اپنے باپ پر توّکل کرنا
خُدا ہم پر بھروسا کرتا ہے کہ ہم بُہت سے اَہم فیصلے خُود کریں اور ہر مُعاملے میں، وہ یہی چاہتا ہے کہ ہم اُس پر توّکل کریں۔
یکم جُون، 1843 کو، ایڈیسن پریٹ نے جو ایلانوئے کے شہر ناوُوہ سے، ہوائی جزائر میں اِنجِیل کی مُنادی کے لیے روانہ ہُوا، اپنی اہلیہ، لوئیسا بارنز پریٹ، کو اپنے چھوٹے بچّوں کی دیکھ بھال کی ذِمہ داری سونپی۔
جب ناوُوہ میں، ظُلم و سِتم کی شِدت بڑھ گئی، جِس کے باعث مُقدّسین کو وہاں سے نِکلنے پر مجبُور ہونا پڑا، اور بعد میں وِنٹر کوارٹرز میں جب وہ سالٹ لیک وادی کی طرف ہجرت کرنے کی تیاری کر رہے تھے، تو لوئیسا کو فیصلہ کرنا تھا کہ آیا سفر پر جانا ہے یا نہیں۔ اکیلے سفر پر جانے کی بجائے لوئیسا اور اُس کے بچّوں کا وہیں ٹھہرنا اور ایڈیسن کی واپسی کا اِنتظار کرنا آسان ہوتا۔
دونوں مواقعوں پر، اُس نے نبی، بریگھم ینگ سے راہ نُمائی طلب کی، جِس نے اُسے جانے کی ترغیب دی۔ بڑی دُشواریوں اور اپنی ذاتی ہچکچاہٹ کے باوجُود، اُس نے ہر بار کامیابی کے ساتھ سفر مُکمل کِیا۔
اِبتدا میں، لوئیسا کو سفر کرنے میں بُہت کم خُوشی محسُوس ہُوئی۔ تاہم، جلد ہی اُس نے سبز میدان کی گھاس، رنگ برنگے جنگلی پھُولوں، اور دریا کے کِناروں پر موجُود زمین کے ٹُکڑوں کا خیر مَقدم کرنا شُروع کر دِیا۔ ”میرے ذہن کی تاریکی رفتہ رفتہ چھٹنے لگی،“ اُس نے لِکھا، ”اور پُورے قافلے میں مُجھ سے زیادہ خُوش طبع عورت کوئی نہ تھی۔“
لوئیسا کی داستان نے مُجھے گہرا مُتاثر کِیا ہے۔ مَیں اُس کی اِس آرزُو کو سراہتا ہُوں کہ اُس نے اپنی ذاتی ترجیحات کو پسِ پُشت ڈالا، اُس کی خُدا پر توّکل کرنے کی صلاحیت کو، اور کس طرح اُس نے اپنے اِیمان کو برُوئے کار لاتے ہُوئے صُورتِ حال کو نئے زاویے سے دیکھنے میں مدد پائی۔
اُس نے مُجھے یاد دِلایا ہے کہ آسمان پر ہمارا پیار کرنے والا باپ موجُود ہے، جو ہم جہاں کہیں بھی ہوں ہماری پرواہ کرتا ہے، ہم اُس پر کسی بھی اور چِیز یا ہستی سے زیادہ توّکل کر سکتے ہیں۔
سچّائی کا سَرچشمہ
خُدا ہم پر بھروسا کرتا ہے کہ ہم بُہت سے اَہم فیصلے خُود کریں، اور ہر مُعاملے میں وہ یہی چاہتا ہے کہ ہم اُس پر توّکل کریں۔ یہ بالخصُوص تب مُشکل ہوتا ہے جب ہمارا فیصلہ یا عوامی رائے اپنی اُمّت کے لیے اُس کی مَنشا سے مُختلف ہو۔
بعض لوگ تجویز دیتے ہیں کہ ہمیں صحیح اور غلط کے درمیان حدوں کو دوبارہ کھینچنا چاہیے کیوں کہ وہ کہتے ہیں کہ سچّائی اِضافی ہے، سچّائی کا تعیُن ہم خُود کرتے ہیں، یا خُدا اِتنا مہربان ہے کہ وہ واقعی ہمارے اعمال کی پرواہ نہیں کرتا۔
جب ہم خُدا کی مرضی کو سمجھنے اور قبُول کرنے کے مُشتاق ہوتے ہیں، تو یہ یاد رکھنا مددگار ہے کہ صحیح اور غلط کی حدیں طے کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔ خُدا نے ہمارے فائدے اور برکت کے لیے، اَبَدی سچّائیوں کی بُنیاد پر، اِن حدوں کو خُود قائم کِیا ہے۔
