ہمارے نجات دہندہ نے ہمارے واسطے کیا کِیا ہے؟
یِسُوع مسِیح نے ہر وہ اَمر انجام دیا ہے جو ہمارے آسمانی باپ کے منصُوبے میں بیان کردہ تقدیر کی جانب فانی زِندگی کے سفر کے دوران میں ہمارے کے لیے ضروری ہے۔
کئی برس پہلے میخ کی مجلِس میں بروز ہفتہ شام کی نِشست، میری مُلاقات ایک ایسی خاتون سے ہُوئی جس نے بتایا کہ اُس کے دوستوں نے کئی برسوں کی عدم فعالیت کے بعد کلِیسیا میں واپس آنے کو کہا تھا، لیکن وہ اِس کا کوئی جواز نہ ڈُھونڈ پائی تھی۔ اِس کی حوصلہ افزائی کے لیے مَیں نے کہا، ”جب آپ اِن سب باتوں پر غَور کریں جو نجات دہندہ نے آپ کے لیے انجام دی ہیں تو، آپ کے پاس واپس آکر اُس کی عِبادت اور اُس کی خدمت کرنے کے بہت سارے جواز ہوں گے۔“ مَیں شُشدر رہ گیا جب اُس نے یہ جواب دیا، ”اُس نے میرے لیے کیا کِیا ہے؟“
یِسُوع مسِیح نے ہم میں سے ہر ایک کے لیے کیا کیا کِیا ہے؟ اُس نے ہر وہ اَمر انجام دیا ہے جو ہمارے آسمانی باپ کے منصُوبے میں بیان کردہ تقدیر کی جانب فانی زِندگی کے سفر کے دوران میں ہمارے کے لیے ضروری ہے۔ مَیں اِس منصُوبے کی چار اہم خُصُوصِیات پر بات کرُوں گا۔ اِن میں سے ہر ایک خُوبی میں اِس کا اِکلوتا بیٹا، یِسُوع مسِیح، مرکزی ہستی ہے۔ سب کو قائل کرنے والی ”خُدا کی محبت ہے جو اپنے آپ بنی آدم کے دِلوں میں سے باہر بہتی ہے؛ پس، یہ سب چِیزوں سے زیادہ دِل کش ہے“ (۱ نیفی ۱۱:۲۲)۔
I۔
اِیسٹر کے اِتوار سے عین قبل، یِسُوع مسِیح کے جی اُٹھنے کی بابت سب سے پہلے بات کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ مُردوں میں سے جی اُٹھنا ہمارے اِیمان کے اِنفرادی ستُون کو تقویت بخشتا ہے۔ یہ ہمارے عقیدے کو معانی، ہمارے کِردار کو ترغیب، اور مُستقبل کو اُمید بخشتی ہے۔
پس ہم بائِبل اور مورمن کی کِتاب کے من و عن ذِکرِ قیامت الیِسُوع مسِیح اِیمان لاتے ہیں، ہم بےشُمار صحیفائی تعلیمات کو بھی قبُول کرتے ہیں کہ اَیسی ہی قیامت اُن تمام فانی اِنسانوں پر آئے گی جو کسی بھی زمانے میں اِس جہاں میں زِندہ رہے ہیں۔۱ جَیسا کہ یِسُوع نے سِکھایا، ”چُوں کہ مَیں جِیتا ہُوں تُم بھی جِیتے رہو گے“ (یُوحنا ۱۴:۱۹)۔ اور اُس کے رسُول نے سِکھایا کہ ”مُردے غَیرفانی حالت میں اُٹھیں گے“ اور ”یہ فانی جِسم بقا کا جامہ پہن چُکے گا“ (۱ کرنتھیوں ۱۵:۵۲، ۵۴)۔
بلکہ قیامت ہمیں اِس امر کی یقین دہانی سے بھی زیادہ عطا کرتی ہے۔ یہ فانی زِندگی کو دیکھنے کا انداز بدل دیتا ہے۔
قیامت ہم میں سے ہر ایک کو اور جن سے ہم پیار کرتے ہیں اُن کو پیش آنے والے سنگین و شدِید مسائل و مصائب کو برداشت کرنے کا نقطہ نظر اور ہمت فراہم کرتی ہے۔ اِس سے ہمیں ہماری پیدایشی یا فانی زِندگی میں درپیش جسمانی، ذہنی، یا جذباتی کمزوریوں اور خامیوں کو دیکھنے کا ایک نیا تناظُر مِل جاتا ہے۔ یہ ہمیں دُکھوں، ناکامیوں اور مایوسیوں کو برداشت کرنے کی طاقت دیتا ہے۔ چُوں کہ ہم میں سے ہر ایک کی قیامت یقینی ہے، ہم جانتے ہیں کہ یہ فانی خامیاں اور عداوتیں صرف عارضی ہیں۔
قیامت ہماری فانی زِندگی کے دوران میں خُدا کے حُکموں پر قائم و دائم رہنے کے لیے ہم میں مضبُوط تمنا بھی پیدا کرتی ہے۔ جب ہم مُردوں میں سے جی اُٹھیں گے اور اپنی نبُوّت کی گئی آخِری عدالت کی طرف بڑھیں گے، تو ہم اُن افضل ترین رحمتوں کو پانے کے لائق بننا چاہتے ہیں جو جی اُٹھی مُخلوق سے وعدہ کی گئی ہیں۔۲
