سّچائی اور محبّت کا نُورِ اِنجِیل
میں گواہی دیتا ہوں کہ سّچائی اور محبّت کا نُورِ اِنجِیل آج پوری دُنیا میں روشن ہے۔
مُقدّسینِ آخِری ایّام کا خوبصورت گیت ”سُنو، تمام قوموں!“ پوری دُنیا میں پھیلنے والی اِنجِیل کی مَعمُوری کے بے تحاشا مذہبی جوش اور شادمانی کی بالکل واضح تسخیر کرتا ہے۔ اِس گیت میں ہم گاتے ہیں:
سُنو، تمام قوموں! عالمِ بالا کی آواز سُنو
کہ زمِیں کا ہر کونہ شادماں ہو!
جلالی فرشتے پھیلائیں روشنائی:
پھر سے بحال ہوئی ہے سّچائی!۱
لوئس ایف مانک، اِس خُوش کُن متن کا مصنف، کلِیسیا میں شمولیت اِختیار کرنے والا ایک جرمن شخص تھا جس نے یورپ میں اپنی کُل وقتی مشنری خدمات کے دوران سوئٹزر لینڈ میں رہتے ہوئے گیت کے یہ اِلہامی اِلفاظ قلمبند کیے۔۲ بحالی کے عالمی اثرات کے مشاہدے سے جو شادمانی حاصل ہوتی ہے گیت کے درج ذیل اِلفاظ میں اُس کا مفصل بیان ہوا ہے۔
تاریکی میں ٹٹولتے ہوئے، اشک بار ہوئی قومیں؛
طلوعِ صبح کی منتظر، پہرے وہ بیٹھائیں۔
اب سب شادماں ہوں؛ طویل شب ختم ہو چکی۔
زمین پر ایک بار پھر موجود ہے سّچائی!۳
۲۰۰ سال قبل جاری بحالی کے آغاز کی بدولت، ”سّچائی اور محبّت کا نُورِ اِنجِیل“۴ اب پوری دُنیا میں روشن ہے۔ نبی جوزف نے ۱۸۲۰ میں سیکھا، اور بعد ازاں لاکھوں اور لوگوں نے بھی جانا ہے، کہ خُدا ”بغَیر ملامت کِئے سب کو فَیّاضی کے ساتھ دیتا ہے۔“۵
اِس آخری دور میں کلِیسیا کی تنظیم کے فوراً بعد، خُداوند نے جوزف سمتھ سے بات کی اور ہم سے اپنی بے حد محبّت کا اِظہار اِن اِلفاظ میں کیا:
”پَس، مُجھ خُداوند نے، زمِین کے باشِندوں پر آنے والی مُصِیبت کو جانتے ہُوئے، اپنے خادِم جوزف سمِتھ جُونئیر کو بُلایا اور آسمان سے اُس سے ہم کلام ہُوا، اور اُسے اَحکام دیے؛ …
”کہ میرا دائمی عہد قائم ہو؛
”کہ سادہ لوح اور ناتواں دُنیا کی اِنتہاؤں تک، میری اِنجِیل کی مَعمُوری کی مُنادی کریں گے۔“۶
یہ مُکاشفہ حاصل کرنے کے فوراً بعد ہی، مُبلغین کو بُلاہٹ بخشی گئی اور اُنھیں دُنیا کی بہت سی قوموں میں بھیجا گیا۔ بالکل اُسی طرح جیسے نیفی نبی نے پیش گوئی کی تھی، بحال شدہ اِنجِیل کے پیغام کی منادی کا آغاز ”قَوموں، قبیلوں، اہلِ زبان اور اُمتوں میں ہونے لگا۔“۷
”کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسینِ آخِری ایّام کی باضابطہ تنظیم کی تشکیل ۱۸۳۰ میں نیو یارک کے شمالی حصّے میں لکڑی کی بنی ہوئی ایک چھوٹی سی کٹیا میں ہوئی۔
”ابتدائی چھ اَرکان سے بڑھ کر دس لاکھ ہونے میں—۱۹۴۷ تک—کلِیسیا کو ۱۱۷ سال لگے۔ مبلغین ابتدائی دنوں سے ہی کلِیسیا میں نمایاں کردار کے حامل تھے، جو مقامی امریکی سرحدوں، کینیڈا اور، ۱۸۳۷ میں، شمالی امریکہ کے براعظم کی حدود سے باہر انگلستان تک پھیل گئے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد، مبلغین یورپ کے براعظم پر اور ہندوستان اور بحر الکاہل کے جزیروں تک دور کام کر رہے تھے۔
”۲۰ لاکھ اَرکان کا یہ ہدف محض ۱۶ سال کے بعد، ۱۹۶۳ میں، اور اگلے آٹھ سالوں میں تیس لاکھ کا ہدف پورا کیا گیا۔“۸
