مجلسِ عامہ
ناگزیر مکالمات
مجلسِ عامہ اپریل ۲۰۲۱


ناگزیر مکالمات

ہم اپنے بچّوں کی تبدیلی کا محض انتظار نہیں کرسکتے ہیں۔ حادثاتی تبدیلی یِسُوع مسِیح کی اِنجِیل کا اُصول نہیں ہے۔

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہم بچّوں کی جماعت کو ”پرائمری“ کیوں کہتے ہیں؟ اگرچہ اِس نام سے مراد وہ رُوحانی تربیت ہے جو بچّے اپنے ابتدائی سالوں میں پاتے ہیں، لیکن میرے نزدیک یہ ایک قوی حقیقت کی یاد دہانی بھی ہے۔ ہمارے آسمانی باپ کے نزدیک، بچّے کبھی بھی ثانوی شے نہیں رہے—وہ ہمیشہ سے ”اوّل“ درجے کے حامل رہے ہیں۔۱

وہ ہم پر اعتماد کرتا ہے کہ ہم خُدا کی اولاد کی حیثیت سے اُن کی قدر، عزت اور حفاظت کریں۔ اِس کا مطلب ہے کہ چاہے جتنا بھی تناؤ اور دباؤ کیوں نہ ہو، ہم جسمانی، زبانی یا جذباتی طور پر اُنھیں کسی طرح کا نقصان نہ پہنچائیں۔ اِس کے بجائے ہم بچّوں کی قدر کرتے ہیں اور بدسلوکی کی برائیوں سے نمٹنے کے لیے ہم ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اُن کی دیکھ بھال جیسے اُس کی—ویسے ہی ہماری اوّلین ترجیح ہے۔۲

ایک نوجوان ماں اور باپ اپنے باورچی خانے کی میز پر بیٹھے اپنے دن کا جائزہ لے رہے تھے۔ نیچے ہال سے، اُنھوں نے ایک مدھم، کسی کے گِرنے کی آواز سُنی۔ ماں نے پوچھا، ”یہ کیا تھا؟“

تب اُنھوں نے اپنے چار سالہ بیٹے کے کمرے سے ہلکی رونے کی آواز سُنی۔ وہ جلدی سے نیچے ہال میں چلے گئے۔ وہاں وہ، اپنے بستر کے پاس فرش پر پڑا تھا۔ ماں نے چھوٹے لڑکے کو اُٹھایا اور اُس سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا۔

اُس نے کہا، ”میں بستر سے گِر گیا تھا۔“

اُس نے کہا، ”تم بستر سے کیوں گِر گئے تھے؟“

وہ نہایت بے چارگی سے بولا، ”مجھے نہیں معلوم۔ مجھے لگتا ہے کہ میں بستر پر صحیح طرح سے نہیں چڑھا تھا۔“

میں آج صُبح اِس ”صحیح طرح سے پروان چڑھنے“ کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔ یہ ہمارا خصوصی اعزاز اور ذمہ داری ہے کہ یِسُوع مسِیح کی اِنجِیل میں ”صحیح طرح سے پروان چڑھنے“ میں بچّوں کی مدد کریں۔ اور ایسا ہمیں وقت سے پہلے کرنے کی ضرورت ہے۔

بچّوں کو اپنی زِندگیوں میں ایک ایسا انوکھا خاص وقت میسر ہوتا ہے جب وہ شیطان کے اثر و رسوخ سے محفوظ رہتے ہیں۔ یہ ایسا وقت ہے جب وہ بے قصور اور گُناہ سے پاک ہوتے ہیں۔۳ یہ والدین اور بچّے کے لیے ایک مُقدّس وقت ہوتا ہے۔ بچّوں کی ”خُدا کے سامنے جواب دہی کی عُمر تک پہنچنے“۴ سے پہلے اور بعد از، اِلفاظ اور مثال کے ذریعہ، ہمیں اُن کی تربیت کرنی چاہیے۔

