مجلسِ عامہ
مَوت کی فتح نہ رہی
مجلسِ عامہ اپریل ۲۰۲۱


مَوت کی فتح نہ رہی

یِسُوع مسِیح کے مخلصی بخش کفّارہ اور جلالی قیامت کی بدولت، شکستہ دِل شفا پا سکتے ہیں، کرب اِطمینان میں، اور سخت اذیت اُمید میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

اِس شاندار ایسٹر کے اِتوار کو، ہمارے بچّے شادمانی کے ساتھ گاتے ہیں، ”روشن موسمِ بہار میں، یِسُوع مسِیح اُٹھ کھڑا ہوا اور نکلا اُس قبر سے جہاں تھا وہ پڑا؛ توڑے اُس نے مَوت کے بندھن۔“۱

ہم یِسُوع مسِیح کی قیامت کے بارے میں اپنے علم کے لیے شُکر گُزار ہیں۔ اور پھر بھی اپنی زِندگی کے کسی نہ کسی مقام پہ، ہم اپنے پیاروں کو کھونے کے بعد شکستہ دل محسوس کرتے ہیں۔ موجودہ عالمی وبا کی بدولت یا تو خاندانی افراد یا دوستوں کی صورت میں—ہم میں سے بہت سے لوگوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے۔۲ ہم اُن لوگوں کے لیے دُعاگو ہیں جو اپنے عزیزوں کے بچھڑنے کی وجہ سے غمزدہ ہیں۔

صدر رسل ایم نیلسن نے کہا:

”عمر سے قطع نظر، ہم پیاروں اور کھوئے ہوئے لوگوں کے لیے غمزدہ ہیں۔ عزاداری پُر خلوص محبّت کا ایک گہرا اِظہار ہے۔ …

”مزید برآں، ابھی کی گریہ آور جدائیوں کے بغیر ہم مسرت بخش ملن کی پوری طرح قدر نہیں جان سکتے ہیں۔ مَوت سے غم کو نکالنے کا واحد طریقہ زِندگی سے پیار نکالنا ہے۔“۳

شبیہ
خواتین شاگردوں نے یِسُوع کا سوگ منایا۔

ہم تصوّر کرسکتے ہیں کہ یِسُوع کے ساتھیوں نے، جنھوں نے اُس کی پیروی اور خدمت کی تھی،۴ اُس کی مَوت کا مشاہدہ کرتے ہوئے کیسا محسوس کیا تھا۔۵ ہم جانتے ہیں کہ وہ ”ماتم کرتے اور روتے تھے۔“۶ مصلوبیت کے دن، اِس حقیقت سے انجان کہ اِتوار کو کیا ہوگا، وہ سخت اذیت سے مغلوب ہوئے ہوں گے، یہ سوچتے ہوئے کہ وہ اپنے خُداوند کے بغیر کیسے آگے بڑھیں گے۔ البتہ، اُس کی مَوت پر بھی اُنھوں نے اُس کی خدمت جاری رکھی۔

اَرِمتیہ کے رہنے والے یُوسُف نے پِیلاطُس کے پاس جا کر یِسُوع کی لاش مانگی۔ اُس نے لاش کو اُتار کر، اُسے ایک حسِین چادر میں کَفنایا اور ایک نئی قَبر کے اَندر رکھّا اور قَبر کے مُنہ پر ایک بڑا پتھّر لُڑھکا دِیا۔۷

نِیکدُیمُس مُر اور عُود مِلا ہُؤا لایا۔ یِسُوع کی لاش لے کر اُسے سوتی کپڑے میں خُوشبُودار چِیزوں کے ساتھ کَفنانے میں اُس نے یُوسُف کی مدد کی۔۸

مریم مگدلینی اور دیگر خواتین نے یُوسُف اور نِیکدُیمُس کے پِیچھے جا کر اُس قَبر کو دیکھا جہاں اُس کی لاش رکھی گئی تھی، اور اُسے مسح کرنے کے لیے خُوشبُودار چِیزیں اور عِطر تیّار کِیا۔۹ اُس دور کے سخت قوانین کے مطابق، لاش کو مزید تیار اور مسح کرنے کے لیے اُنھوں نے تھوڑا انتظار کیا اور سبت کے دِن آرام کِیا کیوں کہ ہفتہ سبت کا دن تھا۔۱۰ پھر، اِتوار کو صُبح سویرے ہی، وہ قبر پر گئیں۔ یہ جاننے کے بعد کہ نجات دہندہ کی لاش موجود نہیں ہے، وہ یہ بتانے کے لیے شاگردوں کے پاس دوڑی گئیں جو یِسُوع کے رسُول تھے۔ رسُول اُن کے ساتھ قبر پر لوٹے اور دیکھا کہ وہ خالی تھی۔ تعجب کرتے ہوئے کہ نجات دہندہ کی لاش کے ساتھ کیا ہوا تھا، مریم مگدلینی کے سِوا سب آخر کار وہاں سے چلے گئے۔۱۱

