”مَیں ہی ہُوں“
مسِیح کی محبّت—اِلہٰی منشا سے کامِل وفا کا ثبُوت—ثابت قدم تھی اور پیہم ثابت قدم ہے۔
یہ سبت کا دِن ہے، اور ہم مسِیح اور اُس کی مصلُوبیت پر بات کرنے کے لِیے جمع ہُوئے ہیں۔ مَیں جانتا ہُوں کہ میرا مُنّجی زندہ ہے۔
یِسُوع کی فانی زِندگی کے آخِری ہفتے کے اِس منظر پر غَور کریں۔ لاٹھیوں سے لیس اور تلواروں سے لیس رومی سپاہیوں سمیت بھِیڑ جمع تھی۔ سردار کاہنوں کے نوکروں کی قیادت میں جِن کے ہاتھوں میں مشعلیں تھیں، یہ مُہم جُو قافلہ کسی شہر کو فتح کرنے نہیں نِکلا تھا۔ آج رات وہ فقط ایک شخص کی تلاش میں نِکلے تھے، اُس شخص کی تلاش میں جِس نے نہ کبھی ہتھیار اُٹھایا تھا، نہ فَوجی تربیت پائی تھی، اور نہ ساری عُمر کسی لڑائی میں ملوث ہُوا تھا۔
جُوں ہی سِپاہی قریب آئے، یِسُوع اپنے شاگِردوں کو بچانے کی کوشش میں آگے بڑھا اور کہا، ”تُم کِسے ڈُھونڈتے ہو؟“ اُنھوں نے جواب دِیا، ”یِسُوع ناصری کو۔“ یِسُوع نے کہا، ”مَیں ہی ہُوں۔ … اُس کے … کہتے ہی کہ مَیں ہی ہُوں وہ پِیچھے ہٹ کر زمِین پر گِر پڑے۔“
میرے نزدیک، یہ سارے صحائف میں سب سے زیادہ بےدار کرنے والی آیات میں سے ایک ہے۔ دُوسری باتوں کے علاوہ، یہ مُجھے صاف صاف بتاتی ہے کہ خُدا کے بیٹے کی حُضُوری میں ہونے سے ہی—عہدنامہِ عتِیق کا قادِرِ مُطلق یہوواہ اور جدِید کا اچھا چرواہا، جِس کے پاس کسی قسِم کا کوئی ہتھیار نہیں ہے—بلکہ، سلامتی کے اِس شاہ زادہ کی، طُوفان میں سے اِس پناہ گاہ کی آواز کو سُننے سے ہی، مُخالفین کو ٹھوکریں کھلا کر پیچھے ہٹانا کافی ہے، اُن کا گھبرا کر ایک دُوسرے کے اُوپر ڈھیر ہونا اور پُوری پلٹن کا یہ خواہش کرنا کہ کاش اُس رات اُن کی ڈیوٹی باورچی خانے میں لگی ہوتی۔
صرف چند دِن پہلے، جب وہ شاہانہ انداز سے شہر میں داخل ہُوا تھا، ”تو سارے شہر میں ہل چل پڑ گئی تھی،“ پاک کلام کہتا ہے، لوگ کہنے لگے ”یہ کون ہے؟“ مَیں صرف سوچ سکتا ہُوں کہ ”یہ کون ہے؟“ کا یہی سوال اب وہ پریشان حال سپاہی پُوچھ رہے تھے!
