طِفلِ خُدا کا ذاتی سفر
خُدا کی موعودہ اولاد کی حیثیت سے، ہم اُن رُوحوں سے محبّت رکھتے، اُن کی عزّت، پرورش، حفاظت اور خیر مقدم کرتے ہیں جو قبل از فانی دُنیا سے آ رہے ہیں۔
ہم میں سے ہر ایک دُنیا بھر کی وبائی مرض سے متاثر ہوا ہے، جیسا کہ ہمارے خاندانی اَرکان اور دوست غیر متوقع طور پر اپنے خالقِ حقیقی سے جا مِلے۔ مَیں اِن میں سے تین ایسے لوگوں کا ذکر کروں گا، جن سے ہمیں بے حد محبّت تھی اور جن کی جدائی کو ہم شدت سے محسوس کرتے ہیں۔
یہ بھائی فیلیپ اور بہن جرمین نساؤنڈی ہیں۔ بھائی نساؤنڈی اپنے انتقال پہ برازاویل کانگو سٹیک کے بطریق کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ وہ ایک میڈیکل ڈاکٹر تھے جنھوں نے دِل کُھول کر اپنی صلاحیتوں کا اشتراک دُوسروں کے ساتھ کیا۔۱
یہ ایکواڈور کے، ٹوکان سے بہن کلارا ایلیسا روانو ڈی ولاریال ہیں۔ اِنھوں نے چونتیس سال کی عمر میں بحال شدہ اِنجِیل کو قُبُول کیا اور وہ ایک پیاری رہنما تھیں۔ اُن کے خاندان نے اُن کا پسندیدہ گیت گاتے ہوئے اُنھیں الوداع کیا، ”میں جانتا ہوں میرا مَخلصی دینے والا زندہ ہے۔“۲
یہ اپنے خوبصورت خاندان کے ساتھ، یوٹاہ سے تعلق رکھنے والے بھائی رے ٹوئی نے آؤ ہیں۔ اُن کی اہلیہ، جولیٹ نے کہا، ”میں چاہتی ہوں کہ [میرے لڑکے] [یاد رکھیں کہ اُن کا باپ] ہمیشہ خُدا کو اوّلین ترجیح دینے کی کوشش کرتا تھا۔“۳
خُداوند نے فرمایا، ”تم پیار اور محبّت سے اِکٹھے رہنا، اِس طرح کہ تُم اُن کے لیے رونا جو مر جاتے ہیں۔“۴
اِس سوگ کے دوران، ہم اپنے نجات دہندہ کی جلالی قیامت میں مسرور بھی ہوتے ہیں۔ اُسی کی بدولت، ہمارے پیارے اور احباب اپنا اَبَدی سفر جاری رکھیں گے۔ جیسا کہ صدر جوزف ایف سمتھ نے وضاحت دی: ”ہم اُنھیں بھول نہیں سکتے؛ ہم بلاتوقف اُن سے محبّت رکھیں گے۔ … وہ آگے بڑھ چکے ہیں؛ ہم آگے بڑھ رہے ہیں؛ جیسے جیسے اُنھوں نے ترقی پائی ہم بھی ترقی پاتے ہیں۔“۵ صدر رسل ایم نیلسن نے کہا، ”ہمارے غم کے آنسو … اُمید کے آنسوؤں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔“۶
ہم پیدائش سے پہلے کی زِندگی کے بارے میں جانتے ہیں
ہمارا اَبَدی تناظر نہ صرف اُن لوگوں کے بارے میں ہمارے فہم کو وسعت بخشتا ہے جو بشریت کی پرلی طرف اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ اُن لوگوں کے بارے میں بھی ہماری سمجھ کو کھول دیتا ہے جو وقت سے پہلے اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں اور ابھی بشریت میں داخل ہو رہے ہیں۔
زمِین پر آنے والا ہر ایک فرد خُدا کا بے مثل بیٹا یا بیٹی ہے۔۷ ہمارا ذاتی سفر پیدائش کے وقت شروع نہیں ہوا تھا۔ ہمارے پَیدا ہونے سے پہلے ہی، ہم تیاری کی اُس دُنیا میں ایک ساتھ اکٹھے تھے جہاں ہم ”نے عالمِ اَرواح میں اپنے پہلے سبق سِیکھے۔“۸ یہوواہ نے یرمیاہ کو بتایا، ”اِس سے پیشتر کہ میں نے تُجھے بطن میں خلق کیا؛ میں تُجھے جانتا تھا اور تیری وِلادت سے پہلے میں نے تُجھے مخصوص کیا اور قوموں کے لئِے تُجھے نبی ٹھہرایا۔“۹