صدر ہینری بی آئرنگ نے سِکھایا: ”نوجوانوں کی تربیت کے حوالے سے ہمارے پاس سب سے عظیم موقع ہے۔ تعلیم دینے کی بہترین گھڑی متوقع وقت سے پہلے کی ہے، جب بچّے فانی دشمن کی آزمائشوں سے ابھی مستثنیٰ ہوتے ہیں، اور اِس سے قبل کہ حق کی باتیں اُن کی ذاتی جدوجہد کے شور میں سُننا مشکل ہو جائیں۔“۵ ایسی تعلیم سے اُنھیں اُن کی الہٰی شناخت، اُن کا مقصد، اور اُن عظیم تر نعمتوں کا ادراک کرنے میں مدد ملے گی جو اُن کی منتظر ہیں جب وہ راہِ حق پر چلتے ہوئے مُقدّس عہُود باندھتے اور رُسُوم پاتے ہیں۔

ہم اپنے بچّوں کی تبدیلی کا محض انتظار نہیں کرسکتے ہیں۔ حادثاتی طور پر تبدیلی یِسُوع مسِیح کی اِنجِیل کا اُصول نہیں ہے۔ ہم بے راہ روی سے اپنے مُنجّی کی مانند نہیں بن سکتے۔ دانستہ طور پر محبّت، تعلیم، اور گواہی دینے سے بچّوں کو چھوٹی عمر میں ہی رُوحُ الُقدس کے اثر کو محسوس کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یِسُوع مسِیح کی گُواہی پانے اور اُس کی طرف رُجُوع لانے کے واسطے رُوحُ الُقدس ہمارے بچّوں کے لیے نہایت ضروری ہے؛ ہماری خواہش ہے کہ ”وہ اُس کو ہمیشہ یاد رکھیں، تاکہ اُس کا رُوح ہمیشہ اُن کے ساتھ ہو۔“۶

خاندانی مکالمہ

یِسُوع مسِیح کی اِنجِیل کے بارے میں خاندانی مکالمات کی قدر پر غور کریں، ناگزیر مکالمات، جو رُوح کو دعوت دے سکتے ہیں۔ جب ہم اپنے بچّوں کے ساتھ اِس قسم کی گفتگو کرتے ہیں تو، ہم ایک بنیاد کی تخلیق میں اُن کی مدد کرتے ہیں، ”جو پختہ بنیاد ہے، ایسی بنیاد جس پر اگر آدمی بنیاد ڈالے تو وہ نہ گِرے گا۔“۷ جب ہم کسی بچّے کو تقویت بخشتے ہیں تو ہم خاندان کو تقویت بخشتے ہیں۔

یہ اہم مباحثے بچّوں کی رہنمائی کرسکتے ہیں کہ وہ:

  • توبہ کے عقیدے کا فہم پائیں۔

  • زِندہ خُدا کے بَیٹے، مسِیح پر اِیمان رکھیں۔

  • آٹھ سال کی عمر میں بپتسمہ اور رُوحُ القُدس کی نعمت پانے کا انتخاب کریں۔۸

  • اور دُعا کریں اور ”خُداوند کے حُضُور راست بازی سے چلیں۔“۹

نجات دہندہ نے تاکید کی، ”پَس مَیں تُجھے حکم دیتا ہُوں کہ یہ باتیں اپنے بچّوں کو صاف صاف کہہ کر سِکھا۔“۱۰ اور وہ کیا چاہتا تھا کہ ہم کِن باتوں کی صاف صاف تعلیم دیں؟

  1. آدم کا گِرنا

  2. یِسُوع مسِیح کا کفّارہ

  3. نئے سِرے سے پَیدا ہُونے کی اہمیت۱۱

بزرگ ڈی ٹاڈ کرسٹوفرسن نے کہا، ”یقینی طور پر مخالف اُس وقت خُوش ہوتا ہے جب والدین اپنے بچّوں کو مسِیح پر اِیمان رکھنے اور رُوحانی طور پر نئے سِرے سے پَیدا ہُونے کی تعلیم دینے اور اُن کی تربیت کرنا نظرانداز کرتے ہیں۔“۱۲

اِس کے برعکس، نجات دہندہ چاہتا ہے کہ ہم بچّوں کی مدد کریں ”کہ [وہ] اُس رُوح پر بھروسا رکھیں جو نیکی کی ترغیب دیتا ہے۔“۱۳ ایسا کرنے کے لیے، ہم رُوح کو محسوس کرنے اور یہ پہچاننے میں بچّوں کی مدد کرسکتے ہیں کہ کِن اعمال کی بدولت رُوح ہمیں چھوڑ دیتا ہے۔ یوں وہ یِسُوع مسِیح کے کفّارہ کی بدولت توبہ کرنا اور نُور کی طرف واپس لوٹنا سیکھتے ہیں۔ اِس کے باعِث رُوحانی بحالی کو بڑھاوا دینے میں مدد ملتی ہے۔

