کر سکتے ہیں اور اس میں خوشی پا سکتے ہیں۔

عہدِ عتیق میں ایوب کی مانند کچھ لوگ مصیبت کے وقت میں محسوس کر سکتے ہیں کہ خُدا نے اُنہیں ترک کر دیا ہے چونکہ ہم جانتے ہیں کہ خُداکسی بھی مصیبت کو روکنے یا ہٹانے کی قدرت رکھتا ہے، ہم شکایت کرنے کے لیے آزمائے جا سکتے ہیں جب وہ ایسا نہیں کرتا ہے، شاید سوال اٹھاتے ہوئے، ”اگر خُدا وہ مدد عنایت نہیں فرماتا جس کے لیے میں نے دُعا کی تھی، میں کیسے اُس پر ایمان لا سکتا / سکتی ہوں؟“ اپنی شدید تکالیف میں ایک موقع پر، راستباز ایوب نے کہا:

”تو جان لو کہ خُدا نے مجھے پست کِیا اور اپنے جال سے مجھے گھِر لیا ہے۔

”’میں ظلم ظلم پکارتا ہوں!‘ پر میری سُنی نہیں جاتی؛ میں مدد کے لیے دہائی دیتا ہوں، پر انصاف نہیں ہوتا۔“۱

جواب میں ایوب سے، خُدا تقاضا کرتاہے، ”کیا تُو مجھے مجرم ٹھہرائے گا، تاکہ خُود راست ٹھہرے؟“۲ با الفاظِ دیگر، ”کیا تُو میرے انصاف کو باطل ٹھہرائے گا؟ خُود کو راست ٹھہرانے کے لیے تُو مجھے ملزم قرار دے گا؟“۳ یہواہ زبردستی ایوب کو اپنی قادرِ مطلقیت اور صاحب علمیت کی یاد دِلاتا ہے،اور ایوب نے انتہائی عاجزی میں تسلیم کیا کہ وہ خُدا کے علم، قدرت، اور راستبازی کے قریب تر بھی نہیں ہے اور قادر مطلق کے فیصلے کی تاب نہیں لا سکتا:

”میں جانتا ہوں کہ تُو سب کچھ کر سکتا ہے،“اُس نے کہا، ”اور تیرا کوئی ارادہ رُک نہیں سکتا۔

”…میں نے جو نہ سمجھا وہی کہا، ایسی باتیں جو میرے لیے نہایت عجیب تھیں جن کو میں نہ جانتا تھا۔ …

”اس لیے، مجھے اپنے اپنے آپ سے نفرت ہے اور میں خاک اور راکھ میں توبہ کرتاہوں۔“۴

آخر میں ایوب کو خُدا کو دیکھنے کا استحقاق مِلا، اور ”خُداوند نے ایوب کے آخری ایام میں ابتدا کی نسبت زیادہ برکت بخشی“۵

اپنی ضعیف بصارت کے ساتھ خُدا کو پرکھنا واقعی حماقت ہے، مثال کے طور پر، یہ سوچنا، ”میں خُوش نہیں ہوں، لہذا خُدا لازماً کچھ غلط کر رہا ہے۔“ ہمارے لیے، اِس گری ہوئی دُنیا میں اُس کے فانی بچے، جو ماضی، حال اور مستقبل کے متعلق بہت تھوڑا جانتے ہیں، وہ اعلان کرتا ہے، ”ساری چِیزیں میرے ساتھ موجُود ہیں پَس مَیں اُن سب کو جانتا ہُوں“۶ ایوب دانشمندی سے اِنتباہ کرتا ہے:”خُدا کو صلاح دینے کی کوشش نہ کرو، بلکہ اُس کے ہاتھ کی مشورت لو۔ کیونکہ دیکھو، تُم خُود جانتے ہو کہ وہ اپنے کاموں کو حکمت، اور انصاف، اور نہایت شفقت سے نصیحت کرتا ہے۔“ ۷

