مجلسِ عامہ
ہمارا اپنا نجات دہندہ
مجلسِ عامہ اپریل ۲۰۲۱


ہمارا اپنا نجات دہندہ

اُس کی کفّارہ بخش قربانی کی بدولت، نجات دہندہ کے پاس ہم میں سے ایک ایک کو صاف کرنے، شفا دینے اور ہمیں مضبوطی دینے کی قدرت ہے۔

میں شکر گزار ہوں کہ ایسٹر کی اِس شاندار صبح میں آپ کے ساتھ ہوں۔ جب میں ایسٹر کا سوچتا ہوں تو مجھے اپنے ذہن میں اُن فرشتوں کے، جو باغ میں قبر پر تھے، کہے الفاظ دہرانا بہت اچھا لگتا ہے ”تم زندوں کو مُردوں میں کیوں ڈھونڈتی ہو؟ وہ یہاں نہیں ہے، بلکہ جی اُٹھا ہے۔“۱ میں گواہی دیتا ہوں کہ یِسُوع ناصری جی اٹھا تھا اور کہ وہ زندہ ہے۔

مسِیح کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

چونتیس سال پہلے میں اور میرے تبلیغی رفیق نے داواؤ شہر، فلپائن میں ایک بڑے ذی فہم شخص سے ملاقات کی جو ایک مقامی اخبار میں مصنف تھا۔ ہمیں اُسے تعلیم دینا بہت اچھا لگتا تھا کیونکہ وہ بہت سے سوال پوچھتا تھا اور ہمارے اعتقادات کا احترام کرتا تھا۔ اُس کے پوچھے ہوئے سوالوں میں سے سب سے یادگار سوال تھا ”مسِیح کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟“۲ ظاہر ہے ہم نے بڑے جوش سے اپنے جذبات بتائے اور یِسُوع مسِیح کی گواہی دی۔ بعد میں اُس نے ایک مضمون شائع کیا جس میں نجات دہندہ کے بارے میں بڑے شاندار الفاظ اور جملے شامل تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں متاثر تو ہوا لیکن ولولہ محسوس نہیں کیا۔ اُس میں معلومات تو بہت اچھی لکھی تھیں لیکن وہ کھوکھلی محسوس ہوتی تھی اور اُن میں روحانی قوت کا فقدان تھا۔

اُسے بہتر طور پر جاننا

”مسِیح کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟“ مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ جس قدر قریب سے میں نجات دہندہ کو جانتا ہوں اُس کا اثر اُسی قدر اُسے سننے اور میرے ردِ عمل پر ہوتا ہے۔ کچھ سال پہلے ایلڈر ڈیوڈ اے بیڈنار نے اپنے خطاب میں درج ذیل سوال پوچھے تھے: ”کیا ہم نجات دہندہ کے بارے میں صرف علم ہی رکھتے ہیں یا ہم اُسے مزید جان رہے ہیں؟ ہم خُداوند کو کیسے جان سکتے ہیں؟“

جب میں نے مطالعہ اور غور کیا تو میں حیران کُن نتیجے پر پہنچا کہ میں مسِیح کے بارے میں جو کچھ جانتا ہوں وہ اِس سے کہیں زیادہ ہے کہ میں اُسے واقعی جانتا ہوں۔ میں نے اُسی وقت فیصلہ کیا کہ میں اُسے جاننے کی مزید کوشش کروں گا۔ میں صحائف اور یِسُوع مسِیح کے مرد و خواتین شاگردوں کی گواہی کا بہت شکر گزار ہوں۔ پچھلے چند سالوں میں میرا اپنا سفر مجھے مطالعے اور دریافت کی کئی سڑکوں پر لے کر گیا۔ میں دُعا کرتا ہوں کہ آج رُوحُ الُقدس میرے لکھے ہوئے ناقص الفاظ سے کہیں زیادہ بڑھ کر میرا پیغام آپ تک پہنچائے۔

اوّل ہمیں پہچاننے کی ضرورت ہے کہ ہماری زندگیوں کی سب سے اہم جستجو نجات دہندہ کو جاننے کی ضرورت ہے۔ اِسے کسی بھی دوسری چیز پر ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔

”اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خُدایِ واحد اور برحق کو اور یِسُوع مسِیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔۴

یِسُوع نے فرمایا، ’’راہ، حق اور زندگی میں ہوں، کوئی میرے وسیلے کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔‘‘۵

اُس نے کہا ”دُنیا کا نُور مَیں ہُوں: جو میری پَیروی کرے گا وہ اَندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زِندگی کا نُور پائے گا۔“۶

