۲۰۱۹
محبت، خوشی، اور اطمینان کے متعلق تین اسباق
اپریل ۲۰۱۹


محبت ، خوشی ، اور اطمینان کے متعلق تین اسباق

”خوشی، فریب، اور چھوٹی چیزوں،“ کے عنوان سے ۵ دسمبر ۲۰۱۷ کو بریگھم ینگ یونیورسٹی میں دیئے جانے والے عبادتی خطاب سے۔

اِن تین اقدامات کی پیروی آپ کی زندگی میں واضح فرق پیدا کر سکتی ہے اور روح کے پھلوں کو محسوس کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

جب میں کالج کا طالب علم تھا، تو میں اپنے مستقبل کے بارے میں بہت سوچتا تھا۔ ایک بار جب میں مستقبل میں داخل ہواـــــ—میرا مطلب کالج کی زندگی کے بعدــــ—تو میں نے تین بنیادی اہمیت کے اسباق سیکھے جن سے میری زندگی پہ بڑا فرق پڑا۔ میں یہ تینوں اسباق آپ سے اِس اُمید کے ساتھ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کو اِنھیں سیکھنے کےلئے میری مانند زیادہ وقت نہ لگے۔ یہ اسباق زندگی میں عظیم خوشی—اور آخر کار آپ کے آسمانی باپ کے ساتھ سرفرازی پانے کے لئے آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔

۱۔ خوشی، اطمینان، اور روح القدس کے متلاشی ہوں

میں اپنی بیوی، ملینڈا سے اپنے کالج کے دوسرے سال میں ملا، اپنے مشن سے لوٹنے کے تقریباً چھ ماہ بعد۔ میں نے فوری طورپر جان لیا تھا کہ میں ملینڈا سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ البتہ، ملینڈا کو ایسا تجربہ حاصل نہ تھا۔ آخر کار پانچ برس کے بعد اُس نے جواب پایا کہ میرے ساتھ شادی کرنا اُس کے لیے ”مناسب“ ہے۔

اُن پانچ سالوں کے دوران، مجھے زندگی میں انتہائی مشکل دشواریوں کا سامنا تھا۔ میں جانتا تھا مجھے شادی کی پیش کش کس کو کرنی تھی، اور روح نے میری حوصلہ افزائی کی، مگر ایسا لگتا تھا کہ میں اُس مقصد کو پورا نہیں کر پا رہا تھا۔

میرے گریجوایٹ ہونے کے فوراً بعد، ملینڈا نے مشن پر جانے کا فیصلہ کیا—میرے خیال میں اُس کی مشن پر جانے کی تحریک مجھ سے دور جانا تھا۔ جب وہ اپنے مشن پر تھی تو کئی اوقات ایسے بھی تھے جب میں بہت تکلیف میں تھا کیوں کہ میری توجہ ایسی چیز پر لگی ہوئی تھی جو میرے پاس نہ تھی۔ البتہ، میں روز صحائف کا مطالعہ اور دعا کر رہا تھا، کلیسیا میں خدمت کر رہا تھا، اور وہ کام کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو روح القدس کو میری زندگی میں مدعو کرتے۔

منی پولس، منی سوٹا، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی انتہائی سرد اتوار کی صبح، جب میں چرچ میٹنگ کے لئے ڈرائیو کرتا ہوا جا رہا تھا تو، میں نے سوچا، ”مجھے ابھی انتہائی تکلیف دہ حالت میں ہونا چاہیے۔ حالات میرے حق میں نہیں ہیں۔ مگر میں تکلیف میں نہیں ہوں۔ میں تو ناقابلِ یقین حد تک خوشی محسوس کر رہا ہوں!“

اب، میں کیسے خوش ہو سکتا تھا جب کہ میں ایسے حالات سے گزر رہا تھا جو میرے لئے انتہائی مشکل امتحان تھے ؟

اس کا جواب گلتیوں ۵: ۲۲–۲۳ میں پایا جاتاہے: ”رُوح کا پھَل محبّت، خُوشی، اِطمینان، تحمُّل، مہربانی، نیکی، اِیمانداری، حلِم، پرہیزگاری، ہے۔“