مریم مگدلینی اکیلی قبر کے پاس کھڑی رہی۔ صرف چند روز قبل ہی، اُس نے اپنے دوست اور آقا کی المناک موت کا مشاہدہ کیا تھا۔ اب اُس کی قبر خالی تھی، اور وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں ہے۔ شدید غم کے مارے وہ رو پڑی۔ اُسی لمحے، جی اُٹھا نجات دہندہ اُس کے پاس آیا اور اُس نے پوچھا کہ تُو کِیُوں روتی ہے اور کِس کو ڈھُونڈتی ہے۔ اُس نے باغبان سَمَجھ کر، اُس سے کہا، اگر تُو نے میرے خُداوند کو یہاں سے اُٹھایا ہو تو مُجھے بتا دے کہ اُسے کہاں رکھّا ہے تاکہ مَیں اُسے لے جاؤں۔۱۲

شبیہ
مریم مگدلینی

میں تصوّر کرتی ہوں کہ شاید خُداوند نے مریم مگدلینی کو غمزدہ ہونے اور اپنے درد کا اِظہار کرنے کی اجازت دی ہوگی۔۱۳ تب اُس نے اُسے اُس کے نام سے پکارا، اور اُس نے مُڑ کر دیکھا اور اُسے پہچان لیا۔ اُس نے جی اُٹھے مسِیح کو دیکھا اور اُس کی جلالی قیامت کی گواہ بنی۔۱۴

جب وہ اپنے خُداوند کی مَوت کا سوگ منا رہے تھے تو آپ کی طرح، مَیں بھی کسی حد تک مریم مگدلینی اور اُس کے ساتھیوں کے کرب کو محسوس کرتی ہوں۔ جب میں نو برس کی تھی تو، ایک شدید المناک زلزلے کے دوران میں نے اپنے بڑے بھائی کو کھو دیا۔ چونکہ یہ غیر متوقع طور پر وقوع ہوا تھا، اِس لیے اِس کی حقیقت کو سمجھنے میں مجھے تھوڑا وقت لگا۔ رنج کے مارے مَیں شکستہ دِل محسوس کر رہی تھی، اور مَیں خود سے پوچھتی تھی کہ، ”میرے بھائی کو کیا ہوا تھا؟ وہ کہاں ہے؟ وہ کہاں چلا گیا ہے؟ کیا مَیں اُسے دُوبارہ دیکھ پاؤں گی؟“

اُس وقت، میں ابھی خُدا کے نجات کے منصوبے کے سے انجان تھی، اور مجھے یہ جاننے کی خواہش تھی کہ ہم کہاں سے آئے ہیں، اِس زِندگی کا مقصد کیا ہے، اور مرنے کے بعد ہمارے ساتھ کیا ہوگا۔ جب ہم کسی عزیز کو کھو دیتے ہیں یا جب ہم اپنی زِندگی میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں تو کیا ہم اِن سوالات کے جوابات جاننے کے انتہائی آرزو مند نہیں ہوتے؟

کچھ سالوں کے بعد، میں نے اپنے بھائی کے بارے میں ایک مخصوص انداز میں سوچنا شروع کیا۔ مَیں تصوّر کرتی تھی کہ وہ ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ مَیں دروازہ کھولتی، وہ وہاں کھڑا رہتا، اور مجھ سے کہتا، ”مَیں مُردہ نہیں۔ میں زِندہ ہوں۔ میں آپ کے پاس نہیں آسکتا تھا، لیکن اب میں آپ کے پاس رہوں گا اور کبھی دور نہیں جاؤں گا۔“ اِس تصوّر کی مدد سے، جو میرے لیے تقریباً ایک خواب سا تھا، مجھے اُس درد کا مقابلہ کرنے میں مدد مِلی جو میں نے اُسے کھونے پر محسوس کیا تھا۔ یہ سوچ کہ وہ میرے ساتھ رہے گا بار بار میرے ذہن میں آئی۔ اِس اُمید پہ کہ وہ دستک دے گا اور مَیں اُسے دُوبارہ دیکھوں گی، اکثر مَیں دروازے کو گھورتی رہتی تھی۔

