۲۰۱۹
بے ہمتی کے وقت میں ، نائین کی بیوہ کو یاد رکھیں۔
اپریل ۲۰۱۹


بے ہمتی کے وقت میں، نائین کی بیوہ کو یاد رکھیں

خاص طور پر جب ہم بُھلائے گئے یا بے توجہی محسوس کریں ، ہمیں یاد رکھنا چاہیے: یِسُوع بیوہ کی مددکو آیا خصوصاًاُس کے وقتِ ضرورت میں ، اور وہ ہم سب تک بھی پہنچے گا۔

بعض اوقات زندگی کے نشیب و فراز میں، ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ خُدا ہماری روز مرہ کی زندگیوں میں اتنا سرگرم نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے جیون ناگوار اور بے رنگ لگتے ہیں۔ بدلائو کچھ زیادہ نہیں ہوتا، اور بعض اوقات کسی ایک علاقہ کی نشاندہی کرنا مشکل ہوتاہے جہاں خُد انے ہمارے حالات میں براہ راست دخل اندازی کی ہو۔ جب کبھی بھی میں نے اپنی ذاتی زندگی میں بے قدری کے احساسات کو محسوس کیا ہے، میں نے نئے عہد نامہ کی اُس عورت کے بارے سوچاہے جس نے ہو سکتاہےاِسی انداز میں محسوس کیا ہو۔ صحائف میں اُس کا نام نہیں دیا گیا مگر اپنے گائوں کے نام اور اپنی ازدواجی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔

وہ عورت نائین کی بیوہ ہے، اور صرف مبشر لوقا نے اُس کی حیران کن کہانی کو قلم بند کیا ہے۔ میرے لئے وہ منجی کی ذاتی خدمت اور کیسے وہ اپنے معاشرے کے پست ہمت ، عام لوگوں تک پہنچا اِس کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ سرگزشت بڑے واضح طور پر اس معاملے کے بارےطے کرتی ہے آیا خُدا ہمیں جانتا اور ہمارے بارے میں فکر مند ہے۔

لوقا ۷ باب میں سے معجزہ کا اجمالی جائزہ یِسُوع کے ایک جنازہ تک پہنچنےاور معجزانہ طور پر ایک نوجوان آدمی کو دوبارہ زندہ کرنے کو بیان کرتا ہے۔ مگر اس واقعہ کے بارے سمجھنے کے لئے اور بہت کچھ ہے۔ جیسے تمام معجزات کے ساتھ ہے، مگر خاص طور پر اس کے ساتھ،اِس واقعہ کا متن فہم کے لئے اہم ہے۔ برگہم ینگ یونیورسٹی کے یروشلیم مرکز میں تدریس کرنے کے بعد، میں آپ کے ساتھ اِس معجزہ کے بارے کچھ ذاتی بصیرتیں بتائوں گا۔

یِسُوع کے زمانہ میں موریاہ پہاڑی کے مخالف آباد، نائین چھوٹا سا زرعی گائوں تھا جو جیزرئیل وادی کی مشرقی جانب کو واضح کرتی ہے۔ قصبہ بذات خود ایک الگ تھلگ مقام پر ہے۔ اِس تک رسائی واحد سڑک تک محدود تھی۔ یِسُوع کے زمانہ میں ، یہ آبادی چھوٹی اور نسبتاً غریب ہو گی ، اور یہ تب سے اِسی طرح رہی ہے۔ اس کی تاریخ میں کبھی کبھار، اِس قصبہ نے کم سے کم ۳۴ گھرانوں اور ۱۸۹نفوس کا احاطہ کیا ہے۔۱ آج یہ تقریباً ۱۵۰۰ باشندوں کا گھر ہے۔