کچھ لوگ سوال کرسکتے ہیں کہ کیا زِندگی جنین کی ہیئت ترکیبی کے ساتھ شروع ہوتی ہے، یا جب دِل دھڑکنا شروع ہوتا ہے، یا جب بچہ رحم سے باہر رہ پاتا ہے، لیکن ہمارے نزدیک، بلاشبہ خُدا کی رُوحانی بیٹیاں اور بیٹے جسم حاصل کرنے اور فانی تجربہ پانے کے لیے زمِین پر آتے ہیں۔
خُدا کی موعودہ اولاد کی حیثیت سے، ہم اُن رُوحوں سے محبّت رکھتے، اُن کی عزّت، پرورش، حفاظت اور خیر مقدم کرتے ہیں جو قبل از فانی دُنیا سے آ رہے ہیں۔
خواتین کی حیرت انگیز شراکت
ایک عورت کے لیے، بچّہ پیدا کرنا جسمانی، جذباتی اور معاشی طور پر ایک عظیم قربانی ہوسکتی ہے۔ ہم اِس کلِیسیا کی حیرت انگیز خواتین سے پیار اور عزّت کرتے ہیں۔ ذہانت اور حکمت سے، آپ اپنے خاندان کا بوجھ برداشت کرتی ہیں۔ آپ محبّت رکھتی ہیں۔ آپ خدمت کرتی ہیں۔ آپ قربانی دیتی ہیں۔ آپ اِیمان کو تقویت بخشتی ہیں، ضرورت مندوں کی خدمت گزاری کرتی ہیں، اور معاشرے کے لیے بہت زیادہ معاون ثابت ہوتی ہیں۔
تحفظِ زِندگی کی مُقدّس ذمہ داری
برسوں قبل، دُنیا میں اسقاطِ حمل کی تعداد پر گہری تشویش کا اِظہار کرتے ہوئے، صدر گورڈن بی ہنکلی ہمارے دور سے متعلقہ اِلفاظ میں کلِیسیائی خواتین سے مخاطب ہوئے۔ اُنھوں نے کہا: ”بیویاں اور مائیں خاندان کا لنگر ہوتی ہیں۔ آپ بچّوں کو پَیدا کرتی ہیں۔ یہ نہایت عظیم اور مُقدّس ذمہ داری ہے۔ … اِنسانی زِندگی کے تقدس کی ہماری حسّاس تفہیم کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اسقاطِ حمل ایک بری، بے آب و گیاہ اور حقیقی اور نہایت ناگوار حرکت ہے، جو زمِین پر پھیل رہی ہے۔ میں اِس کلِیسیا کی خواتین سے اِلتجا کرتا ہوں کہ وہ اِس سے بچیں، اخلاقی وجوہات کی بناء پر اِس سے گریز کریں، اور ایسے نقطئہ اتصال سے دور رہیں جن میں یہ ظاہراً پُر کشش محسوس ہو۔ کچھ حالات میں ایسا کیا جاسکتا ہے، لیکن وہ انتہائی محدود اور بیشتر حصّے کے لیے بعید ازامکان ہیں۔۱۰ … آپ خُدا کے بیٹوں اور بیٹیوں کی مائیں ہیں، جن کی زِندگیاں مُقدّس ہے۔ اُن کا تحفظ ایک الہٰی ذمہ داری ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔“۱۱
بزرگ مارکس بی نیش نے ایک پیاری چوراسی سالہ خاتون کی کہانی کا میرے ساتھ اشتراک کیا، جس نے اپنے بپتسمہ سے قبل انٹرویو کے دوران، ”[کئی سال پہلے] اسقاطِ حمل کا اعتراف کیا تھا۔“ پُر خلوص جذبات کے ساتھ، اُس نے کہا: ”میں نے چھیالیس سالوں سے اپنی زِندگی کے ہر دِن اُس اسقاطِ حمل کا بوجھ اُٹھایا ہے۔ … کوئی بھی چیز اِس درد اور احساسِ جرم کو دور نہ کر پائی۔ مَیں یِسُوع مسِیح کی اِنجیل کی تعلیم پانے تک نااُمید رہی تھی۔ مَیں نے توبہ کرنا سیکھا … اور یکایک مَیں اُمید سے معمُور ہو گئی۔ میں نے آخر کار جانا کہ اگر میں سچّے دِل سے اپنے گُناہوں سے توبہ کرتی ہوں تو مجھے معاف کیا جاسکتا ہے۔“۱۲