تقریباً چالیس سال بعد، ایسٹر کے موقع پر، یِسُوع مسِیح کی قیامت کے بارے میں غور کرتے ہوئے مَیں نے اپنے بھائی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا تھا۔ اُس وقت، میرے ذہن میں اچانک ایک واضح خیال آیا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے تصوّر کیا کہ وہ مجھے ملنے کے لیے آیا ہے۔

اُس دن مجھے احساس ہوا کہ رُوح نے مجھے مشکل وقت میں اِطمینان بخشا تھا۔ مَیں نے گواہی حاصل کی تھی کہ میرے بھائی کی رُوح مردہ نہیں؛ بلکہ وہ زِندہ ہے۔ وہ اب بھی اپنے اَبَدی وجود میں ترقی کر رہا ہے۔ میں اب جانتی ہوں کہ ”[میرا] بھائِی جی اُٹھے گا“۱۵ اُس عالی شان لمحے میں جب، یِسُوع مسِیح کی قیامت کی بدولت، ہم سب دُوبارہ جی اُٹھیں گے۔ اِس کے علاوہ، اُس نے یہ ممکن بنایا ہے کہ خاندان کی حیثیت سے ہم سب کا دُوبارہ ملن ہو اور ہم خُدا کی حُضُوری میں اَبَدی خوشی پائیں بشرطیکہ ہم اُس کے ساتھ مُقدّس عہُود باندھنے اور اُن پر قائم رہنے کا انتخاب کریں گے۔

صدر نیلسن نے سِکھایا:

”مَوت ہمارے اَبَدی وجود کا ایک لازمی جزو ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ کب واقع ہوگی، لیکن یہ خُدا کے خُوشی کے عظیم منصوبے کا ناگزیر عنصر ہے۔ خُداوند کے کفّارہ کی بدولت، حتمی قیامت ایک حقیقت ہے اور اَبَدی زِندگی تمام بنی نوع انسان کے لیے ایک امکان ہے۔ …

”… زِندہ پیارے غمزدوں کے لیے … موت کے ڈنک سے تشّفی پانا مسِیح پر غیر مذبذب اِیمان، اُمید کی کامل چمک، خُدا اور تمام اِنسانوں کے لیے محبّت، اور اُن کی خدمت کرنے کی گہری خواہش کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ یہی اِیمان، یہی اُمید، یہی محبّت ہمیں خُدا کی مُقدّس حُضُوری میں آنے کا اہل بنائے گی اور، ہم اپنے اَبَدی ساتھیوں اور خاندانوں کے ہمراہ، ہمیشہ اُس کے ساتھ سکونت کریں گے۔“۱۶

شبیہ
باغ برائے قَبر

میں گواہی دیتی ہوں کہ ”اگر مسِیح مُردوں میں سے جی نہ اُٹھتا، یا موت کے بندھن نہ توڑتا اور قبر پر فتح نہ پاتا، اور یہ کہ مَوت کا ڈنک نہ ہوتا تو پھر قیامت نہ ہوتی۔

”لیکن چونکہ قیامت ہے، اِس لیے قبر کو کوئی فتح نہیں، اور مسِیح میں مَوت کا ڈنک مغلوب ہو گیا ہے۔

”وہ دُنیا کا نور اور زِندگی ہے؛ ہاں، نُور جو ختم ہونے کا نہیں ہے، جو کبھی تاریک نہیں ہوتا؛ ہاں، اور زِندگی بھی جو کہ دائمی ہے کہ پھر مَوت نہ ہوگی۔“۱۷

شبیہ
جی اُٹھا مُنجّی

مُنجّی نے خود اعلان کیا، ”قیامت اور زِندگی تو مَیں ہُوں: جو مُجھ پر اِیمان لاتا ہے گو وہ مر جائے تَو بھی زِندہ رہے گا۔“۱۸

مَیں گواہی دیتی ہوں کہ یِسُوع مسِیح کے مخلصی بخش کفّارہ اور جلالی قیامت کی بدولت، شکستہ دِل شفا پا سکتے ہیں، کرب اِطمینان میں، اور سخت اذیت اُمید میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ وہ ہمیں اپنی رحیم، راحت بخش، قادر بازوؤں کی گرفت میں لے سکتا اور ہم میں سے ہر ایک کو شفا دے سکتا ہے۔ یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔

شائع کرنا