اِس سوال کا جواب اُس کی شکل و صُورت میں نہیں ہو سکتا تھا، پَس یسعیاہ نے کوئی سات صدیاں پہلے پیشین گوئی کی تھی کہ ”نہ اُس کی کوئی شکل و صُورت ہے نہ خُوب صُورتی اور جب ہم اُس پر نِگاہ کریں تو کُچھ حُسن و جمال نہیں کہ ہم اُس کے مُشتاق ہوں۔“ یہ یقینی طور پر نہ اُس کی نفِیس کپڑوں کی الماری میں تھا نہ اُس کی ذاتی کثرتِ مال و دولت میں، چُوں کہ اُس کے پاس کُچھ بھی نہیں تھا۔ یہ مقامی عِبادت خانوں میں کسی پیشہ ورانہ تربیت سے نہیں ہو سکتا کیوں کہ ہمارے پاس اِس بات کا کوئی ثبُوت نہیں ہے کہ اُس نے کبھی اُن میں سے کسی میں تعلِیم حاصل کی ہو، حالاں کہ اپنی نوعُمری میں بھی اُن عالم فاضل شرع کے عالموں اور فِقہیوں کو لاجواب کر سکتا تھا، اُن کو حیرت میں ڈال دیتا تھا کیوں کہ وہ ”صاحِبِ اِختیار کی طرح اُن کو تعلِیم دیتا تھا۔“
ہیکل میں اُس تعلیم سے لے کر یروشلِیم میں اُس کے فاتحانہ داخلے تک اور بالآخِر، بلاجواز گرفتاری تک، یِسُوع کو معمُول کے مُطابق مُشکل، اکثر مُصِیبت زدہ حالات میں رکھا گیا تھا جِس میں وہ ہمیشہ فتح یاب رہا—ایسی فتوحات جِن کی ہمارے پاس اِلہٰی ڈی این اے کے علاوہ کوئی وضاحت نہیں ہے۔
پھر بھی تاریخ میں بُہت سے لوگوں نے آسان بنایا ہے، یعنی اُس کے بارے میں ہمارا تصُّور اور اُس کے گواہ کو معمولی بنا دیا ہے کہ وہ کون تھا۔ اُنھوں نے اُس کی راست بازی کو محض پرہیزگاری، اُس کے اِنصاف کو محض قہر، یا اُس کی رحمت کو محض صرف جواز بنا دِیا ہے۔ ہمیں اُس کے کسی بھی اَیسے ادنیٰ تصُّورات کا قصُوروار نہیں ہونا چاہیے جو اَیسی تعلیمات کو آسانی سے نظر انداز کر دیتے ہیں جو ہمیں ناگوار لگتی ہیں۔ یہ واقعی حقِیقت ہے اُس کی عالی قُدرت کو جو دائمی محبّت کی تعریف ہے اُس کو ”گُونگا“ کِیا جا رہا ہے۔
اپنی فانی خِدمت کے دوران میں، یِسُوع نے سِکھایا کہ دو بڑے عظیم حُکم ہیں۔ اُنھیں اِس مجلِس میں سِکھایا گیا ہے اور ہمیشہ سِکھایا جائے گا: ”خُداوند اپنے خُدا سے محبّت رکھ [اور] اپنے پڑوسِی سے اپنے برابر محبّت رکھ۔“ اگر ہم نجات دہندہ کی وفاداری کے ساتھ اِن دو اہم اور جُڑواں اُصُولوں کی تقلِید کرتے ہیں، تو ہمیں اِس بات کو مضبُوطی سے پکڑنا چاہیے جو اُس نے واقعی فرمائی ہے۔ اور جو بات واقعی اُس نے کہی تھی، ”اگر تُم مُجھ سے محبت رکھتے ہو، تو میرے حُکموں پر عمل کرو۔“ اُسی شام، اُس نے کہا کہ ہم ”ایک دُوسرے سے محبّت رکھیں؛ جِس طرح مَیں نے تُم سے محبّت رکھی۔“
اُن صحیفوں میں، یہ معرُوف آیات، مانِندِ مسِیح جَیسے پیار کی سچّائی کو بیان کرتی ہیں—جِس کو بعض اوقات محبّت کہا جاتا ہے—جو اِنتہائی ضرُوری ہیں۔
وہ کیا واضح کرتی ہیں؟ یِسُوع نے کیسے محبّت کی؟“