خُدا کی اَبَدی سچّائیوں کو بدلنے کی حسرت کی تارِیخ طویل ہے۔ یہ بِنائے عالم سے پیشتر شُروع ہُوئی تھی، جب شیطان نے خُود غرضی سے اِنسان کی مُختاری کو غرق کرنے کی کوشِش میں، خُدا کے منصُوبے کے خِلاف بغاوت کی۔ اِسی نقشِ قدم پر چلتے ہُوئے، شیرم، نحور اور قوریحر جَیسے لوگوں نے یہ دلیل پیش کی، کہ اِیمان بے وقُوفی ہے، مُکاشفہ بے معنی ہے، اور جو کُچھ بھی ہم کرنا چاہیں وہی دُرست ہے۔ اَفسوس، کہ اکثر خُدا کی سچّائی سے مُنہ موڑنا شدِید رنج و اَلم کا باعث بنا ہے۔
اگرچہ بعض چِیزیں سیاق و سباق پر مُنحصر ہو سکتی ہیں، مگر ہر چِیز میں اَیسا نہیں ہے۔ صدر رسل ایم نیلسن نے بارہا سِکھایا ہے کہ خُدا کی نجات بخش سچّائیاں اَٹل، خُود مُختار، اور خُود خُدا کی طرف سے طے شُدہ ہیں۔
ہمارا اِنتخاب
یہ اِنتخاب کہ ہم کس پر توّکل کرتے ہیں زِندگی کے اَہم ترین فیصلوں میں سے ایک ہے۔ بنیامین بادِشاہ نے اپنی اُمّت کو ہدایت دی کہ، ”خُدا پر اِیمان لاؤ؛ اِیمان لاؤ کہ وہ ہے … ، اِیمان لاؤ کہ ساری حِکمت اُس کے پاس ہے … ، اِیمان لاؤ کہ اِنسان اُن سب باتوں کو نہیں سمجھ پاتا جنھیں خُداوند سمجھ سکتا ہے۔“
خُوش قِسمتی سے، ہمارے پاس صحائف اور زِندہ نبیوں کی راہ نُمائی موجُود ہے جس سے ہمیں خُدا کی سچّائی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اگر ہمیں اِس سے زیادہ وضاحت دَرکار ہو تو، خُدا اپنے نبیوں کے ذریعے سے اِسے فراہم کرتا ہے۔ اور جب ہم اُن سچّائیوں کو سمجھنے کے خواہاں ہوتے ہیں جنھیں ہم اَبھی پُوری طرح سے نہیں سمجھتے تو وہ ہماری مُخلصانہ دُعاؤں کا جواب رُوحُ القُدس کے وسِیلے سے دے گا۔
ایلڈر نیل ایل اینڈرسن نے ایک بار یہ تعلیم دی کہ ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے ”اگر بعض اوقات [ہمارے] ذاتی خیالات اِبتدا میں خُدا کے نبی کی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ یہ سِیکھنے کے لمحات ہیں،“ اُنہوں نے کہا، ”فروتنی کے لمحات، جب ہم دُعا کے لیے اپنے گھُٹنے ٹیکتے ہیں۔ دَراصل، ہم اِیمان کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں، اور خُدا پر توّکل کرتے ہیں، اِس یقین کے ساتھ کہ وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے آسمانی باپ سے زیادہ واضح رُوحانی عِلم پائیں گے۔“
ہر وقت، یہ یاد رکھنا مُفید ہے کہ ایلما کی تعلیم کے مُوافق، خُدا اپنا کلام اُس توجہ اور مُستعدی کے مُطابق عطا کرتا ہے جو ہم اُس کے لیے وقف کرتے ہیں۔ اگر ہم خُدا کے کلام پر دھیان دیتے ہیں، تو ہمیں مزید مِلے گا؛ اگر ہم اُس کی نصیحت کو نظرانداز کرتے ہیں، تو ہمیں کم سے کم مِلے گا یہاں تک کہ کُچھ بھی نہ رہے گا۔ عِلم کے اِس خسارے کا یہ مطلب نہیں کہ سچّائی غلط تھی؛ بلکہ، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم اِس کو سمجھنے کی صلاحیت کھو چُکے ہیں۔