لوقانے اِس واقعہ کا آغاز اِس بات پر توجہ دیتے ہوئے کیا کہ یِسُوع ایک دِن پہلے کفر نحوم میں تھا اورصوبہ دار کے نوکر کو شفا دی تھی (دیکھئے لوقا ۷: ۱–۱۰)۔ پھر ہم سیکھتے ہیں کہ ”اگلے روز“ (آیت ۱۱؛ تاکید شامل ہے)، منجی نائیِن نامی شہر میں، شاگردوں کے ایک بڑے گروہ کے ہمراہ گیا۔ یہ ترتیب نہایت اہم ہے۔ کفرم نحوم گلیل کی جھیل کے شمالی ساحل پر سطح سمندر سے ۶۰۰ فٹ ( ۱۸۳ میٹر)نیچےواقع ہے۔ نائِین کفرنحوم کے جنوب مغرب میں سطح سمندر سے ۷۰۰ فٹ (۲۱۳ میٹر)بلندتقریباً۳۰ میل (۴۸ کلومیٹر)پر ہے، پس نائِین کو جانے کے لئے دشورا چڑھائی درکار ہے۔ کفرنحوم سے نائیِن کو پیدل جانے کے لئے، کم و بیش ایک سے دو رروز لگے ہوں گے۔ حال ہی میں بی وائی یو یروشلیم مرکز کے نوجوان طالب علموں کو اِس راستے کی پختہ سڑکوں پرچلتے ہوئے ۱۰ گھنٹے لگے۔ اِس کا مطلب ہے کہ ”اگلے روز“جنازے کا سامنا ہونےکے لئے یِسُوع کو شاید بہت صبح سویرے اُٹھنا پڑا ہو گا یا ممکنہ طور پر رات کو چلنا پڑا ہو گا۲

جسمانی طور پر تھکادینے والے سفر کے بعد جب مِسیح شہر کے قریب پہنچا، ایک نوجوان کو، شاید ۲۰ کے پیٹے میں۳ ارتھی پر لے جایا جا رہا تھا۔ لوقا ہمیں بتاتا ہے کہ یہ نوجوان بیوہ کا ایک ہی بیٹا تھا، اور کچھ عُلما نے یونانی متن کی تشریح کی ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ اُس کی کوئی اور اُولاد نہیں تھا۔۴ دیہاتیوں کا ایک بڑا گروہ اِس نہایت بدقسمت خاندانی سانحہ میں اُس کے ہمراہ تھا۔

بلاشبہہ، بیٹے کی وفات کسی کے لئے بھی سانحہ ہو سکتی ہے، مگر بیوہ پر اِس کے اثرات کو زیرِغور لائیں۔ قدیم اسرائیل میں کسی وارث کے بغیربیوہ ہونے کا معاشرتی، روحانی، اورمعاشی طور پر کیا مطلب ہو گا؟ عہد عتیق کے تمدن میں ، یہ عقیدہ تھا کہ جب شوہر ضعیف عمر سے پہلے وفات پا جاتا ،یہ خُد اکی طرف سے گناہ کی سزا کا نشان تھا۔ پس، کچھ لوگ یقین رکھتے تھے کہ یہ زندہ بچ جانے والی بیوہ پر خُدا کی سزا ہے۔ رُوت کی کتاب میں ، جب نعومی اوائل عمری میں بیوہ ہوئی، وہ نوحہ کناں تھی، ”حالانکہ خُداوند میرے خِلاف مُدعی ہوا، اور قادرِ مطلق نے مُجھے دُکھ دیا“ (رُوت ۱:۲۱، بین القوامی ورژن)۔۵

وہاں نہ صرف روحانی اور جذباتی کرب تھا، بلکہ نائِین کی یہ بیوہ معاشی بربادی کا بھی سامنا کر رہی تھی—حتی کہ فاقہ کشی کا بھِی سامنا کرے گی۔۶ شادی پر،مالی تحفظ کے لئے خاتون کو اُس کے سسرال کے سپرد کیا جاتا تھا۔ اگر وہ وفات پا جاتا، پھر اُس کی دیکھ بھال اُسکے پہلوٹھے بیٹے کو تفویض کر دی جاتی تھی۔ اب اِس بیوہ کا پہلوٹھا اور واحد بیٹا فوت ہو چُکا تھا، اُس کا معاشی تحفظ بھی ختم ہو چُکا تھا۔ اگر اُس کا بیٹا ۲۰ کے پیٹے میں تھا، وہ شاید ادھیڑ عمر خاتون تھی، ایک چھوٹے الگ تھلگ زرعی قصبہ میں رہائش پذیرتھی، اور اب خُود کو روحانی، معاشرتی، اور معاشی طور پر محتاج پایا۔