توبہ اور معافی کے الہٰی تحائف کے لیے ہم نہایت مشکور ہیں۔
ہم کیا کر سکتے ہیں؟
یِسُوع مسِیح کے پُر امن شاگِردوں کی حیثیت سے ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ آئیں ہم خُدا کے احکامات کے مُوافِق زِندگی گزاریں، اِنھیں اپنے بچّوں کو سِکھائیں، اور اِن کا اشتراک دُوسروں کے ساتھ بھی کریں جو اِنھیں سُننے کو تیار ہیں۔۱۳ آئیں ہم زِندگی کے تقدس کے بارے میں اپنے گہرے احساسات کا اشتراک معاشرے میں فیصلے لینے والے باضابطہ اداروں کے ساتھ کریں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ہمارے عقیدے کو پوری طرح نہ سراہیں، لیکن ہم دُعاگو ہیں کہ وہ زیادہ اچھی طرح سے جان پائیں کہ، ہمارے لیے، یہ فیصلے اِس امر سے بالاتر ہیں کہ کوئی فرد اپنی زِندگی کے لیے کیا چاہتا یا چاہتی ہے۔
اگر کسی عورت کے رحم میں کوئی غیر متوقع بچّہ ہو تو، آئیں ہم محبّت، حوصلہ افزائی کے ساتھ اُس تک ہاتھ بڑھائیں، اور ضرورت پڑنے پر، مالی مدد کرتے ہوئے ایک ماں کو مضبوطی کے ساتھ اپنے بچّے کی پیدائش اور اُس بچّے یا بچّی کو بشریت کا سفر جاری رکھنے کی اجازت دیں۔۱۴
گود لینے کا عمدہ نمونہ
ہمارے خاندان کو، دو دہائیاں قبل ایک عظیم برکت حاصل ہوئی، جب ایک سولہ سالہ نوجوان لڑکی نے یہ جانا کہ وہ اُمید سے ہے۔ وہ اور نازائیدہ بچّے کے والد کی شادی نہیں ہوئی تھی، اور وہ ایک ساتھ اکٹھا نہیں رہنا چاہتے تھے۔ اُس نوجوان لڑکی کا خیال تھا کہ اُس کے رحم میں ایک قیمتی جان تھی۔ اُس نے ایک بچّی کو جنم دیا اور اُسے ایک نیک خاندان کو گود لینے کی اجازت دی۔ برائس اور جولین کے لیے، وہ اُن کی دُعاؤں کا جواب تھی۔ اُنھوں نے اُس کا نام ایملی رکھا اور اُسے اپنے آسمانی باپ اور اُس کے بیٹے، یِسُوع مسِیح پر بھروسا کرنا سِکھایا۔
ایملی بڑی ہوئی۔ ہم نہایت شُکرگُزار ہیں کہ ایملی اور ہمارا پوتا، کرسچن، ایک دُوسرے کی محبّت میں گرفتار ہوگئے اور خُداوند کے گھر میں اُن کی شادی ہوئی۔ ایملی اور کرسچن کی اب اپنی ایک چھوٹی سی بچّی ہے۔
ایملی نے حال ہی میں لکھا: ”حمل کے اُن نو مہینوں کے دوران، مجھے اپنی پیدائش کے واقعات [پر] غور کرنے کا وقت مِلا۔ میں نے اپنی اُس والدہ کے بارے میں سوچا جس نے مجھے جنم دیا تھا، جو تب صرف سولہ سال کی تھی۔ جب مَیں نے حمل کی دردوں اور تبدیلیوں کا تجربہ کیا تو، مَیں تصوّر کر سکتی تھی کہ سولہ سال کی کم عمری میں یہ کتنا مشکل ہوگا۔… مجھے جنم دینے والی والدہ کے بارے میں سوچتے ہوئے اب بھی میری آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں، جو جانتی تھی کہ وہ مُجھے ویسی زِندگی نہیں دے سکتی [جس کی وہ میرے لیے خواہش مند تھی اور بے غرضانہ اُس نے مُجھے] گود دے دیا۔ میں نہیں جان سکتی کہ اُن نو مہینوں میں وہ کِن مشکلات سے گزری ہوگی—جب اُس کا جسم بدلا ہوگا تو اُسے تنقیدی نگاہوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، وہ نوعمری کے تجربات سے محروم ہوئی، یہ جانتے ہوئے کہ شفقتِ مادری کی اِس مشقت کے اختتام پر، وہ اپنے بچّے کو کسی اور کو سونپ دے گی۔ میں اُس کے مخلص انتخاب کے لیے اُس کی شُکر گُزار ہوں، کہ اُس نے اپنی بیٹی کو زِندہ رہنے کی اجازت دی تاکہ وہ بھی اپنی آزادئ اِنتخاب کو استعمال کرسکے۔“ ایملی نے یہ نتیجہ نکالا، ”مَیں آسمانی باپ کے الہٰی منصوبے، اپنے عظیم والدین جنہوں نے مجھ سے [پیار کیا اور میری دیکھ بھال کی]، اور اُن ہیکلوں کے لیے نہایت شُکر گُزار ہوں جہاں ہمیں ہمارے گھر والوں کے ساتھ ابدیت کے لیے سربمہر کیا جاسکتا ہے۔“۱۵
مُنجّی نے ”ایک بّچے کو لے کر اُن کے بِیچ میں کھڑا کِیا: پھِر اُسے گود میں لے کر اُن سے کہا، جو کوئی میرے نام پر [اَیسے] بّچوں میں سے ایک کو قبُول کرتا ہے وہ مُجھے قبُول کرتا ہے۔“۱۶
جب صادق خواہشات کا تاحال ادراک نہیں ہوتا
میں اُن نیک جوڑوں کے لیے اپنی محبّت اور شفقت کا اِظہار کرتا ہوں جو شادی تو کرتے ہیں مگر اولاد کی برکت نہیں پاتے جس کے وہ نہایت مشتاق ہوتے ہیں اور ایسے مرد و زن کے لیے بھی جن کو خُدا کے قانون کے مطابق شادی کرنے کا موقع نہیں مِلا ہے۔ اگر ہم صرف فناپذیری کے تناظر سے دیکھیں تو زِندگی کے ادھورے خوابوں کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ خُداوند کا خادم ہونے کے ناطے، میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ جب آپ یِسُوع مسِیح کے ساتھ اور اپنے عہُود میں وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو، آپ کو اِس زِندگی میں تعدیلی برکتیں ملیں گی اور خُداوند کے متعین وقت پہ آپ ابدیت میں اپنی نیک خواہشات حاصل کریں گے۔۱۷ اپنی تمام نیک اُمیدوں کا ادراک پائے بغیر بھی بشریت کے سفر میں خُوشی حاصل ہو سکتی ہے۔۱۸
پیدائش کے بعد، بچّوں کو ہماری مدد کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ کچھ کو اِس کی اَشد ضرورت ہوتی ہے۔ ہر سال شفیق بشپ صاحبان اور آپ کی جانب سے فراخ دِلی سے پیش کیے جانے والے روزہ کے ہدیہ جات اور انسانی فلاح کے فنڈز کی بدولت لاکھوں کی تعداد میں بچّوں کی زِندگیوں کو برکت ملتی ہیں۔ صدارتِ اَول نے حال ہی میں یونیسف کو دو ارب ویکسین لگانے کی عالمی کوششوں میں معاونت کے لیے مزید بِیس ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا۔۱۹ خُدا بچّوں سے محبّت رکھتا ہے۔
بچّہ پیدا کرنے کا مُقدّس فیصلہ
یہ نہایت تشویش کی بات ہے کہ دُنیا کے کچھ خوشحال ممالک میں بھی کم بچّے پیدا ہو رہے ہیں۔۲۰ ”پھلنے اور بڑھنے اور زمین کو معمُورو محکُوم کرنے کا خُدا کا حکم ابھی بھی نافذ العمل ہے۔“۲۱ ایک بچّہ کب پیدا کرنا ہے اور کتنے بچّے ہونے چاہئیں اِس کا فیصلہ ذاتی طور پر میاں بیوی اور خُداوند کے درمیان ہوتا ہے۔ اِیمان اور دُعا کے ساتھ، یہ مُقدّس فیصلہ ایک خوبصورت، منکشف تجربہ ہوسکتا ہے۔۲۲