اِس کے علاوہ، قیامت میں اپنے اپنے خاندان کے اَرکان—شوہر، بیوی، بچّے، والدین، اور آل اولاد کے ساتھ ہونے کا موقع بھی شامِل ہو سکتا ہے—فانی زِندگی میں اپنے خاندانی فرائض تکمیل کے لیے قوی حوصلہ افزائی ہے۔ اِس سے ہمیں اِس زندگی میں پیار کے ساتھ مِل جُل کر رہنے میں بھی مدد ملتی ہے اور یہ ہمارے پیاروں کی وفات پر تسلی کا باعث بنتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ فانی جُدائی صرف عارضی ہے، اور ہم آیندہ کے پُرمُسرت میل ملاپ اور اتحاد کے مُنتظِر ہوتے ہیں۔ قیامت ہمیں اُمید اور صبر کرنے کی توفیق دیتی ہے جب ہم اِنتظار کرتے ہیں۔ یہ ہمت اور وقار کے ساتھ اپنی اپنی موت کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار کرتا ہے—یہاں تک کہ اَیسی موت جسے قبل از وقت کہا جاسکتا ہے۔
قیامت کے یہ سارے اثرات اُس سوال کے پہلے جواب کا حِصّہ ہیں ”یِسُوع مسِیح نے میرے لیے کیا کِیا ہے؟“
II۔
ہم میں سے بیشتر کے لیے، یِسُوع مسِیح کے کَفّارہ کا اہم مطلب ہمارے گُناہوں کی مُعافی پانے کا موقع ہے۔ عِبادت کے دوران میں، ہم تعظیم کے ساتھ گاتے ہیں:
اپنا قیمتی خُون بہایا اپنی مرضی سے؛
اپنی جاں نِثار کردی اپنی مرضی سے،
گُناہ کے بدلے بےگُناہ قُربان ہُوا اپنی مرضی سے،
مرتی دُنیا کو بچانے آیا اپنی مرضی سے۔۵
ہمارے نجات دہندہ اورمُخلصی دینے والے نے ناقابل فہم مصائب و الم کو برداشت کِیا تاکہ وہ اُن سب اِنسانوں کے گُناہوں کے لیے قُربانی بن جائے جو توبہ کریں گے۔ اِس کَفّارے کی قُربانی کے لیے سب سے زیادہ افضل و برتر پیش کِیا گیا، بے عَیب اور بے داغ برّہ، سب سے زیادہ سُفلی بُرائی، سارے جہان کے گُناہوں کو اُٹھانے کے واسطے۔ اُس نے ہم میں سے ہر ایک کی خاطر اپنے اپنے اِنفرادی گُناہوں سے پاک ہونے کے واسطے دروازہ کھول دیا تاکہ ہم خُدا، اپنے ابدی باپ کے حُضُور پیش کیے جا سکیں۔ یہ کُھلا دروازہ خُدا کی ساری اُمتوں کے واسطے ہے۔ عِبادت کے وقت، ہم گاتے ہیں:
تعجُب ہے کہ وہ اپنے تختِ اِلہیٰ سے اُترے گا
اِک جان کو بچانے مُجھ جَیسی سرکش اور مغرور،
کہ وہ اپنی محبت کو مُجھ جَیسوں تک پہنچا دے۔۴
یِسُوع مسِیح کے کَفّارے کی افضل اور سمجھ سے باہر تاثِیر کا دارومدار ہم میں سے ہر ایک کے لیے خُدا کی محبت پر ہے۔ یہ اُس کے فرمان کی توثیق ہے کہ ”جانوں کی قدروقیمت“—ہر ایک کی—”بڑی عظیم ہے۔“ (عقائد اور عہُود ۱۸:۱۰)۔ یِسُوع مسِیح نے کلامِ مُقدّس میں اِس کی وضاحت ہمارے آسمانی باپ کی محبت کی بُنیادوں پر فرمائی ہے: ”کِیُوں کہ خُدا نے دُنیا سے اَیسی محبّت رکھّی کہ اُس نے اپنا اِکلَوتا بَیٹا بخش دِیا تاکہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زِندگی پائے“ (یُوحنا ۳:۱۶)۔ جدید مُکاشفہ میں ہمارے نجات دہندہ یِسُوع مسِیح نے فرمایا کہ اُس ”نے دُنیا سے اِتنا پیار کِیا کہ اپنی جان دے دی، تاکہ جِتنے بھی اُس پر اِیمان لائیں، خُدا کے فرزند بنیں“ (عقائد اور عہُود ۳۴:۳)۔
پھر کیا تعجب کی بات ہے کہ ”مسِیح کا ایک اور عہد نامہ“، مورمن کی کِتاب، اِس تعلیم کے ساتھ مکمل ہوئی ہے کہ ”کامِل“ بننے اور ”مسِیح میں تقدیس پذیر“ ہونے کے لیے، ہمیں ”[اپنی] ساری جان ساری عقل اور طاقت کے ساتھ خُدا سے محبت کرنا ہے“؟ (مرونی ۱۰:۳۲–۳۳)۔ اُس کا منصُوبہ محبت سے بُنا گیا ہے ضرور ہے کہ محبت سے قبُول کِیا جائے۔
III.