چونکہ میں وہ کام کر رہا تھا جو روح کو میری زندگی میں لائے، پس میں نے خدا کی محبت کو محسوس کیا۔ میں نے خوشی اور اطمینان کو محسو س کیا۔ میں تحمل سے برداشت کر پا رہا تھا اور ابھی تک خوش تھا۔

اپنی زندگیوں، اپنے خاندانوں، اور اپنی شادیوں میں محبت، خوشی، اور اطمینان بڑے گھر، عمدہ کاروں، جدید ترین ملبوسات، پیشہ وارانہ کامیابی، یا کسی بھی اور چیز سے حاصل نہیں ہوسکتے جنہیں دنیا خوشی کا ضامن سمجھتی ہے۔ درحقیقت، کیوں کہ محبت، خوشی، اور اطمینان روح سے حاصل ہوتے ہیں، اُن کو محسوس کرنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ خود کو دنیاوی حالات سے جوڑا جائے۔

مہربانی سے سمجھیں کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم ہمیشہ خوش ہوں گے یا ہمارے وقتی حالات کبھی بھی ہماری خوشی کو متاثر نہ کریں گے۔ دراصل، اگر ہم کڑوے کا مزہ نہیں چکھیں گے، تو ہم میٹھے کو نہیں جان سکتے ( دیکھئے عقائد اور عہود ۲۹: ۳۹؛ مزید دیکھیں موسیٰ ۶: ۵۵

بعض اوقات ہمیں کوشش کرنا پڑتی ہے۔ مزید برآں، بعض جسمانی اور جذباتی حالات ہمارے لئے عظیم تکلیف کا باعث بن سکتے ہیں اور روح کو محسوس کرنا مشکل بنا سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنی زندگیوں میں روح کو پانے کی کوشش کر رہے ہیں اور خدا پر بھروسہ کر رہے ہیں، تو عمومی طور پر، ہم خوش رہ سکتے ہیں۔

میں ذاتی تجربہ سے گواہی دیتا ہوں کہ یہ سچ ہے۔ ملینڈا کے مشن پر جانے کے اپنے تجربہ سے، میں نے محسوس کیا ہے کہ اگر میں وہ کام کرتا ہوں جو میری زندگی میں روح کو مدعو کرتے ہیں، بشمول ایمان رکھنے اور اُن کاموں کو قبول کرنے سے جو خدا کے ارادے سے ہوتے ہیں، تو میں عمومی طورپر خوش ہوتا ہوںـ (دیکھیں یعقوب ۳: ۲۱

۲۔ جعلی احساسات پر بھروسہ نہ کریں

شیطان ہمیں پریشان کرنے یا دھوکا دینے کی کوشش میں خُدا کے تمام کاموں میں اپنے جعلی متبادل کی پیش کش کرتا ہے۔ بصورت دیگر ہمیں قائل کرنے کی شیطانی کوششوں کے باوجود، نجات دہندہ نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ”ایک برا درخت اچھا پھل [نہیں] لاتا“ (۳ نیفی ۱۴: ۱۸)۔ کیوں کہ شیطان ایک برا درخت ہے، پولُس رسول ہمیں بتاتا ہےوہ کبھی بھی ہمیں ”محبّت، خُوشی، اِطمینان، تحمُّل، مہربانی، نیکی، اِیمانداری، حلِم، [اور] پرہیزگاری“ کا احساس نہیں بخشتا (گلتیوں ۵: ۲۲–۲۳)۔ بلکہ، شیطان ہمیں بدحال بنانا چاہتاہے (دیکھئے ۲ نیفی ۲: ۲۷

پس شیطان کیا کرتاہے؟ وہ ہمیں دھوکا دینے کی کوشش کرتاہے۔

میری ایک دوست جو خدا کی برگُزِیدہ تھی، اُس نے دھوکا کھایا تھا۔ میری دوست نے مشن کی خدمت سر انجام دی اور وہ ایک شاندار مشنری تھی۔ جب وہ اپنے مشن سے گھر واپس آئی، تو اُس نے وہ تمام چھوٹے کام کرنے کا ارادہ کیا جو اُس کی زندگی میں روح لائے تھے اور اُس کے مشن پر اُسے مضبوطی بخشتے تھے۔ اور کچھ وقت کے لئے تو ،اُس نے ایسا کیا۔