کلِیسیا کی سبک رو ترقی پر روشنی ڈالتے ہوئے، صدر رسل ایم نیلسن نے حال ہی میں کہا: ”آج، کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسین آخِری ایّام میں کارِ خُداوند بڑی تیزی سے پیش رفت کررہا ہے۔ کلِیسیا کا مستقبل بے مثل، اور بے نظیر ہو گا۔“۹
یِسُوع مسِیح کی اِنجِیل کی معموری کی بحالی، ایک بار پھر زمِین پر خُداوند کی زِندہ کلِیسیا کی تنظیم، اور بعد از اِس کی قابلِ توجہ بڑھوتی نے پوری دُنیا میں کہانتی برکات کی دستیابی کو ممکن بنایا ہے۔ مُقدّس رُسُوم اور عہُود جو ہمیں خُدا سے جوڑتے اور راہِ حق پر گامزن کرتے ہیں وہ واضح طور پر ”قُدرتِ الہٰی کا ظُہُور“ کرتے ہیں۔۱۰ جب ہم زِندوں اور مُردوں کے لیے اِن مُقدّس رُسُوم میں حصّہ لیتے ہیں، تو ہم اِسراؔئیل کو پردے کی دونوں جانب اکٹھا کرتے اور زمِین کو نجات دہندہ کی آمدِ ثانی کے لیے تیار کرتے ہیں۔
اپریل ۱۹۷۳ میں، مَیں اور میرے والدین نے ہَیکل میں سربمہر ہونے کے لیے اپنے آبائی ملک ارجنٹائن سے یہاں تک کا سفر کیا۔ چونکہ اُس وقت پورے لاطینی امریکہ میں کوئی ہَیکل موجود نہیں تھی، لہذا ہم نے سالٹ لیک ہَیکل جانے کے لیے ۶۰۰۰ میل (۹۷۰۰ کلومیٹر) سے زائد یکطرفہ فاصلہ طے کرنے کے واسطے اڑان بھری۔ اگرچہ اُس وقت میں صرف دو سال کا تھا اور اُس خاص تجربے کو مکمل طور پر یاد نہیں کرسکتا، مگر اُس سفر کی تین نہایت امتیازی یادیں میرے ذہن پہ نقش ہوگئیں اور ابھی تک برقرار ہیں۔
اوّل، مجھے یاد ہے کہ ہوائی جہاز کی کھڑکی کے قریب مجھے بیٹھایا گیا تھا اور وہاں سے میں نیچے سفید بادل دیکھ سکتا تھا۔
وہ خوبصورت، اُجلے بادل بہت بڑی روئی کی گیندوں کی مانند میرے ذہن میں بسیرا کیے ہوئے ہیں۔
ایک اور شبِیہ جو میرے ذہن میں باقی ہے وہ لاس اینجلس کے علاقے میں ایک تفریحی پارک کے چند مضحکہ خیز نظر آنے والے کردار ہیں۔ اُن کرداروں کو فراموش کرنا مشکل ہے۔
لیکن سب سے زیادہ اہمیت کی حامل یہ شاندار اور ناقابلِ فراموش تصویر ہے۔
مجھے واضح طور پر سالٹ لیک ہَیکل کے ایک مُقدّس کمرے میں موجود ہونا یاد ہے جہاں جوڑوں اور خاندانوں کو وقت اور ابدیت کے لیے سربمہر کیا جاتا ہے۔ مجھے ہَیکل کی خوبصورت قربان گاہ یاد ہے اور کمرے کی بیرونی کھڑکی سے چمکتی ہوئی سورج کی روشنی کی یادیں میرے ذہن میں بسی ہیں۔ تب میں نے محسوس کیا، اور اب بھی اُسی سّچائی اور محبّت کے نُورِ اِنجِیل کی تپش، تحفظ اور تسکین کو محسوس کرتا ہوں۔
اِسی طرح کے جذبات کی میرے دل میں ۲۰ سال بعد مزید توثیق ہوئی، جب میں ہَیکل میں ایک بار پھر سربمہر ہونے کے واسطے داخل ہوا—اِس بار میری منگیتر اور مَیں وقت اور ابدیت کے لیے سربمہر ہوئے تھے۔ البتہ، اِس موقع پر، ہمیں ہزاروں میل دور کا سفر کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ تب تک بیونس آئرس ارجنٹینا ہَیکل کی تعمیر اور تقدیس ہوچکی تھی، اور یہ ہمارے گھر سے تھوڑی ہی دوری پر واقع تھی۔
ہماری شادی اور سربمہریت کے بائیس سال بعد، ہمیں اُسی ہَیکل میں واپس جانے کی سعادت نصیب ہوئی، لیکن اِس بار ہماری خوبصورت بیٹی کے ساتھ، اور ہم ایک خاندان کی حیثیت سے وقت اور ابدیت کے لیے سربمہر ہوئے۔
جب میں اپنی زِندگی کے اِن مُقدّس ترین لمحات پر غور کرتا ہوں، تو میں گہرے اور مستقل جذبہ مسرت سے مغلوب ہوجاتا ہوں۔ میں نے ایک رحیم آسمانی باپ کی محبّت کو محسوس کیا اور ایسا کرنا جاری رکھا ہے، جو ہماری انفرادی ضروریات اور ہماری دِلی خواہشات سے آشنا ہے۔