کچھ لوگ خدا کے وعدوں کو غلط سمجھتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی فرمانبرداری ایک مقررہ نظام الاوقات پر مخصوص نتائج پیدا کرتی ہے۔ وہ سوچ سکتے ہیں، ”اگر میں تندہی سے کل وقتی مشن کی خدمت کرتا ہوں، تو خدا مجھے خوشگوار ازدواجی زندگی اور اولاد سے نوازے گا،“ یا ”اگر میں سبت کے دن اسکول کا کام کرنے سے باز رہوں گا، تو خدا مجھے اچھے نمبر دے گا،“ یا ” اگر میں دہ یکی ادا کروں گا تو خدا مجھے ایسی نوکری سے نوازے گا جس کی میں خواہش کر رہا تھا۔“ اگر زندگی بالکل اِس طرح یا متوقع ٹائم ٹیبل کے مطابق نہیں گزرتی ہے، تو وہ خدا کی طرف سے دھوکہ محسوس کر سکتے ہیں۔ مگر الہٰی معشیت میں چیزیں اتنی خُود کار (میکانی) نہیں ہیں۔ ہمیں خدا کے منصوبے کو ایک کائناتی وینڈنگ مشین کے طور پر تصور نہیں کرنا چاہئے جہاں ہم (i) مطلوبہ نعمت کا انتخاب کرتے ہیں، (ii) اچھے کاموں کی مطلوبہ رقم ڈالتے ہیں، اور (iii) آرڈر فوری طور پر پہنچا دیا جاتا ہے۔۸

یقیناً خُدا ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ اپنے عہود اور وعدوں کا پاس رکھے گا۔ ہمیں اِس کی بابت فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۹ یِسُوع مسِیح کے کفارہ کی قدرت—وہ جو عالمِ بالا پر چڑھ گیا، وَیسے وہ ہی سب چِیزوں کے نِیچے بھی اُترا۱۰اور جو آسمان اور زمین کا سار اختیار رکھتا ہےاا—یقینی بناتا ہے کہ خُدا وعدے کر سکتا ہے اور اُنہیں پورا کرے گا۔ یہ لازم ہے کہ ہم اُس کی شریعت کی توقیر اور فرمان برداری کریں، لیکن قانون کی اطاعت۱۲ پر پیش گوئی کی گئی ہر نعمت ہماری توقعات کے عین مطابق تشکیل، وضع اور بر وقت نہیں ہوتی۔ ہم اپنی بہترین کوشش کریں مگر برکات، دونوں مادی اور رُوحانی کا انتظام اُس پر چھوڑ دِینا چاہیے۔

صدر برگہم ینگ نے وضاحت کی کہ ان کا ایمان بعض نتائج یا برکات پر نہیں بلکہ یِسُوع مسِیح کی گواہی اور اُس کے ساتھ تعلق پر استوار ہے۔ اس نے کہا:”میرا ایمان خُداوند کے سمندر کے جزیروں پر کام کرنے ، اپنے لوگوں کو یہاں لانے پر منحصر نہیں ہے، اور نہ ہی اِن لوگوں یا اُن لوگوں کو عطا کردہ برکات پرمنحصر ہے، نہ ہی اس بات پر کہ ہم مبارک ہیں یا نہیں۔ مبارک ہو، بلکہ میرا ایمان خداوند یِسُوع مسِیح پر استوار ہے، اور میرا علم مجھے اس سے ملا ہے۔۱۳

ہماری توبہ اور اطاعت، ہماری قربانی، اور ہمارے اچھے کام اہم ہیں۔ ہم اُن کےمابین شمار کیا جانا چاہتے ہیں جنہیں عیتر نے ”ہمیشہ کثرت سے نیک کام “کے طور پر بیان کیا ہے۔۱۴ لیکن ایسابھی نہیں ہے کیونکہ سلیسٹیل کھاتوں میں کوئی حساب کتاب کا اندراج کیا گیا ہے۔ یہ چیزیں اہم ہیں کیونکہ یہ ہمیں کارِ خُدا میں مشغول رکھتی ہیں اور وہ ذرائع ہیں جن سےہم اُس کے ساتھ نفسانی آدمی سے مُقدس بننے کی اپنی تبدیلی کا اشتراک کرتے ہیں۔۱۵ ہمارا آسمانی باپ خُّود کو، اپنے بیٹے، ہمارے مُخلصی دینے والے، کےفضل اور وساطت سے اپنے ساتھ قریبی اور پائیدار تعلق فراہم کرتے ہیں۔