تاہم،اُس نے بہت سارے دوستوں کو دیکھا، جن میں سے کئی واپس لوٹے ہوئے مشنری تھے، جو ہر اتوار چرچ تو آتے تھے مگر چرچ کے باہر وہ دنیاوی زندگی گزارتے تھے۔ وہ خوش دکھائی دیتے تھے۔ وہ ”پُر لطف “ کاموں میں مشغول تھے۔ اور ایسا لگتا تھا کہ اُن کی طرز زندگی میں اتنا کام کرنے کی ضرورت نہ تھی جتنا وہ کرتی تھی۔

آہستہ آہستہ اُس نے وہ سب چھوٹے کام کرنے چھوڑ دیئے جو مشن پر اُس کی زندگی میں روحانی مضبوطی لائے تھے۔ پھر بھی وہ گواہی رکھتی تھی، مگر اُس نے مجھے بتایا کہ اُس نے سوچا، ”کلیسیا میں مخص شرکت کرنے سے، میں ٹھیک تھی—میں محفوظ تھی۔“ پھر بھی، اُس نے کہا، ”روحانی طور پر، میں غیر متحرک تھی۔“۲ جب اُس نے دنیا کے مطابق زندگی گزاری، ایک کے بعد دوسرے غلط انتخاب کرنے سے، وہ جلد ہی حاملہ ہو گی۔

آخر کار اُس کے ناراست انتخابات کا نتیجہ اس کے سامنے تھا۔ وہ خوش نہیں تھی، اور وہ یہ جانتی تھی۔ خوشی قسمتی سے، میری دوست نے جانا کہ اُس کے ساتھ دھوکا ہوا تھا، اور اُس نے توبہ کی۔

اُس کی کہانی اِس بات پر زور دیتی ہے کہ حتیٰ کہ ہم میں سے بہترین بھی دھوکا کھا سکتے ہیں۔ مزید برآں، اُس کی کہانی اِس بات کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ ہمیں لازمی طورپر دھوکا دہی کے خلاف مسلسل دفاع کرتے رہنا ہے۔ ہم اِس کی تکمیل اُن چھوٹے کاموں کے ذریعے سے کر سکتے ہیں جو روح کو ہماری زندگیوں میں لاتے ہیں۔

میں یہ رپورٹ دے کر خوش ہوں کہ آج میری دوست خوش ہے، حکموں پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کر رہی ہے، اور جسمانی اور روحانی طورپر انجیل میں متحرک ہے۔

شیطان مختلف طریقوں سے دھوکا دیتاہے۔ میں صرف چند ایک کا ذکر کروں گا۔

شیطان ہمیں قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ہم روحانی باتوں پر دنیاوی چیزوں کو ترجیح دیں۔ ہم اِس بات پر غور کرتے ہوئے بتا سکتے ہیں آیا کہ ہماری ترجیحات روحانی ہیں یا غیر روحانی جب ہم اکثر یہ کہتے ہیں، ”اب میں _________ــــــــ کرنے کے لئے بہت مصروف یا تھکا ہوا ہوں۔“ خالی جگہ اِن الفاظ سے پُر کریں: ہیکل میں جانے کے لئے، خدمت کرنے کے لئے، صحائف کا مطالعہ اور اِن پر غور و خوض کرنے کے لئے، اپنی بلاہٹ کی تکمیل کے لئے، یا حتیٰ کہ اپنی دعائیں مانگنے کے لئے۔

زیادہ مصروفیت محسوس کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ شیطان ہماری توجہ پھیرنے کے لئے سخت محنت کرتاہے۔ وہ ہمارے ہاتھوں سے سمارٹ فون استعمال کرواتا ہے، ہماری گاڑی میں ریڈیو، ہمارے گھروں میں ٹیلی ویژن، اور بہت ساری اشیاء جو زیادہ سے زیادہ وقت کے لئے ہماری توجہ ہٹائے رکھتی ہیں۔ نتیجہ کے طور پر، ہم حقیقی مصروفیت سے کہیں بڑھ کر مصروف نظر آتے ہیں۔

اِس بھٹکاوے کا ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ ہم کم سے کم سوچ بچار کرتے ہیں۔ شیطان ہماری توجہ کو ہٹانے کا کام اِس واسطے کرتاہے کیوں کہ وہ جانتاہے کہ خاص طورپر صحائف کی سوچ بچار سے، عظیم تبدیلی اور مکاشفہ حاصل ہوتا ہے۔