ہم پُر لطف انداز میں کسی بھی عمر میں رُوحانی بحالی کی تعمیر کے لیے اپنے بچّوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ یہ عمل نہایت پیچیدہ نہیں ہے یا اِس کے لیے بہت زیادہ وقت درکار نہیں ہوتا ہے۔ سادہ، شفیق گفتگو بچوں کو نہ صرف یہ جاننے میں مدد دیتی ہے کہ وہ کِس چیز پر اِیمان رکھتے ہیں، بلکہ سب سے اہم کہ وہ، کیوں اُس پر اِیمان رکھتے ہیں۔ قُدرتی اور مستقل طور پر ہونے والی، شفیق گفتگو، بہتر تفہیم اور جوابات کا باعِث بن سکتی ہے۔ آئیں ہم الیکٹرانک آلات کی سہولت کو اجازت نہ دیں کہ وہ ہمیں اپنے بچّوں کو سِکھانے اور سُننے اور اُن کی آنکھوں میں دیکھنے سے روکیں۔

ماں اور بیٹی کی گفتگو

ناگزیر مکالمات کے اضافی مواقعے کردار نگاری کے ذریعے مِل سکتے ہیں۔ خاندانی اَرکان غلط انتخاب کرنے کی آزمائش یا دباؤ کی صورتحال کی کردار نگاری کرسکتے ہیں۔ اِس طرح کی مشق بچّوں کو ایک مشکل ماحول میں مضبوط رہنے کے لیے تیار کرسکتی ہے۔ مثال کے طور پر، ہم اِس کی کردار نگاری کرسکتے ہیں اور اِس کے متعلق بات کرنے کے لیے پھر بچّوں سے یہ پوچھیں کہ وہ کیا کریں گے:

  • اگر وہ حکمت کے کلام کو توڑنے کی آزمائش میں پڑیں۔

  • اگر اُن کے سامنے فحش مواد کی نمائش ہو۔

  • اگر وہ جھوٹ بولنے، چوری کرنے یا دھوکا دینے کی آزمائش میں پڑیں۔

  • اگر وہ سکول میں کسی دوست یا اُستاد کی طرف سے کوئی ایسی بات سُنتے ہیں جو اُن کے عقائد یا اقدار کو متنازعہ بناتی ہے۔

جب وہ کردار نگاری کرتے اور پھر اِس کے متعلق بات کرتے ہیں، تو بجائے اِس کے کہ وہ بغیر تیاری کے ہم رتبہ افراد کی ناموافق گروہی ترتیب کی گرفت میں آ جائیں، بچّوں کو چاہیے کہ ”اِیمان کی سِپر [لیں] جِس سے [وہ] اُس شریر کے سب آتشی تِیروں کو بُجھا سکیں۔“۱۴

ایک قریبی ذاتی دوست نے یہ اہم سبق ۱۸ سال کی عمر میں سیکھا۔ اُس نے ریاستہائے متحدہ امریکہ اور ویتنام کے مابین تنازعہ کے دوران ریاستہائے متحدہ امریکہ کی فوج میں نام لکھایا۔ اُسے پیادہ فوجی بننے کے واسطے انفنٹری میں بنیادی تربیت کی تفویض ملی۔ اُس نے وضاحت کی کہ یہ تربیت ایک تلخ تجربہ تھا۔ اُس نے اپنے فوجی قواعد کے تربیتی معلّم کو ظالم اور بے رحمانہ کہہ کر پکارا۔

ایک خاص دن اُس کے فوجی ٹولے نے پوری طرح سے جنگ کی تیاری کے لیے ملبوس ہوکر، تیز گرمی میں پیدل سفر کیا تھا۔ تربیتی معلّم نے اچانک زمین پر گرنے اور حرکت نہ کرنے کا اونچی آواز میں حکم دیا۔ تربیتی معلّم ہلکی سی حرکت کا بھی بغور مشاہدہ کر رہا تھا۔ کسی بھی حرکت کے بعد ازاں سنگین نتائج بھگتنے پڑتے تھے۔ اپنے قائد کے لیے بڑھتے ہوئے غصے اور ناراضگی کے ساتھ دستے نے دو گھنٹے سے زیادہ گرمی میں گزارے۔