مُنّجی کی طرف دیکھیں
کفرنحُوم میں، نجات دہندہ نے اپنی پہچان اور مقصد کی بابت سِکھایا۔ بُہت سے لوگوں نے اُس کے کلام کو سُننا مُشکل سمجھا، جِس کی وجہ سے بُہتیرے اُلٹے پھر گئے اور ”اِس کے بعد اُس کے [ساتھ] نہ رہے۔“
وہ کیوں اُس کے ساتھ نہ رہے؟
چُوں کہ اُنھیں اُس کی باتیں پسند نہ آئیں۔ لہٰذا، اپنے فیصلے پر بھروسا کرتے ہُوئے، وہ چلے گئے، اور اُن نعمتوں سے محرُوم ہو گئے جو اُنھیں حاصِل ہو سکتیں تھیں اگر وہ رُکے رہتے۔
اَبَدی سچّائی اور ہمارے درمیان میں ہمارے تکبُر کا آنا آسان ہے۔ جب ہم سمجھ نہیں پاتے، تو ہم تھوڑی دیر رُک سکتے ہیں، اپنے جذبات کو ٹھنڈا ہونے دیں، اور پھر فیصلہ کریں کہ کس طرح جواب دینا ہے۔ نجات دہندہ نے ہمیں تاکید کی ہے کہ ”ہر بات میں [اُس] پر بھروسا رکھنا، شک نہ کرنا، نہ ڈرنا۔“ جب ہم مُنّجی پر توجہ مرکُوز کرتے ہیں، تو ہمارا اِیمان ہمارے خدشات پر غالِب آنا شُروع ہو جاتا ہے۔
جیسا صدر ڈئیٹر ایف اُکڈورف نے ہمیں ترغیب دی کہ ”براہِ کرم، اپنے اِیمان پر شک کرنے سے پہلے اپنے شُبہات پر شک کریں۔ ہمیں شک کو کبھی بھی اِجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ ہمیں قیدی بنا سکے اور اُس اِلہٰی محبّت، اِطمِینان اور نعمتوں سے دُور رکھے جو خُداوند یِسُوع مسِیح پر اِیمان کے وسیلے سے نازِل ہوتی ہیں۔“
برکتیں اُن لوگوں کو مِلتی ہیں جو وفادار رہتے ہیں
جب شاگِرد اُس دِن نجات دہندہ سے دُور جا رہے تھے، تو اُس نے بارہ سے پُوچھا، ”کیا تُم بھی چلے جانا چاہتے ہو؟“
پطرس نے جواب دِیا:
”اَے خُداوند، ہم کس کے پاس جائیں؟ ہمیشہ کی زِندگی کی باتیں تو تیرے ہی پاس ہیں۔
”اور ہم اِیمان لائے اور جان گئے ہیں کہ خُدا کا قُدُّوس تُو ہی ہے۔“
اَب، رَسُول بھی اُسی دُنیا میں رہتے تھے، اور وہ بھی اُسی سماجی دباؤ کا سامنا کرتے تھے جو اُن شاگِردوں پر تھا جو چلے گئے۔ تاہم، اُس لمحے میں، اُنھوں نے اپنے اِیمان کا اِنتخاب کِیا اور خُدا پر توّکل کِیا، اِس طرح اُن برکات کو محفُوظ رکھا جو خُدا اُنھیں بخشتا ہے جو وفادار رہتے ہیں۔
شاید آپ بھی، میری طرح، کبھی کبھار خُود کو اِس فیصلے کے دونوں اَطراف پاتے ہیں۔ جب ہمیں خُدا کی مرضی کو سمجھنے یا قبُول کرنے میں دُشواری پیش آتی ہے، تو یہ یاد رکھنا تسلّی بخش ہے کہ وہ ہم سے محبّت رکھتا ہے، ہم جَیسے بھی ہوں، یا جہاں بھی ہوں۔ اور اُس کے پاس ہمارے واسطے زیادہ پُرفضل شے ہے۔ اگر ہم اُس سے مدد کے خواہاں ہوتے ہیں، تو وہ ہماری مُعاونت کرے گا۔
جب کہ اُس سے مدد کے خواہاں ہونا مُشکل ہو سکتا ہے، جَیسے کہ اُس باپ کو جو اپنے بیٹے کے لیے شِفا کا مُشتاق تھا نجات دہندہ نے فرمایا ”جو اعتقاد رکھتا ہے اُس کے لیے سب کُچھ ہو سکتا ہے،“ اپنے جدوجہد کے لمحات میں، ہم بھی پُکار سکتے ہیں، ”تُو [میری] بے اِعتقادی کا عِلاج کر۔“