شیطان کی دھوکا دہی ایک اور خیال پر مبنی ہے کہ ہمارے بیرونی اعمال ہماری باطنی ترغیبات سے زیادہ اہم ہیں۔ روحانی کام کرنے کے لئے جب ہماری مناسب تحریک میں فقدان ہوتاہے، تو ہم انجیلی خوشی کا تجربہ حاصل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔ نتیجہ کے طورپر، حکموں پر عمل کرنا بوجھ لگنے لگتاہے، اور شیطان جانتاہے کہ اگر وہ ہمیں یہ احساس دلائے گا، تو امکان ہے کہ ہم اُس کام کو کرنا چھوڑ دیں گے جو ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کرنا چاہیے۔

شیطان ہمیں یہ یقین دلاتے ہوئے بھی دھوکا دیتاہے کہ مسرت اور خوشی آسان زندگی گزارنے سے یا محض ہر وقت تفریح کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ کسی چیز پر غلبہ پائے بغیر مسرت یا خوشی حاصل نہیں ہوتی (دیکھئے ۲ نیفی ۲: ۱۱، ۲۳

شیطان کا آخری فتنہ جس کا میں بیان کروں گا وہ یہ ہے کہ وہ ہمیں قائل کرتاہے کہ بدکاری، اپنی عارضی خوشیوں کے ساتھ، ہی حقیقی خوشی ہے۔ شیطان جانتاہےکہ، کم از کم ایک لمحے میں، یہ یقینی احساسات یا جذبات (۱) ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم روح کے پھل محسوس کررہے ہیں، (۲) وہ اُن پھلوں کیلئے ہماری خواہش کو چھپاتا ہے، یا (۳) متبادل کو قابل قبول محسوس کرواتا ہے۔

مثال کے طور پر، محبت کی جگہ شہوت کے خواہاں ہونے کے لئے ہمیں آزمائش میں ڈال سکتاہے۔ وہ دیرپا خوشی کی بجائے جوش کے ساتھ ہمیں لُبھاتا ہے۔ وہ ہمیں اطمینان عطا کرنے کے بجائے ہمیں بھٹکانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنی نيکِيوں کا ڈھَنڈورَہ پيٹنے والے، پرُ جوش بنیں، اور دُنیاوی معیار کے مطابق زندگی گزاریں، بجائے اِس کے کہ ہم بے لوث، مستقل طورپر فرمانبردار، اور مناسب طورپر روحانی باتوں پر توجہ پر مرکوز کریں۔ اُس کی آزمائشیں ہمیں الجھن میں ڈالنے کا باعث بن سکتی ہیں، جو نتیجاً ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ شاید حکموں کو توڑنے سے ہمیں خوشی ملے گی۔

۳۔ چھوٹے کام کریں

عمومی طورپر چھوٹے کام ہماری زندگیوں میں روح کو مدعو کرتے ہیں، ہمیں دھوکا دہی سے بچاتے ہیں، اور آخر کار حکموں پر عمل پیرا ہونے اور ابدی زندگی پانے کے لئے ہمیں طاقت حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ نجات دہندہ نے کرٹ لینڈ، اوہائیو میں کلیسیا کے بزرگوں کو یہ اصول سکھایا: ”پس، اچھے کام کرنے سے مت تھکو، کیوں کہ تم ایک عالی و ارفع کام کی بنیاد رکھ رہے ہو۔ اور چھوٹے کاموں سے ہی عظیم کاموں کا آغاز ہوتا ہے“ (عقائد اور عہود ۶۴: ۳۳

چھوٹے کام اتنے اہم کیوں ہیں؟ اگلی آیت میں، نجات دہندہ نے واضح کیا ہے کہ ”خُداوند کو دل اورآمادہ ذہن کی ضرورت ہے“ (عقائد اور عہد ۶۴: ۳۴)۔ نجات دہندہ نے چھوٹے کاموں کو دل اور آمادہ ذہن کے ساتھ کیوں جوڑا ہے؟ چونکہ مستقل طورپر چھوٹے کام کرنے سے، ہماری سوچ اور دلوں کا رحجان خدا کی طرف مائل ہوتاہے، جو ہمیں پاک اور صاف کرتاہے (دیکھئے ہیلیمن ۳: ۳۵)۔