کئی ماہ بعد ہمارے دوست نے ویتنام کے جنگلوں میں اپنے دستے کی رہنمائی کی۔ یہ محض تربیتی نہیں، بلکہ حقیقی منظر تھا۔ اونچائی سے آس پاس کے درختوں میں سے گولیوں کی آواز آنا شروع ہوئی۔ پورا دستہ فوری طور پر زمین پر گِر پڑا۔

دشمن کِس چیز کی کھوج میں تھا؟ حرکت۔ کسی قسم کی بھی حرکت گولیوں کی برسات کا ضامن بنتی۔ میرے دوست نے بتایا کہ جنگل کی جھاڑیوں پر عرق ریزی اور بے حرکت کیفیت میں، کئی گھنٹوں تک اندھیرے کا انتظار کرتے ہوئے اُسے اپنی بنیادی تربیت یاد آئی۔ اُسے اپنے تربیتی معلّم کے لیے شدید ناپسندیدگی یاد آئی۔ اب اُس نے بے پناہ تشکر محسوس کیا—اُس سب کے لیے جو اُسے سِکھایا گیا تھا اور اِس نازک صورتحال کے لیے کیسے اُسے تیار کیا گیا تھا۔ تربیتی معلّم نے دانشمندی کے ساتھ ہمارے دوست اور اُس کے دستے کو اِس صلاحیت سے آراستہ کیا تھا کہ جنگ کے دوران کیا کرنا چاہیے۔ اُس نے، در حقیقت، ہمارے دوست کی جان بچائی تھی۔

ہم رُوحانی طور پر اپنے بچّوں کے لیے بھی ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟ زِندگی کے میدانِ جنگ میں داخل ہونے سے بہت پہلے، ہم اُن کو تعلیم دینے، مضبوط بنانے اور تیار کرنے کے لیے مزید کِس طرح پوری کوشش کر سکتے ہیں؟۱۵ ہم اُن کو ”صحیح طرح سے پروان چڑھنے“ کی کیسے دعوت دے سکتے ہیں؟ کیا ہمیں زِندگی کے جنگی میدانوں میں خون بہانے کے بجائے گھر کے محفوظ تربیتی ماحول میں اُن کے ”پسینے“ نہیں نکلوانے چاہیے؟

جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں، تو ایسے اوقات بھی میرے ذہن میں آتے ہیں جب اپنے بچّوں کو یِسُوع مسِیح کی اِنجیل کے موافق زِندگی گزارنے میں مدد کرنے کے لیے بڑے خلوص کے ساتھ میرے شوہر اور میں نے خود کو اُس تربیتی معلّم کی مانند محسوس کیا۔ یعقُوب نبی نے بھی یکساں جذبات کو اِن لفظوں میں بیان کیا: ”مَیں تمھاری رُوحوں کی بھلائی چاہتا ہوں۔ ہاں، میں تمھارے لیے نہایت فکر مند ہوں؛اور تُم خود جانتے ہو کہ ایسا ہی ہے۔“۱۶

جوں جوں بچّے سیکھیں اور ترقی پائیں گے، اُن کے عقائد کو چیلنج کیا جائے گا۔ لیکن چونکہ وہ مناسب طریقے سے آراستہ ہوں گے، وہ سخت مخالفت کے باوجود بھی اِیمان، حوصلے اور اعتماد میں بڑھ سکتے ہیں۔

ایلما نے ہمیں سِکھایا کہ ”اپنی اولاد کے ذہنوں کو تیار کرو۔“۱۷ ہم اُبھرتی نسل کو مستقبل کے محافظ برائے اِیمان بننے کے لیے تیار کررہے ہیں کہ وہ جانیں ”[وہ] اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے میں آزاد ہیں—ہمیشہ کی موت کے راستے اور ہمیشہ کی زِندگی کے راستے کا انتخاب کرنے میں۔“۱۸ بچّے اِس عظیم سچائی کو سمجھنے کے مستحق ہیں: ابدیت کے لیے غلط ہونا ظلم پرور بات ہے۔