ہمارے نجات دہندہ یِسُوع مسِیح نے ہمارے واسطے اور کیا کیا کِیا ہے؟ اپنے نبیوں کی تعلیمات اور اپنی شخصی خِدمت کے وسِیلے سے، یِسُوع نے ہمیں نجات کا منصُوبہ سِکھایا۔ اِس منصُوبے میں تخلیق، مقصدِ حیات، حریف کی ضرورت، اور اِرادے کی نعمت شامِل ہے۔ اُس نے ہمیں وہ اَحکام اور عہُود بھی سِکھائے جن کی فرماں برداری ہم پر فرض ہے اور ہمیں اَیسی رُسُوم میں سے گُزرنا ہے جو ہمیں ہمارے آسمانی والدین کے پاس واپس لے جاتی ہیں۔
کلامِ مُقدّس میں ہم اُس کی تعلیم کا مُطالعہ کرتے ہیں: ”دُنیا کا نُور مَیں ہُوں: جو میری پَیروی کرے گا وہ اَندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زِندگی کا نُور پائے گا“ (یُوحنّا ۸:۱۲)۔ اور جدید مُکاشفہ میں ہم پڑھتے ہیں، ”دیکھ، مَیں یِسُوع مسِیح ہُوں، … نُور جِس کو تارِیکی میں چھپایا نہیں جا سکتا“ (عقائد اور عہُود ۱۴:۹)۔ اگر ہم اُس کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں تو، وہ اِس زِندگی میں ہمارا راہ روشن کرتا ہے اور اِس سے اَگلی میں ہمارے مُقدر کی یقین دہانی کراتا ہے۔
چُوں کہ وہ ہم سے پیار کرتا ہے، لہذا وہ ہمیں قائل کرتا ہے کہ ہم اِس فانی دُنیا کی باتوں کی بجائے اُس پر دھیان دیں۔ زِندگی کی روٹی پر اپنے اعلیٰ و اَرفع وعظ میں، یِسُوع نے سِکھایا کہ ہمیں دُنیا کی چِیزوں کی طرف راغب ہونے والے افراد میں شامِل نہیں ہونا چاہیے—اَیسی چیزیں جو زمین پر زِندگی کو برقرار رکھتی ہیں لیکن اَبَدی زِندگی کے لیے کوئی غذا نہیں فراہم نہیں کرتی ہیں۔۵ جَیسا کہ یِسُوع نے بار بار ہمیں دعوت دی، ”میرے پیچھے چلو۔“۶
IV۔
آخِر میں، مورمن کی کِتاب سِکھاتی ہے کہ اُس کے کَفّارے کے حصِّے کے طور پر یِسُوع مسِیح نے ”ہر قسم کی تکلیفوں اور مصیبتوں اور آزمایشوں کو برداشت [کِیا]، اور یہ اِس لیے ہُوا تاکہ وہ جو کہا گیا ہے پُورا ہو کہ وہ اپنے لوگوں کی تکلیفیں اور بیماریاں اپنے اُوپر لے لے گا“ (ایلما ۷:۱۱)۔
ہمارے نجات دہندہ نے ”ہر طرح کے“ اِن فانی مصائب کو برداشت کیوں کِیا؟ ایلما نے وضاحت فرمائی، ”اور وہ اُن کی کم زوریاں اپنے پر لے لے گا، تاکہ جسم سے اعتبار سے، اُس کے پیالے رحم سے لبریز ہوں، تاکہ وہ بشری اعتبار سے جانے کہ اپنے لوگوں کی اُن کی کمزوریوں میں [جس سے مُراد ہے شِفا یا تسلی دینا] کیسے مدد کرے“ (ایلما ۷:۱۲)۔