ہم خُدا کے بچے ہیں، لافانیت اور ابدی زندگی کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ اُس کے وارث بننا ہمارا مقدر ہے ”مسِیح کے ہم میراث“۱۶ ہمارا باپ ہم میں سے ہر ایک کی اپنے عہد کی راہ پر رہنمائی کرنے کے لیے تیار ہے ایسے اقدام کے ساتھ جو ہماری انفرادی ضرورت کے لیے وضع کیے گئےہیں اور اس کے ساتھ ہماری حتمی خوشی کے لیے اس کے منصوبے کے مطابق موزوں بنائے گئے ہیں۔ ہم باپ اور بیٹے پر بڑھتے ہوئے اعتماد اور ایمان، ان کی محبت کے بڑھتے ہوئے احساس، اور رُوح القُدس کی مستقل تسلی اور رہنمائی کی توقع کر سکتے ہیں۔

اس کے باوجود، یہ راستہ ہم میں سے کسی کے لیے آسان نہیں ہو سکتا۔ اِس کے آسان ہونے کے لیے بہت زیادہ بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ یِسُوع نے فرمایا:

”انگور کا حقیقی درخت میں ہوں، اور میرا باپ باغبان ہے۔

”جو ڈالی مجھ میں ہےاور پھل نہیں لاتی اُسے وہ کاٹ ڈالتا ہےاور جو پھل لاتی ہے اُسے چھانٹتا ہے، تاکہ زیادہ پھل لائے۔“۱۷

خُدا کا ہدایت کردہ عملِ تظہر، بمطابق ضرورت، بعض اوقات درد ناک اور تکلیف دہ ہو گا۔ پولُوس کے بیان کو یاد کرتےہوئے، ہم ”مسیح کے ہم میراث ہیں؛ بشرطیہ کہ ہم اُس کے ساتھ دکھ اٹھائیں تاکہ اُس کے ساتھ جلال بھی پائیں۔۱۸

لہذا، کھٹالی کی آگ میں، خُدا کے ساتھ ناراض ہونے کی بجائے، خُدا کے قریب ہوں۔ باپ کو بیٹے کے نام میں پکاریں۔ روز بہ روز، رُوح میں اُن کے ساتھ چلیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں آپ کے ساتھ اپنی وفاداری ظاہر کرنے دیں۔ حقیقی طور پر اُسےجانیں اور حقیقی طور پر خُود کو جانیں۱۹ خُدا کو غالِب آنے دو۔۲۰ نجات دہندہ ہمیں یقین دِلاتا ہے:

”اُس کی سُنو جو باپ کے پاس وکیل ہے، جو اُس کے حُضُور تُمھاری سفارش کرتا ہے—

”یہ کہتے ہُوئے:باپ، اُس کے دُکھوں اور موت پر نظر کر جِس نے کوئی گُناہ نہیں کِیا، جِس سے تُو خُوش تھا؛ اپنے بیٹے کا خُون دیکھ جو بہایا گیا، اُس کا خُون جِس کو تُو نے قُربان ہونے دیا تاکہ تیرا جلال ظاہر ہو؛“

پَس، باپ، میرے اِن بھائیوں پر رحم کر جو میرے نام پر اِیمان لاتے ہیں، تاکہ وہ میرے پاس آئیں اور ہمیشہ کی زِندگی پائیں۔۲۱