دوم، جب ہم نجات دہندہ کو مزید جان رہے ہوتے ہیں تو صحائف کے حوالے اور انبیا کے الفاظ ہمارے لیے اتنے قریبی طور پر بامعنی بن جاتے ہیں کہ وہ ہمارے اپنے الفاظ بن جاتے ہیں۔ یہ دوسروں کے الفاظ احساسات اور تجربات نقل کرنے کی بات نہیں ہے، یہ کلام کا تجربہ پانے۷ اور رُوحُ الُقدس سے اپنے منفرد انداز میں گواہی پانے اور اپنے طور پر خود سے جاننے کی بات ہے۔ جیسا کہ نبی ایلما نے اعلان کیا:

”تمہارا کیا خیال ہے کہ میں اِن باتوں کو نہیں جانتا؟ دیکھو میں تمہیں اِس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ یہ باتیں جو میں نے کہیں سچ ہیں۔ اور تم کیسے جانو گے کہ میں اِن کی حقیقت جانتا ہوں؟

”دیکھو میں تُم سے کہتا ہوں کہ یہ خُدا کے پاک روح کے وسیلے سے مجھ پر ظاہر کی گئی ہیں دیکھو، میں نے روزے رکھے اور کئی دنوں تک دُعا کی تا کہ میں خود سے اِن باتوں کو جانوں اور اب میں جانتا ہوں کہ یہ سچّی ہیں کیونکہ خُداوند خُدا نے اُنہیں اپنے پاک روح کے وسیلے سے مجھ پر آشکارہ کیا اور یہی مکاشفہ کی رُوح ہے جو مجھ میں ہے۔“۸

سوم، گہرا تر فہم کہ یِسُوع مسِیح کے کفارے کا اطلاق ہم پر ذاتی اور انفرادی طور پر ہوتا ہے، اُسے جاننے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ اکثر ہمارے لیے مسِیح کے کفارے کے بارے میں عمومی طور پر بات کرنا اور سوچنا آسان ہے با نسبت اس کے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اِس کی ذاتی اہمیت کو پہچانیں۔ یِسُوع مسِیح کا کفارہ لامحدود اور ابدی ہے اور اپنی وسعت اور گہرائی میں سب چیزوں کا احاطہ کرتا ہے لیکن اپنے اثرات میں یہ مکمل طور پر ذاتی اور انفرادی ہے۔ اُس کی کفّارہ بخش قربانی کی بدولت، نجات دہندہ کے پاس ہم میں سے ایک ایک کو صاف کرنے، شفا دینے اور ہمیں مضبوطی دینے کی قدرت ہے۔

ابتدا سے ہی نجات دہندہ کی واحد خواہش، واحد مقصد باپ کی مرضی کو پورا کرنا تھا۔ اُس کے لیے باپ کی مرضی تھی کہ ”باپ کے حضور ہمارا ثالث“ ۱۰ بن کر وہ ”انسان کی لافانیت اور ابدی زندگی“۹ممکن بنانے میں مدد کرے۔ یوں ”باوجود بیٹا ہونے کے اُس نے دکھ اُٹھا اُٹھا کر فرمانبرداری سکیھی؛ اور کامل بن کر اپنے سب فرمانبرداروں کے لیے ابدی نجات کا باعث ہوا۔“۱۱

”اور وہ ہر قسم کے مصائب، درد، آزار اور آزمائشوں کو برداشت کرتا جائے گا۔ …

”اور وہ موت کو اپنے پر لے لے گا تاکہ وہ موت کے بندھن کھولے… اور وہ اُن کی کمزوریاں اپنے پر لے لے گا، …تاکہ وہ رحم سے معمور ہو… تاکہ وہ جسم کے اعتبار سے جانے کہ اُن کی کمزوریوں میں اُن کی کیسے مدد کرے۔“

”…خُدا کے بیٹے نے جسمانی ہو کر دکھ اُٹھایا تا کہ وہ اپنے لوگوں کے گناہ خود پر لے لے تاکہ وہ اپنی نجات کی قُدرت کے وسیلے سے اُن کی خطاؤں کو مٹا سکے۔“۱۲

میں ایک سادہ تجربہ بتاتا ہوں جو اُس مشکل کو ظاہر کرتا ہے کہ خُداوند کے کفارہ کی ذاتی فطرت کو قبول کرنا بعض اوقات کیوں مشکل ہوتا ہے۔