ہمارا نجات دہندہ ہماری آزمایشوں، ہماری مُشکلوں، ہمارے غموں، اور ہمارے دکھوں کو محسوس کرتا ہے اور جانتا ہے، کیوں کہ اُس نے اپنے کَفّارہ کے حِصّے کے طور پر اُن سب کا دیدہِ دلیری سے سامنا کیا۔ دیگر صحائف اِس کی توثیق کرتے ہیں۔ عہدِ جدید بیان کرتا ہے، ”کیوں کہ جِس صُورت میں اُس نے خُود ہی آزمایش کی حالت میں دُکھ اُٹھایا تو وہ اُن کی بھی مدد کر سکتا ہے جِن کی آزمایش ہوتی ہے“ (عِبرانیوں ۲:۱۸)۔ یسعیاہ سِکھاتا ہے، ”تُو مت ڈر؛ کیوں کہ مَیں تیرے ساتھ ہُوں: … مَیں تُجھے زور بخشُوں گا، مَیں یقِیناً تیری مدد کرُوں گا“ (یسعیاہ ۴۱:۱۰)۔ ہر وہ شخص جو کسی بھی طرح کی فانی بیماریوں کا شِکار ہے وہ یاد رکھے کہ ہمارے نجات دہندہ نے بھی اِس طرح کے دُکھ کا سامنا کیا ہے، اور یہ کہ وہ اپنے کَفّارہ کے وسِیلے سے ہم میں سے ہر ایک کو اَیسا برداشت کرنے کی ہمت فراہم کرتا ہے۔
نبی جوزف سمتھ نے اِس ساری بات کا خُلاصہ ہمارے ِاِیمان کے تِیسرے رُکن میں کِیا ہے: ”ہم اِیمان لاتے ہیں کہ اِنجِیل کے قوانین اور رُسُوم کی فرمان برداری سے، کُل بنی نوع اِنسان مسِیح کے کفّارہ کے وسیلےسے نجات پائے گی۔“
اُس بہن نے پُوچھا، ”میرے لیے یِسُوع مسِیح نے کیا کِیا ہے؟“ آسمانی باپ کے منصُوبے کے تحت، اُس نے ”اَفلاک اور اِس دُنیا کو خلق کیا“ (عقائد اور عہُود ۱۴:۹) تاکہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے اپنے دائمی مُقدر کو پانے کے لیے اِس فانی زِندگی کے ضروری تجربے سے گُزر سکے۔ باپ کے منصُوبے کا حِصّہ ہوتے ہُوئے، یِسُوع مسِیح کے جی اُٹھنے سے موت پر قابو پالیا گیا تاکہ ہم میں سے ہر ایک کو لافانی بنایا جا سکے۔ یِسُوع مسِیح کے کَفّارہ کی قُربانی ہم میں سے ہر ایک کو اپنے گُناہوں سے توبہ کرنے اور اپنے آسمانی گھر واپس جانے کے واسطے پاک صاف ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اُس کے احکام اور عہُود ہمیں راستہ دِکھاتے ہیں، اور اُس کی کہانت اُن رُسُوم کو اَدا کرنے کا اختیار بخشتی ہے جو اُس مُقدر تک پہنچنے کے لیے ضروری ہیں۔ اور ہمارے نجات دہندہ نے رضا مندی سے سب بشری دُکھوں اور کم زوریوں کا تجربہ کیا اِس لیے وہ جانتا ہے کہ کس طرح ہمیں ہماری مُصِیبتوں میں تقویت دینا ہے۔
یِسُوع مسِیح نے یہ سب کچھ اِس لیے کیا کیوں کہ وہ خُدا کی ساری اُمتوں سے پیار کرتا ہے۔ محبت اِن سب کے لیے ترغیب ہے، اور اَیسا اَزل ہی سے ہُوا تھا۔ خُدا نے جدید مُکاشفہ میں ہمیں بتایا ہے کہ اُس نے … نَر اور ناری، اپنی صُورت پر اُس نے بنایا … ؛ اور اُن کو اَحکام دیے کہ وہ اُس سے محبّت رکھیں اور اُس کی خدمت کریں (عقائد اور عہُود ۲۰:۱۸–۱۹)۔
مَیں اِن سب باتوں کی گواہی دیتا ہُوں اور دُعا کرتا ہوں کہ ہم سب کو یہ یاد رہے کہ ہمارے نجات دہندہ نے ہم میں سے ہر ایک کے لیے کیا کیا کِیا ہے اور ہم سب اِس سے محبت اور اِسی کی خِدمت کریں گے، یِسُوع مسِیح نام پر، آمین۔