ایمان کی چند مثالوں پر غور فرمائیں جنہوں نے خُدا پر بھروسہ کیا، پُر عزم کہ اُس کی موعودہ برکات زندگی میں یا بعد از موت اُنہیں ملیں گی۔ ان کا ایمان اس بات پر منبی نہیں تھا کہ خدا نے کسی خاص حالات یا لمحے میں کیا کِیا یا نہیں کِیا بلکہ اسے اپنے مہربان باپ اور یِسُوع مسِیح کو اپنے وفادار نجات دہندہ کے طور پر جاننے پر تھا۔

جب ابراہام القناہ کے مصری کاہن کے ہاتھوں قربان کیے جانے کو تھا،اُس نے خُود کو بچانے کے لیے خُدا سے فریاد کی، اور اُس نے بچایا ۲۲ ابراہام ایمان داروں کا باپ ہونے کے لیے جیا جس کی نسل کے ذریعے زمین کے تمام خاندان برکت پائیں گے۲۳ اِس سے قبل، اِسی قربان گاہ پر، القناہ کے اِسی کاہن نے تین کنواریوں کو قربان کیا تھا جو ”اپنی پاک دامنی کے باعث قُربان کی گئیں … وہ لکڑی یا پتھر کے دیوتا کی جُھک کر پُوجا نہ کرتی تھیں۔“۲۴ وہ وہاں شہید ہوئیں۔

قدیم زمانے کا یوسف، جو اپنے بھائیوں کے ہاتھوں جوانی میں غلامی میں بیچا گیا، اپنے کرب میں خُداوند کی طرف متوجہ ہوا۔ رفتہ رفتہ، وہ مصر میں اپنے آقا کے گھر میں نمایاں ہو گیا لیکن پھر فوطییفار کی بیوی کے جھوٹے الزامات کی وجہ سے اُس کی ساری ترقی چھن گئی۔ یوسف سوچ سکتا تھا، ”تو پاکدامنی کے قانون پر عمل کرنےسے جیل ہی مقدر ہونا تھی،“ مگر اِس کی بجائے وہ پھر سے خُداوند کی طرف متوجہ ہوا اور جیل میں بھی خُوشحال ہوا۔ یوسف کو اس وقت مزید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب وہ قیدی جس سے اس نے دوستی کی تھی، یوسف سے اپنے وعدے کے باوجود، فرعون کے دربار میں اعتماد کی عہدے پر بحال ہونے کے بعد اُس کے بارے میں سب کچھ بھول گیا۔ اپنے وقت پر، جیسے آپ جانتے ہیں، خُداوند نے یوسف کو فرعون کے ساتھ اعتماد اور اختیار کے اعلیٰ ترین مقام پر رکھنے کے لیے مداخلت کی، یوسف کو اسرائیل کے گھرانے کو بچانے کے قابل بنایا۔ یقیناً یوسف تصدیق کر سکتا تھا ”کہ چیزیں مِل کر خُدا سے محبت رکھنے والوں کے لِئے بھلائی پیدا کرتی ہے۔“۲۵

ابینادی اپنی الہٰی ذمہ داری کو پورا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ ”میں اپنا پیغام ختم کرتا ہوں، “اُس نے کہا، ”اور اگر میں بچ جاتا ہوں، تو پھر کہیں بھی چلا جاؤں کوئی معاملہ نہیں،“۲۶ وہ شہید کی موت سے نہ بچ سکا، لیکن یقیناً وہ خُد اکی بادشاہی میں بچایا گیا، اور اُس کے ایک قیمتی رجوع لانے والے، ایلما نے، نیفیوں کی تاریخ کے دھارے کو بدل کر مسِیح کی آمد تک لے گیا۔

ایلما اور امیولک کو عمونہیا میں اسیری سے اُن کی التجا پر رہائی بخشی گئی، اور اُن کے ستانے والے ہلاک ہوئے ۲۷ تاہم، ابتدا میں ، اِنہیں ستانے والوں نے ایمان لانے والی خواتین اور اُن کے بچوں کو بڑھکتی ہوئی آگ میں پھینک چُکے تھے۔ ایلما، اِس خوفناک منظر کا غمناک گواہ ہوتے ہوئے رُوح کی طرف سے ”اُنہیں شعلوں سے بچانے“۲۸ کے لیے خُدا کی قُدرت استعمال کرنے سے روکا گیا تاکہ وہ جلال کے ساتھ خُدا کے پاس قبول کیے جائیں۔۲۹