پہلے، اُس نے ”[اپنے] سارے دِل، ساری جان، ساری عقل، اور ساری طاقت سے“ محبّت کی، جِس نے اُس کو گہرے صدمہ کو شِفا دینے اور کڑوا سچّ بولنے کی صلاحیت دی۔ مُختصراً، وہ واحد ہستی ہے جو فضل عطا کر سکتی ہے اور بیک وقت سچّائی کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ جب لِحی نے اپنے بیٹے یعقُوب کو برکت دیتے ہُوئے کہا، ”مُخلصی پاک مَمسُوح میں اور اُس کے وسِیلے سے آتی ہے؛ کیوں کہ وہ فضل اور سچّائی سے مَعمُور ہے۔“ اُس کی محبّت ضرُورت پڑنے پر گلے لگا کر ہمت دیتی اور جب کڑوا پیالہ پِینا پڑ جائے تو حوصلہ دیتی ہے۔ لہٰذا ہم محبّت کرنے کی کوشش کریں—اپنے سارے دِل، ساری جان، ساری عقل، اور ساری طاقت سے—کیوں کہ وہ ہم سے اِسی طرح محبّت کرتا ہے۔
یِسُوع کے عِشقِ اِلہٰی کی دُوسری خصُوصیت خُدا کے مُنہ سے نِکلی ہُوئی ہر بات میں اُس کی تابع داری تھی، ہمیشہ اپنی مرضی اور روّیے کو اپنے آسمانی باپ کی مرضی کے ساتھ ہم آہنگ کرنا تھی۔
جب وہ اپنے جی اُٹھنے کے بعد مغربی کُرہِ ارض پر پُہنچا، تو مسِیح نے بنی نِیفی سے کہا: ”دیکھو، مَیں یِسُوع مسِیح ہُوں۔ … مَیں نے اُس تلخ پیالہ میں سے پِیا ہے جو باپ نے مُجھے دِیا، … مَیں نے اَزل سے … باپ کی مرضی پُوری کی ہے۔“
وہ بے شُمار طریقوں سے اپنے آپ کو متعارُف کرا سکتا تھا، لہٰذا یِسُوع نے باپ کی مرضی کے مُطابق اپنی فرمان برداری کا اِعلان کرتے ہُوئے اَیسا کِیا—اِس کے باوجُود کہ زیادہ دیر نہیں ہُوئی تھی اُس کی سب سے بڑی مُصِیبت کی گھڑی میں، خُدا کے اِس اِکلوتے بیٹے نے محسُوس کِیا کہ اُس کے باپ نے اُسے بالکُل چھوڑ دیا تھا۔ مسِیح کی محبّت—اِلہٰی منشا کے لِیے کامِل وفا کا ثبُوت—ثابت قدم تھی اور پیہم ثابت قدم ہے، نہ صِرف آسان اور پُرسکُون دِنوں میں بلکہ خاص طور پر سِیاہ ترین اور دُشوار ترین دِنوں میں بھی۔
یِسُوع ”مردِ غم ناک،“ تھا صحائف کہتے ہیں۔ اُس نے اُداسی، تھکان، مایُوسی، اور ظالم تنہائی کو برداشت کِیا۔ اِن لمحات میں اور ہر وقت، یِسُوع کی محبّت کو زوال نہیں، اور نہ ہی اُس کے باپ کی محبّت کو۔ اَیسی پختہ، سچّی محبّت کے ساتھ—اَیسی قِسم جو مثال دیتی ہے، بااِختیار بناتی ہے، اور عطا کرتی ہے—ہماری محبّت کو بھی زوال نہیں ہوگا۔
لہذا، اگر کبھی کبھی آپ جتنی سخت کوشش کرتے ہیں، اتنا ہی پانا مُشکل لگتا ہے؛ اگر، جس طرح آپ اپنی مجبُوریوں اور کوتاہیوں پر کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کوئی شخص یا کوئی شَے آپ کے دین پر اعتراض کرنے کے لِیے پُر عزم ہے؛ چُناں چہ، جب آپ لگن سے محنت کرتے ہیں، پھر بھی آپ پر خَوف کے لمحات طاری ہوتے ہیں، تو یاد رکھیں کہ ہر دَور میں بعض عالی قدر بااِیمان لوگوں کے ساتھ بھی اَیسا ہوتا رہا ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ کائنات میں اَیسی طاقت ہے جو آپ کی ہر اچھی چیز کی مُخالفت کرنے کے لیے بضد ہے۔