اِس مختصر عرصہ کے عین درمیان میں جب گائوں والے عورت کے بیٹے کی تدفین کے لئے جارہے تھے، یِسُوع جنازہ سےمِلا اور ”اُس پر ترس آیا“(لوقا ۷: ۱۳)۔ دراصل، یہ لُوقا کا عظیم ترین ادھورا بیان ہے۔ یِسُوع نے کسی طرح اِس بیوہ کی بالکل خراب حالت کو بھانپ لیا تھا۔ شاید اُس نے رات اپنے مٹی کے فرش پر پائوں پسارے ، آسمانی باپ سے التجا کرتے ہوئے گزاری تھی کہ کیوں۔ شاید اُس نے کھلے عام اعتراض کیا ہو وہ کیوں اُس سے زمین پر مزید جینے کا تقاضا کر رہا تھا۔ یا شاید وہ اُس منتظر تنہائی سے خوفزدہ تھی جس کا وہ سامنا کرے گی۔ ہم نہیں جانتے ہیں۔ مگر ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ منجی نے کفر نحوم کوفوری طور پر چھوڑنا منتخب کیا، جنازے کے جلوس تک اُن کے میت کو دفنانے سے عین پہلے پہنچنے کے لئے اُسے رات بھر پیدل چلنا پڑا۔

ہاں، جب اُس نے اُس کا اشک بار چہرہ دیکھا جب وہ جنازے کے پیچھے چلی، یِسُوع نے اِس عورت کے لئے بڑا ترس محسوس کیا—لیکن یوں لگتا ہے اُس کا ترس اُن احساسات سے آیا جن کااُس نے اُس جنازےمیں حائل ”ہونے “سے بہت پہلے تجربہ پایا تھا۔ اُس نے واضح طو رپر اُس کے لمحہِ ضرورت میں وہاں ہونے کی منصوبہ سازی کی۔

پھر یِسُوع نے بیوہ کو کہا ”مت رو“(آیت ۱۳)۔ رسمی ناپاکی سے بے خوف، اُس نے ”جنازہ کو چُھوا،“ اور اُٹھانے والےکادستہ” کھڑا ہو گیا۔“ پھر اُس نے حکم دیا، ”اے نوجوان میں تجھ دے کہتا ہوں ، اُٹھ۔

”وہ مُردہ اُٹھ بیٹھا، اور بولنے لگا۔ اور [یِسُوع ] نے اُسے اُس کی ماں کو سونپ دیا“( آیات ۱۴—۱۵)۔ فطری طور پر، گائوں والوں کے ہجوم اور یِسُوع کے پیروکار ششدر رہ گئے جب اُن کا مشترک دکھ خالص خوشی میں بدل گیا۔ وہ سب ”خُدا کی تمجید کر کے کہنے لگےکہ ایک بڑا نبی ہم میں پید اہوا ہے“(آیت ۱۶)۔ مگر یہ معجزہ ایک بے تاب جان کوبچانے کے بارے میں بھی تھا۔ یِسُوع آگاہ تھا اِس عورت کے لئے کچھ بہت غلط تھا—کوئی جِیسے انکی ثقافت میں حقییر جانا جاتا تھا۔ اُس کی حالت فوری توجہ کے لئے پکار رہی تھی، حتی کہ اگر اُسے وہاں بالکل ٹھیک وقت پرہونے کے لئے طویل سفر کرنا پڑا تھا۔ وہ اُس کی بے تاب حالت کو جانتا تھا، اور وہ جلدی سے آیا۔ صدر تھامس ایس۔مانسن(۱۹۲۷—۲۰۱۸)نے ناقابلِ تردید سچائی بیان کی جب اُس نے فرمایا، ”کسی روز، جب ہم اپنی زندگیوں کے بظاہر اتفاقات پر نظر دوڑاتے ہیں، ہم محسو س کریں گے کہ آخرکار وہ سب اتفاق نہیں تھے۔“۷