نبی جوزف سمتھ لبرٹی، میسوری کی جیل میں کُڑھتا رہا، مُقدسین کی مدد کرنے سے بے بس جب سرما کی شدید سردی میں اُن سے اُن کے گھر چھین لیے گئے اور بے دخ کر دیا گیا تھا۔ ”اَے خُدا، کہاں ہے تُو؟ جوزف نے فریاد کی۔ ”کب تک تیرا ہاتھ موقُوف رہے گا؟“۳۰ جواب میں خُداوند نے وعدہ کیا:”تیری اذیتیں، اور تیرے دُکھ ہوں گے اَلبتہ دم بھر؛ اور پھِر، اگر تُو اُسے خُوب برداشت کرے گا، خُدا تُجھے عالمِ بالا میں سرفراز کرے گا۔ … تُو ابھی ایوب کی مانند نہیں۔“۳۱

آخر میں، جوزف، ایوب کے ساتھ اعلان کر سکتا ہے، ”وہ[خُدا] مجھے قتل کرے گا، بہر حال میں اپنی راہوں کی تائید اُسکے حضور کروں گا“۳۲

بزرگ بروک پی ہیلز ، بہن پٹریشا پارکنسن، کی کہانی بیان کرتے ہیں جو عام بینائی کے ساتھ پیدا ہوئی تھی مگر ۱۱ سال کی عمر میں نابینا ہو گئی تھی۔

بزرگ ہیلز نے بتایا:”میں پَیٹ کو کئی برسوں سے جانتا ہُوں اور حال ہی میں اُسے بتایا کہ میں اُس کے ہمہ وقت مُثبت اور خُوش گوار رویے کو سراہتا ہُوں۔ اُس نے جواب دیا، ’خیر، آپ میرے ساتھ گھر میں نہیں رہتے، ایسا ہی ہے نا؟ ایسے لمحے آتے ہیں۔ جب مجھے مایوسی کے دَورے پڑتے ہیں، اور میں بہت روتی ہُوں۔‘ بہرحال، اُس نے مزید بتایا، ’ جب سے میں نے اپنی بِنیائی کھونا شروع کی، عجیب بات ہے، مگر مجھے احساس ہُوا کہ آسمانی باپ اور نجات دہندہ میرے اور میرے خاندان کے ساتھ تھے۔ … جو مجھ سے پُوچھتے ہیں کہ نابِینا ہونے کی وجہ سے کیا میں ناراض ہُوں، میں جواب دیتی ہُوں: ’میں نے کس سے ناراض ہونا ہے؟‘ میں تنہا نہیں ہُوں؛ اِس سارے معاملے میں آسمانی باپ میرے ساتھ ہے۔ وہ ہر وقت میرے ساتھ ہے۔‘“۳۳

آخر میں، یہ باپ اور بیٹے کے ساتھ قریبی اور مستقل تعلق کی برکت ہے جس کے ہم متلاشی ہیں۔ یہ ہی سب فرق ڈالتا ہے اور قیمت سدا کے لیے قابل قدر ہے۔ ہم پولوس کے ساتھ گواہی دیں گے”اِس زمانہ کے دُکھ درد اِس لائق نہیں کہ اُس جلال کے مُقابل ہو سکیں جو ہم پر ظاہر کیا جائے گا۔“۳۴ میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے فانی تجربے میں کیا شامل ہے اِس سے قطع نظر، ہم خدا پر بھروسہ کر سکتے ہیں اور اس میں خوشی پا سکتے ہیں۔

”سارے دل سے خُداوند پر توکل کر؛ اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔

”اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری راہ نمائی کرے گا۔“۳۵

یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔

شائع کرنا