یہ پاکیزگی اور تقدس ہماری اپنی فطرت کو، تھوڑا تھوڑا کر کے تبدیل کرتی ہیں، تا کہ ہم زیادہ سے زیادہ نجات دہندہ کی مانند بن جائیں۔ یہ روح القدس کی ترغیبات کو زیادہ قبول کرنے کا باعث بھی بنتی ہیں، جس سے ہمارے دھوکا کھانے کے امکان کم ہو جاتے ہیں۔

ہائی سکول کے میرے سینئیر سال میں، میرے باپ نے ہمیں سیمنری کی تعلیم ہمارے گھر میں دی۔ کیوں کہ اُس سال عنوان مورمن کی کتاب تھا، تو میرے باپ نے فیصلہ کیاکہ ہم اِسے مل کر آیت بہ آیت پڑھیں گے، اور جو ہم سیکھیں گے اُس کے بارے اکٹھے گفتگو کریں گے۔ جب ہم مطالعہ کرتے، تو میرا باپ ایسے سوالات پوچھتا جو مجھے سوچنے پر مجبور کر دیتے کہ ہم کیا پڑھ رہے تھے، اور وہ اُن چیزوں کی وضاحت پیش کرتا جو مجھے سمجھ نہ آتی تھیں۔ ابھی تک مجھے نجات دہندہ کے بارے میں سیکھنا اور یہ سوچنا یاد ہے کہ اُس نے واقعی نیفیوں سے ملاقات کی اور اُس کے کفارے کے باعث میرے گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔

میں نے کلام میں اپنی بنیاد کی شناخت کو اُن سیشنوں میں دریافت کیا جو میں نے اور میرے باپ نے مل کر مطالعہ کئے تھے۔ اکٹھے مطالعہ کرتے وقت میں نے کچھ محسوس کیا۔ اور زیادہ اہم یہ ہوسکتا ہے کہ، میری خواہشات، ترغیبات، اور اعمال تبدیل ہوگئے۔ میں بہتر ہونا چاہتا تھا۔ میں نے دیکھنا شروع کیا کہ میں کہاں دھوکا کھا رہا تھا۔ میں نے نسبتاً زیادہ توبہ کی۔ کالج کے پہلے سال کے آخر میں، میں نے ہر روز صحائف کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا تھا۔

اِس وقت کے دوران، صدر عزرا ٹافٹ بینسن (۱۸۹۹–۱۹۹۴) نے کلیسیائی ارکان کو ہر روز مورمن کی کتاب پڑھنے اور جو کچھ وہ سیکھیں اُس کا اطلاق کرنے کا کہا۔۳ پس، جو کچھ اور میں پڑھ رہا تھا اِس میں اضافے کے طورپر، میں مورمن کی کتاب سے کم از کم کچھ پڑھتا تھا۔

اپنے مشن پر میں نے سیکھا کہ حقیقی طورپر مطالعہ کرنے اور صحائف سے سیر ہونے کا مطلب کیا ہے۔ مطالعہ کرتے وقت میں نے نہ صرف روح القدس کو محسوس کیا، بلکہ میں نے خوشی محسوس کرنے کا آغاز بھی کیا جب میں نے اپنے اور اپنے متلاشیان کے مسائل کے جوابات پانے کے لئے تحقیق کی۔

اپنے مشن کے بعد، میں نے روزانہ کی بنیاد پر صحائف سے سیر ہونا جاری رکھا۔ کیوں کہ اِس مشق نے میری زندگی میں روح القدس کو دعوت دی، میں نے اپنے وقت کو زیادہ موثر طور پر استعمال کرنے کے لئے اِس کی ہدایت کی مدد پائی۔ نتیجہ کے طورپر، میں نے سکول، اور بعد میں کام پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اچھے فیصلے کرنا آسان ہو گیا تھا۔ میں نے زیادہ دعا کی اور اپنی بلاہٹؤں کی تکمیل میں زیادہ جانفشاں ہوا۔ صحائف سے سیر ہونے سے میرے سارے مسائل تو حل نہ ہوئے، مگر زندگی آسان ہوگئی۔