کاش ہمارے بچّوں کے ساتھ ہمارے آسان مگر ناگزیر مکالمات اُنھیں اب ”ابدی زِندگی کے کلام سے لطف اندوز“ ہونے میں مدد کرسکیں تاکہ وہ ”آنے والی دُنیا میں اَبَدی زِندگی یعنی دائمی جلال“ سے شادمانی پائیں۔۱۹

جب ہم اپنے بچّوں کی پرورش اور تیاری کرتے ہیں تو، ہم اُن کی آزادئ اِنتخاب کو اجازت دیتے ہیں، ہم اُن کو پورے دِل سے پیار کرتے ہیں، ہم خُدا کے احکامات اور اُس کی توبہ کی نعمت کے متعلق اُنھیں سِکھاتے ہیں، اور ہم کبھی بھی، اُن سے دستبردار نہیں ہوتے ہیں۔ آخرکار، کیا ہم سب کے لیے یہ خُداوند کا طریق نہیں ہے؟

آئیں ہم ”مسِیح میں ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھیں،“ یہ جانتے ہوئے کہ ہمارے پیارے نجات دہندہ کی بدولت ہم ”اُمید کی کامل چمک“۲۰ پا سکتے ہیں۔

میں گواہی دیتی ہوں کہ ہر صورت میں وہی جواب ہے۔ یِسُوع مسِیح کے مُقدّس نام میں، آمین۔

حوالہ جات

  1. دیکھیں ۳ نیفی ۱۷: ۲۳–۲۴۔

  2. دیکھیں مشیلین پی گراسلی، ”Behold Your Little Ones،“ انزائن، نومبر ۱۹۹۲، ۹۳: ”میرے نزدیک دیکھو لفظ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اِس کا مطلب صرف ’ناظر اور شاہد‘ ہونے سے کہیں زیادہ ہے۔ جب خُداوند نے نیفیوں کو اپنے چھوٹے بچّوں کو دیکھنے کی ہدایت کی، مجھے یقین ہے کہ اُس نے اُن سے کہا ہوگا کہ وہ اپنے بچّوں پر توجہ دیں، اُن پر دھیان لگائیں، اُن کی موجودہ حالت سے بالاتر ہو کر اُن کے ابدی امکانات دیکھیں۔“

    مزید دیکھیں رسل ایم نیلسن، ”Listen to Learn،“ انزائن، مئی ۱۹۹۱، ۲۲: ”بچّوں پر زور آزمائی سے حکمرانی شیطان کی تکنیک ہے، نجات دہندہ کی نہیں۔ نہیں، ہم اپنے بچّوں پر ملکیت نہیں جتا سکتے۔ والدین ہونے کے ناطے ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُن سے پیار کریں، اُن کی رہنمائی کریں اور اُنھیں بڑھنے دیں۔“