میں جنوبی کیلیفورنیا کے لائنگ خاندان کی کہانی کا اشتراک کروں گا۔ بہن ربیقہ لائنگ لکھتی ہیں:
”۲۰۱۱ کے موسمِ گرما میں، ہمارے خاندان کے لیے زِندگی بظاہر کامل محسوس ہوتی تھی۔ ہم چار بچّوں کے ساتھ خُوشحال ازدواجی زندگی گزار رہے تھے—جن کی عمریں ۹، ۷، ۵، اور ۳ برس کی تھیں. …
”میرا حمل اور بچّوں کی جنوائی کا عمل ہمیشہ پُر خطر [ہوتا تھا] … [اور] ہم نے چار بچوں کی پیدائش پر [نہایت] خُوشی محسوس کی، [یہ سوچ کر] کہ ہمارا خاندان مکمل ہوگیا ہے۔ اکتوبر کی مجلسِ عامہ سُنتے ہوئے، مجھے ایک بالکل واضح احساس حاصل ہوا کہ ہمیں ایک اور بچّہ پیدا کرنا ہے۔ جب لی گرینڈ اور مَیں نے اِس بارے غور کیا اور دُعا کی، … ہم نے جانا کہ ہمارے اپنے منصوبے کے برعکس خُدا کا ہمارے لیے ایک مختلف منصوبہ ہے۔
”ایک اور مشکل حمل اور جنوائی کے عمل کے بعد، ہمارے ہاں ایک خوبصورت بچّی پیدا ہوئی۔ ہم نے اُس کا نام بریل رکھا۔ وہ ایک مُعجزہ تھی۔ اُس کی پیدائش کے چند لمحوں بعد، جبکہ میں ابھی [ڈلیوری روم] میں ہی تھی تو، مَیں نے رُوح کی واضح آواز سُنی: ’ابھی ایک اور باقی ہے۔‘
”تین سال بعد، ایک اور مُعجزہ، میا۔ بریل اور میا ہمارے خاندان کے لیے زبردست خُوشی کا باعث بنی ہیں۔“ وہ نتیجہ اخذ کرتی ہیں، ”اپنے فہم پر تکیہ کرنے کے بجائے … خُداوند کی ہدایت کے تابع ہونے اور ہمارے لیے اُس کے منصوبوں کی پیروی کرنے سے ہم ہمیشہ زیادہ خُوشی پائیں گے۔“۲۳
نجات دہندہ ہر بیش قیمت بچّے سے محبّت رکھتا ہے۔
”اور اُس نے باری باری اُن کے چھوٹے بچّوں کو لیا، اور اُن کو برکت دی۔ …
”اور … اُنھوں نے آسمان کی طرف نظر کی، … اور آسمان سے فرشتوں کو اُترتے دیکھا … جو آگ میں گھِرے ہوئے تھے؛ اور [فرشتوں] … نے اُن چھوٹے بچّوں کو گھیر لیا، … اور فرشتوں نے اُن کی خدمت کی۔“۲۵
میں گواہی دیتا ہوں کہ طِفلِ خُدا ہونے کے ناطے آپ کے ذاتی سفر کا آغاز اپنی پیدائش کے بعد پہلی سانس لینے سے نہیں ہوا، اور نہ ہی اِس کا اختتام زمین پر آپ کی آخری سانس پر ہوگا۔
کاش ہم ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ خُدا کا ہر رُوحانی بچّہ اپنے ذاتی سفر پر گامزن ہونے کے لیے زمین کا رُخ کر رہا یا رہی ہے۔۲۵ میری خواہش ہے کہ ہم اُن کا خیرمقدم کریں، اُن کی حفاظت کریں، اور ہمیشہ اُن سے محبّت رکھیں۔ جب آپ اِن بیش قیمت بچّوں کو نجات دہندہ کے نام پر قبُول کرتے ہیں اور اُن کے اَبَدی سفر میں اُن کی مدد کرتے ہیں تو، مَیں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ خُداوند آپ کو برکت دے گا اور آپ پر اپنی محبّت اور معمُوری نچھاور کرے گا۔ یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