لہٰذا، فراونی کے ساتھ ساتھ غُربت کے ذریعے سے، اِنفرادی توصیف کے ساتھ ساتھ عوامی تنقید کے ذریعے سے، بحالی کے اِلہٰی امُور کے ساتھ ساتھ اِنسانی کم زوریوں کے ذریعے سے جو لامحالہ اِس کا حِصّہ ہوں گے، ہم مسِیح کی سچّی کلِیسیا کے ساتھ اِسی راستے پر چلتے رہیں گے۔ کیوں؟ گویا جِس طرح ہمارے نجات دہندہ کے ساتھ ہے، ہم نے بھی پُوری مُدت کے لیے داخلہ لِیا ہے—جِس کا خاتمہ اِبتدائی چھوٹے سے تعارفی کوئز سے نہیں ہوتا بلکہ آخِری بڑے اِمتحان تک ہے۔ اِس میں خُوشی کی بات یہ ہے کہ ہیڈ ماسٹر نے کورس شرُوع ہونے سے پہلے ہم سب کو کُھلی کتابوں سے جوابات بتا دِیے ہیں۔ مزید برآں، ہمارے پاس بُہت سارے ٹیوٹرز ہیں جو دورانِ کورس ہمیں وقتاً فوقتاً اِن جوابات کو یاد کراتے ہیں۔ اَلبتہ یقیناً، اِن میں کُچھ بھی قابلِ عمل نہ ہوگا اگر ہم کلاس سے غیر حاضر رہتے ہیں۔
”تُم کِسے ڈھونڈتے ہو؟“ پُورے دِل کے ساتھ ہم جواب دیں، ”یِسُوع ناصری کو۔“ جب وہ کہے کہ، ”مَیں ہی ہُوں،“ ہم اپنے گھٹنے ٹیکیں اور اپنی زبان سے اِقرار کریں کہ وہ زِندہ مسِیح ہے، کہ اُس نے تن تنہا ہمارے گُناہوں کا کفّارہ دِیا ہے، کہ وہ ہمیں اُس وقت بھی سہارا دے رہا تھا جب ہم سوچتے تھے کہ اُس نے ہمیں چھوڑ دِیا ہے۔ جب ہم اُس کے حُضُور کھڑے ہوں گے اور اُس کے ہاتھوں اور پیروں کے زخم دیکھیں گے، تو ہم یہ سمجھنا شرُوع کر دیں گے کہ اُس کے لیے ہمارے گُناہوں کو برداشت کرنے اور غم سے آشنا ہونے، اپنے باپ کی مرضی کا کامِل فرمان بردار ہونے کا کیا مطلب تھا—ہمارے واسطے سچّے عِشق کی خاطر۔ دُوسروں کو اِیمان، تَوبہ، بپتِسما، رُوحُ القُدس کی نعمت، اور خُداوند کے گھر میں ہماری مُقدّس برکات پانے سے متعارف کرانا—یہ بُنیادی ”اُصُول اور رُسُوم“ ہیں جو بالآخر خُدا اور پڑوسی سے ہماری محبّت کو ظاہر کرتے ہیں اور مسِیح کی سچّی کلِیسیا کو شادمانی سے نمایاں کرتے ہیں۔
بھائیو اور بہنو، مَیں گواہی دیتا ہُوں کہ کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسِینِ آخِری ایّام وہ وسِیلہ ہے جو خُدا نے ہماری سرفرازی کے لِیے مُہیا کِیا ہے۔ جو اِنجِیل سِکھاتی ہے وہ سچّ ہے، اور جو کہانت جائز ٹھہراتی ہے غیر ماخوذ ہے۔ مَیں گواہی دیتا ہُوں کہ رسل ایم نیلسن ہمارے خُدا کا نبی ہے، جِس طرح اُس کے پیشرو تھے اور جَیسے اُس کے جانشین ہوں گے۔ اور ایک دِن وہ نبُوّتی ہدایت ایک نسل کی قیادت کرے گی جو ہمارے نجات کے پیام بر کو جَیسے ”بِجلی پُورب سے کَوند کر …آتی ہے،“ اُترتا ہُوا دیکھنے کے لیے تیار ہو گی اور ہم خُوشی سے چِلائیں گے، ”یِسُوع ناصری۔“ ہمیشہ کے لیے بازو پھیلا کر اور سچّی محبّت کے ساتھ، وہ جواب دے گا، ”مَیں ہی ہُوں۔“ مَیں اُس کی رسُولی قُدرت اور اِختیار سے وعدہ کرتا ہُوں، اُس کے مُقدّس نام، یعنی یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