اب، یہ واقعہ جتنا بھی عروج بخشنے والا ہو، اِسے ہمارے لئے بائبل کی جالب داستان سے کہیں زیادہ ہونا چاہیے۔ یہ بِلا شبہ تصدیوق کرتا ہے کہ یِسُوع اس مفلس، فراموش شدہ، اور پریشان حال بیوہ کے بارے جانتا تھا۔ خاص طور پر جب ہم بُھلائے گئے یا بےتوجہی محسوس کریں ، ہمیں یاد رکھنا چاہیے: یِسُوع بیوہ کی مددکو آیا خصوصاًاُس کے وقتِ ضرورت میں ، اور وہ ہم سب تک بھی پہنچے گا۔ مزید براں، ہم اپنے منجی کے نمونہ سے جو دوسرا سبق حاصل کرسکتے ہیں وہ دسروں کو جو آپ کے گرد ہیں برکت دینے کے لئے اُن تک پہنچنے کی اہمیت ہے۔ آپ کے حلقہِ احباب میں بہے سے وقتاً فوقتاًپست ہمت ( بے حوصلہ )ہونگے۔ اگر آپ اُنہیں ”بہن نائِین “کے بارے اور کیسے خُداوند بالکل ٹھیک ٹھیک اُس کے حزن و یاس اور بڑے ذاتی بحران کو جانتا تھا ،بتاسکیں ، یہ رات کو دِن میں بدل سکتا ہے۔ صدر سپینسر ڈبلیو قمبل (۱۸۹۵—۱۹۹۵)کے موثر مشاہدہ کو یاد رکھیں : ”خُدا ہمارا دھیان رکھتا ہے، اور وہ ہماری نگہبانی کرتا ہے۔ مگر یہ عموماً کسی دوسرے شخص کے ذریعے ہوتاہے جو ہماری ضروریات کو پورا کرتا ہے۔“۸

زمین پر اُس کے تمام تر عرصہ کے دوران میں یِسوع کے تمام تر معجزات میں سے چند ایک نہایت ہی کومل اور رحیم ہیں جیسے اُس کا نائین کی بیوہ کی خدمت گزاری کرنا ہے۔ یہ ہمیں یاد دِلاتا ہے کہ ہم سب اُس کے لئے اہم ہیں اور کہ وہ ہمیں کبھی بھی فراموش نہیں کرے گا۔ ہم یہ فراموش نہیں کر سکتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. دیکھئے ای میلز، فلسطین کی مردم شماری ۱۹۳۱:Population of Villages, Towns, and Administrative Areas ( ۱۹۳۲)، ۷۵۔

  2. دیکھئے ایس کینٹ براون، The Testimony of Luke ( ۲۰۱۵)، ۳۶۴

  3. دیکھئے براون، The Testimony of Luke, ۳۶۵

  4. دیکھئے براون، The Testimony of Luke, ۳۶۵

  5. یسعیاہ ۵۴: ۴ میں، خُداوند بیوہ اسرائیل کو بتاتا ہے کہ وہ ”[اپنی] بیوگی کی عار کو پھر یاد نہ کرے گی۔“

  6. دیکھئے براون، The Testimony of Luke, ۳۶۵

  7. تھامس ایس۔ مانسن،”Lessons Learned in the Journey of Life،“ میں لیحونا، مئی ۲۰۰۱، ۳۸۔

  8. کلیسیا کے صدور کی تعلیمات: ہاورڈ ڈبلیو ہنٹر (۲۰۰۶), ۸۲۔.

گلیل

کفرنحوم

ناصرت

نائیِن

شائع کرنا