کئی سال پہلے اپنے رہنما کی دعوت پر میں نے مورمن کی کتاب کو شروع سے آخر تک پڑھا اور خُداوند کے کفارے کے حوالوں پر نشان لگائے۔ میرے رہنما نے مجھے یہ بھی دعوت دی کہ میں نے جو کچھ سیکھا ہے اُس پر ایک صفحے کا خلاصہ لکھوں۔ میں نے خود سے کہا ”ایک صفحہ؟ بالکل، یہ تو بہت ہی آسان ہے۔“ لیکن مجھے حیرانی ہوئی کیونکہ یہ کام انتہائی مشکل تھا اور میں ناکام ہوا۔

اب مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ میں اس لیے ناکام ہوا کیونکہ میں اُس کے مقصد کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھا تھا اور غلط چیزیں فرض کی تھیں۔ اوّل مجھے امید تھی کہ میرا خُلاصہ ہر ایک کو تحریک بخشے گا۔ خُلاصہ تو میرے لیے تھا، کسی اور کے لیے نہیں۔ اُس کا مقصد نجات دہندہ اور اُس نے جو کچھ میرے لیے کیا اُس کے بارے میں میرے احساسات اور جذبات کو رقم کرنا تھا تا کہ میں جب بھی اُسے پڑھوں تو وہ شاندار، ہیجان انگیز اور ذاتی تجربات پھر سے یاد آ جائیں۔

دوم، مجھے امید تھی کہ خلاصہ بہت عظیم، صریح ہو گا اور اُس میں بڑے مشکل الفاظ اور جملے ہوں گے۔ لیکن یہ تو مشکل الفاظ کی بات تھی ہی نہیں۔ اِس کا مقصد اپنے عقیدے کا سادہ اور واضح بیان دینا تھا۔ ”کیونکہ میری جان سادگی کے سبب شادمان ہے؛ کیونکہ خُداوند خُدا اس طرح بنی آدم کے درمیان کام کرتا ہے۔ کیونکہ خُداوند خُدا سمجھنے کے لیے روشنی بخشتا ہے۔“۱۳

سوم، مجھے امید تھی کہ یہ بالکل کامل ہو گا، سارے خلاصوں سے بہتر خُلاصہ، آخری خُلاصہ جس میں کسی چیز کا اضافہ نہ ہو سکے نہ ہی کیا جانا چاہیے— بجائے اس کے کہ جاری خُلاصہ جس میں مَیں یِسُوع مسِیح کے کفارے کے بارے میں اپنی سمجھ میں پُختگی آنے کے ساتھ ساتھ الفاظ و جملوں کا اضافہ کروں۔

گواہی اور دعوت

نوجوان لڑکے کے طور پر میں نے اپنے اُسقف کے ساتھ گفتگو میں بہت کچھ سیکھا۔ اُن کومل سالوں میں میں نے ہردلعزیز گیت کے اِن الفاظ کو پیار کرنا سیکھا جو کہتے ہیں:

سراپا حیرت زدہ کھڑا ہُوں اُس پر جو مسِیح مُجھے پیش کرتا ہے،

پریشان ہوں اُس مہربانی پر کہ وہ مجھے قبولیت کے لیے پیش کرتا ہے۔

کانپ اُٹھتا ہوں یہ جان کر کہ وہ میرے لیے مصلوب ہوا،

کہ مجھ گناہ گار کے لیے اُس نے دکھ سہا، خون بہایا اور مُؤا۔

بڑی شاندار بات ہے کہ وہ میری فکر کرے

اتنی کہ میرے لیے جان بھی دے!

ہاں یہ شاندار ہے، میرے لیے شاندار!۱۴

مرونی نبی نے ہمیں دعوت دی ہے ”اور اب میں تمہیں کہتا ہوں کہ اُس یِسُوع کی تلاش کرو جس کی بابت نبیّوں اور رسولوں نے لکھا ہے۔“۱۵

صدر رسل ایم نیلسن نے وعدہ کیا کہ ”اگر [ہم] یِسُوع مسِیح کے بارے میں وہ سب کچھ سیکھیں جو [ہم] سیکھ سکتے ہیں تو… گناہ سے دور ہونے کی [ہماری] قابلیت میں اضافہ ہو گا۔ احکام پر عمل کرنے کی [ہماری] خواہش میں اضافہ ہو گا۔“۱۶

میری دعا ہے کہ ایسٹر کے اِس اتوار جیسے نجات دہندہ اپنی پتھر کی قبر سے باہر آیا ہم بھی اپنی روحانی نیند سے اُٹھیں اور شبہات کے بادلوں، خوف کے چنگُل، نشہ آور غرور اور خود پسندی کی لوریوں سے بالاتر ہو جائیں۔ یِسُوع مسِیح اور آسمانی باپ زندہ ہیں۔ میں ہمارے لیے اُن کی کامل محبت کی گواہی دیتا ہوں۔ یِسُوع مسِیح کے نام سے، آمین۔