آخِری ایّام میں اِسراؔئیل کو اکٹھا کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے، یہوواہ نے فرمایا، ”مَیں اپنی شرِیعت اُن کے باُطِن میں رکھُّوں گا اور اُن کے دِل پر اُسے لِکھُوں گا اور مَیں اُن کا خُدا ہُوں گا اور وہ میرے لوگ ہُوں گے۔“۱۱ میں لاانتہا طور پر شُکر گُزار ہوں کہ اپنی چھوٹی عمر ہی سے خُداوند کی شرِیعت اُس کے مُقدّس گھر میں پاک رُسُوم کی بدولت میرے دِل کی گہرائیوں میں کندہ ہونا شروع ہو گئی تھی۔ یہ جاننا نہایت لازمی ہے کہ وہ ہمارا خُدا ہے، کہ ہم اُس کے لوگ ہیں، اور یہ کہ ہمارے حالات جیسے بھی ہوں، اگر ہم وفادار رہتے ہیں اور اُن عہُود کی تعمیل کرتے ہیں جو ہم نے باندھے ہیں، تو ہم بھی ”اُس کی محبّت کے بازوؤں میں ابدی طور پر گھِر“ سکتے ہیں۔۱۲
اکتوبر ۲۰۱۹ کی مجلسِ عامہ میں خواتین کی نشست کے دوران، صدر نیلسن نے کہا، ”ایک دُوسرے کے لیے خدمت گُزاری، اِنجِیل کی مُنادی، مُقدّسین کو کامل کرنے، اور مُردوں کو مَخلصی دینے کی ہماری ساری کوششیں پاک ہَیکل میں یک جا ہو جاتی ہیں۔“۱۳
نیز، اُسی مجلسِ عامہ کے دوران، صدر نیلسن نے سِکھایا: ”بےشک، مُقدّس ہَیکل بحالی کا اعلیٰ و ارفع نگینہ ہے۔ اِس کی مُقدّس رُسُوم اور عہُود اُن لوگوں کو تیار کرنے کا محور ہیں جو اُس کی آمدِ ثانی پر نجات دہندہ کا اِستقبال کرنے لیے تیار ہیں۔“۱۴
جاری بحالی کو ہَیکلوں کی تعمیر اور تقدیس کی بڑھتی ہوئی رفتار سے نشان زد کیا گیا ہے۔ جب ہم پردے کے دونوں اطراف اکٹھا کرتے، جب ہم خدمت کے لیے قربانیاں دیتے اور ہَیکل کو اپنی زِندگیوں کا محور بناتے ہیں، تو خُداوند واقعتاً ہماری قوت میں اضافہ کرتا ہے—وہ اپنے موعودہ لوگوں کی قوت میں اضافہ کرتا ہے۔
اوہ، آسمانی تخت سے اُبھرے جاہ و جلال
چمکے سّچائی اور محبّت کا نُورِ اِنجِیل!
آفتاب کی مانند روشن، یہ آسمانی کرن
کرے آج مُنوّر ہر قطعۂِ زمِین۔۱۵
میں گواہی دیتا ہوں کہ سّچائی اور محبّت کا نُورِ اِنجِیل آج پوری دُنیا میں روشن ہے۔ ”حیرت انگیز اور تعجب خیز کام“ جس کی پیش گوئی یسعیاہ نبی نے کی تھی۱۶ اور نیفی نے جس کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا۱۷ وہ کام حتیٰ کہ اِن مشکل اوقات میں بھی، تیز رفتاری سے جاری ہے۔ جیسا کہ جوزف سمتھ نے پیغمبرانہ اعلان کیا، ”سّچائی کا معیار قائم کردیا گیا ہے؛ کوئی ناپاک ہاتھ اِس کام کو بڑھنے سے نہیں روک سکتا … جب تک کہ خُدا کے مقاصد پورے نہیں ہو جاتے اور عظیم یہوواہ نہ فرمائے کہ کام پُورا ہوا۔“۱۸
بھائیو اور بہنو، کاش آج ہم خُوشی سے آمادہ ہوں اور فیصلہ کریں کہ ہم خُود اور ہمارا خاندان بھی آسمانی آواز، حتیٰ کہ ہمارے نجات دہندہ کی آواز کو سُننے میں مشغول ہوں۔ کاش ہم خُدا کے ساتھ عہُود باندھیں اور اُن پر قائم رہیں، جو ہمیں اُس راہ پہ مضبوطی سے محفوظ رکھیں گے جو اُس کی حضوری کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے، اور کاش ہم سّچائی اور محبّت کے نُورِ اِنجِیل کی برکات میں شادمان ہوں۔ یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