اپنی مرضی کو اُس کی مرضی کے حوالے کرنا
ایلڈر نیل اے میکس ویل نے ایک بار سِکھایا کہ: ”کسی کی مرضی کو دُوسرے کے حوالے کرنا واقعی واحد مُنفرد ذاتی چِیز ہے جو ہم خُدا کے مذبح پر پیش کر سکتے ہیں۔“ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ بنیامین بادِشاہ اِتنا مُشتاق تھا کہ اُس کے لوگ ”بچّے کی مانِند مُنکسر، حلیم، فروتن، صابر، محبّت سے معمُور، خُود کو اُن تمام چِیزوں کے حوالے کرنے کے لیے رضامند جو خُداوند اُس پر لانا واجب سمجھتا ہے، یعنی جَیسے کوئی بچّہ خُود کو باپ کے حوالے کرتا ہے۔“
ہمیشہ کی طرح، نجات دہندہ نے ہمارے واسطے کامِل نمُونہ قائم کِیا۔ بوجھل دِل کے ساتھ، اور یہ جانتے ہُوئے کہ اُسے کِتنا تکلیف دہ کام کرنا ہے، اُس نے اپنی مرضی کو اپنے باپ کی مرضی کے حوالے کِیا، اپنے عزمِ مسِیحا کو پُورا کِیا اور ہم سب کے واسطے اَبَدیت کا وعدہ وفا کِیا۔
اپنی مرضی کو خُدا کی مرضی کے سُپرد کرنا اِیمان کا وہ عمل ہے جو ہماری شاگِردی کا حقیقی خلاصہ ہے۔ یہ اِنتخاب کرتے ہُوئے، ہم دریافت کرتے ہیں کہ ہماری مُختاری کم نہیں ہوتی، بلکہ، رُوحُ القُدس کی حُضُوری سے وُسعت اور اَجر پاتی ہے، جو مقصد، خُوشی، اِطمینان، اور اُمید لاتی ہے جو کہیں اور سے نہیں مِل سکتی۔
کئی ماہ پہلے، ایک صدرِ سٹیک اور مَیں نے اُس کی سٹیک میں موجُود ایک بہن اور اُس کے نوجوان بالغ بیٹے سے مُلاقات کی۔ کئی سالوں تک کلِیسیا سے دُور رہنے، اور دُشوار گُزار اور بے یار و مددگار راہوں پر بھٹکنے کے بعد، وہ واپس لوٹ آئی تھی۔ اپنی مُلاقات کے دوران میں، ہم نے اُس سے پُوچھا کہ وہ واپس کیوں آئی ہے۔
”مَیں نے اپنی زِندگی کو برباد کر دِیا تھا،“ اُس نے کہا، ”اور مُجھے معلُوم تھا کہ مُجھے کہاں ہونا چاہیے۔“
پھر مَیں نے اُس سے پُوچھا کہ اُس نے اپنے سفر میں کیا سِیکھا ہے۔
تھوڑا جذباتی ہو کر، اُس نے بتایا کہ اُس نے یہ سِیکھا کہ اُسے اُتنی دیر تک گِرجا گھر آنا چاہیے کہ نہ جانے کی عادت ختم ہو جائے اور اُسے اِس جگہ پر تب تک رہنا چاہیے جب تک وہ اُس کی پسندیدہ جگہ نہ بن جائے۔ اُس کی واپسی آسان نہیں تھی، مگر جب اُس نے باپ کے منصُوبے پر اِیمان کا مُظاہرہ کِیا، تو اُسے رُوح کی واپسی محسُوس ہُوئی۔
اور پھر اُس نے مزید کہا، ”مَیں نے اپنے تجربے سے یہ سِیکھا ہے کہ خُدا مہربان ہے اور اُس کی راہیں میری راہوں سے بہتر ہیں۔“
مَیں خُدا، ہمارے اَبَدی باپ کی گواہی دیتا ہُوں، جو ہم سے محبّت کرتا ہے؛ اُس کے بیٹے، یِسُوع مسِیح کی، جِس نے ہمیں بچایا ہے۔ وہ ہماری تکلیفوں اور صدموں کو جانتے ہیں۔ وہ ہمیں کبھی بھی فراموش نہیں کریں گے اور کامِل طور پر جانتے ہیں کہ کیسے ہماری دَست گِیری کرنی ہے۔ ہم خُوش رہ سکتے ہیں جب ہم کسی بھی ہستی یا چِیز سے زیادہ اُن پر توّکل کرتے ہیں۔ یِسُوع مسِیح کے مُقدّس نام پر، آمین۔