  3. دیکھیں عقائد اور عہُود ۲۹: ۴۶–۴۷۔

  4. عقائد اور عہُود ۲۰: ۷۱۔

  5. ہینری بی آئرنگ، ”The Power of Teaching Doctrine،“ لیحونا، جولائی ۱۹۹۹، ۸۷۔

  6. عقائد اور عہُود ۲۰: ۷۹۔

  7. ہیلیمن ۵: ۱۲۔

  8. دیکھیں عقائد اور عہُود ۲۵:۶۸؛ مزید دیکھیں اِیمان کے اَرکان ۴:۱۔

  9. عقائد اور عہُود ۲۸:۶۸۔

  10. موسیٰ ۵۸:۶؛ تاکید شامل کی گئی ہے۔

  11. دیکھیں موسیٰ ۵۹:۶؛ مزید دیکھیں عقائد اور عہُود ۲۹:۲۰–۳۱۔

  12. ڈی ٹاڈ کرسٹوفرسن، ”Why Marriage, Why Family؟،“ لیحونا، مئی ۲۰۱۵، ۵۲۔

  13. دیکھیں عقائد اور عہُود ۱۱: ۱۲–۱۳؛ مزید دیکھیں عقائد اور عہُود ۹۳۔

  14. عقائد اور عہُود ۱۷:۲۷؛ تاکید کا اضافہ کیا گیا ہے؛ مزید دیکھیں میرین جی رومنی، ”Home Teaching and Family Home Evening،“ Improvement Era، جون ۱۹۶۹، ۹۷: ”شیطان، ہمارا دشمن، راستبازی پر سلسلہ وار حملہ کررہا ہے۔ اُس کی منظم فوجیں لا تعداد ہیں۔ ہمارے بچّے اور نوجوان شیطان کی جانب سے ہونے والے حملوں کا اہم نشانہ بنتے ہیں۔ وہ ہر جگہ شریر اور شیطانی دروغ گوئی کا نشانہ بنتے ہیں۔ ہر موڑ پر، عیّاری سے ہر ایک مُقدّس چیز اور ہر راست اُصول کو دھوکا دینے اور اُسے ختم کرنے کے لیے تیار طریقوں کے ساتھ، اُن کا ٹکراؤ برائی کے ساتھ ہوتا ہے۔ … اگر ہم اپنے بچّوں کو شیطانی خوفناک حملوں کے خلاف کھڑا ہونے کے لیے نہایت مضبوط بنانا چاہتے ہیں تو، اُنھیں گھر میں ہی سِکھایا اور تربیت دی جانی چاہیے، جیسا کہ خُداوند نے ہدایت کی ہے۔“

  15. دیکھیں رِسل ایم نیلسن، ”Children of the Covenant،“ انزائن، مئی ۱۹۹۵، ۳۲۔

    ”برسوں پہلے ایک میڈیکل طالب علم کی حیثیت سے میں نے بہت سارے مریضوں کو ایسی بیماریوں کا شکار دیکھا جو اب قابلِ علاج ہیں۔ آج افراد کو ایسی بیماریوں کے حفاظتی ٹیکے لگوانا ممکن ہے جو کبھی معذوری کا باعث بنتی تھی—حتیٰ کہ مہلک بھی ہوتی تھی۔ جدرین کاری (بیماری سے بچاؤ کا ٹیکہ لگانا) ایک ایسا طبی طریقہ جس کے ذریعے قوتِ مدافعت حاصل کی جاتی ہے۔ اصطلاح اِن اوکولیٹ (جدرین کاری) کافی دلچسپ ہے۔ یہ دو لاطینی اِلفاظ کا مرکب ہے: اِن، معنی ’اندورنی‘؛ اور اوکولس، مطلب ’آنکھ۔‘ اِن اوکولس فعل کے، لہذا، لفظی معنی ہیں ’اندر نگاہ ڈالنا‘—نقصان کے خلاف نگرانی کرنے کے لیے۔

    ”پولیو جیسی بیماری جسم کو اپاہج یا تباہ کر سکتی ہے۔ گناہ جیسی بیماری رُوح کو اپاہج یا تباہ کر سکتی ہے۔ پولیو سے ہونے والی تباہی کو اب حفاظتی ٹیکوں کے ذریعے روکا جاسکتا ہے، لیکن گناہ کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کے لیے دیگر ذرائع کی ضرورت پڑتی ہے۔ ڈاکٹرز بدی کے خلاف حفاظتی ٹیکہ نہیں لگا سکتے۔ رُوحانی حفاظت صرف خُداوند کی طرف سے—اور اُس کے اپنے طریقے سے حاصل ہوتی ہے۔ یِسُوع ٹیکہ لگانے کا نہیں، بلکہ طویل تلقین کے بعد اپنی تعلیمات کو دِل میں بٹھانے کا انتخاب کرتا ہے۔ اُس کے طریقہ کار میں کوئی ویکسین شامل نہیں ہے؛ وہ الہٰی عقیدے کی تعلیم کو اِستعمال کرتا ہے—ایک ہیئت ’اندورنی آنکھ‘—اُس کے بچّوں کی ابدی جانوں کی حفاظت کرنے کے لیے۔“

  16. ۲ نیفی ۳:۶۔

  17. ایلما ۱۶:۳۹۔

  18. ۲ نیفی ۲۳:۱۰۔

  19. موسیٰ ۵۹:۶؛ تاکید شامل کی گئی ہے۔

  20. ۲ نیفی ۲۰:۳۱۔