اگست ۲۰۰۵ میں، صدر گورڈن بی ہنکلی (۱۹۱۰–۲۰۰۸) نے ایک چنوتی جاری کی کہ سال کے اختتام سے پہلےمورمن کی کتاب کا بار بار مطالعہ کیا جائے۔۴ کیوں کہ میں بہرصورت روزانہ مورمن کی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا، تاہم میں پہلے سے ہی عیتر یا مرونی پر تھا۔ نتیجہ کے طورپر، ایک یا دو ہفتوں کے بعد مطالعہ ختم کرنے پر، میں نے نتیجہ نکالا کہ میں نے صدر ہنکلی کی چنوتی کو مکمل کر دیا تھا۔

مگر پھر ایک وفادار خاندانی معلم ہمارے گھر ملاقات کے لئے آیا۔ اُس نے پوچھا کہ صدر ہنکلی کی دعوت کے بارے میں میں کیا کر رہا ہوں۔

میں نے اُسے بتایا کہ خوش قسمتی سے میں تو صدر ہنکلی کی چنوتی سے پہلے ہی مورمن کی کتاب کا مطالعہ شروع کر چکا تھا۔ تب، اپنی نيکِي کا ڈھَنڈورَہ پيٹتے ہوئے، میں نے اعلان کیا کہ میں تو یہ کام مکمل کر چکا تھا۔

خوشی قسمتی سے، میرے معلم نے چیزوں کو مختلف انداز سے دیکھا۔ جب اُس نے بڑے پیار سے میری تصحیح کی، تو روح نے مجھ سے سرگوشی کی کہ میرا خاندان معلم درست تھا۔

اب مجھے سال کے آخر تک مطالعہ ختم کرنے کے لئے روزانہ کے دو باب پڑھنے تھے۔ جب میں نے مورمن کی کتاب کا اضافی مطالعہ کیا، تو میں نے اپنی زندگی میں مزید قوت محسوس کی۔ مجھے زیادہ شادمانی حاصل ہوئی۔ میں نے چیزوں کو زیادہ واضح دیکھا۔ حتیٰ کہ میں نے زیادہ کثرت سے توبہ کی۔ میں دوسروں کی خدمت گزاری اور نجات کے کام میں حصہ لینا چاہتا تھا۔ میں اب شیطان کے دھوکوں اور آزمائشوں میں کم پڑتا تھا۔ میں اب نجات دہندہ کو زیادہ پیار کرتا تھا۔

اُس نومبر مجھے میری وارڈ میں اُسقف کی بلاہٹ ملی۔ صدر ہنکلی کی چنوتی کی تکمیل نے اُس بلاہٹ کے لئے مجھے تیار کیا تھا۔ تب سے، میں نے غور کیا کہ میں جتنا زیادہ کلیسیا یا کام میں مصروف رہتا، اتنی ہی زیادہ مجھے صحائف کے مطالعہ کی ضرورت پڑتی، خاص طورپر مورمن کی کتاب کی۔

اگر آپ بھی روزانہ صحائف سے سیر ہوں گے تو آپ بھی ایسی ہی برکات اور طاقت اپنی زندگی میں پائیں گے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ روزانہ پاک کلام سے سیر ہوں گے، خاص طورپر مورمن کی کتاب سے، تو آپ روح کو اپنی زندگی میں دعوت دیں گے اور قدرتی طورپر روزانہ دعا کریں گے، زیادہ توبہ کریں گے، اور چرچ جانا اور ہفتہ وار ساکرامنٹ میں شریک ہونا آسان لگے گا۔

میں گواہی دیتاہوں کہ جب آپ چھوٹے کام کرتے ہیں اور خداوند پر بھروسہ رکھتے ہیں، تو خواہ آپ کے حالات جیسے بھی ہوں آپ محبت، خوشی، اطمینان، اور شادمانی پائیں گے۔ میں یہ گواہی بھی دیتاہوں کہ ایسا یسوع مسیح کی قربانی کے باعث ممکن ہوا۔ ہر اچھی چیز مسیح کے وسیلے سے آتی ہے (دیکھیں مرونی ۷: ۲۲،۲۴

حوالہ جات

  1. جب ہم مسیح پہ پختہ ایمان رکھتے ہیں، تو ہم خدا کی محبت سے سیر ہو سکتے ہیں خواہ ہمارے حالات کچھ بھی ہوں۔

  2. انٹرویو کے حوالہ جات اور نقل نویسی مصنف کی ملکیت ہیں۔

  3. دیکھئے عزرا ٹافٹ بینسن،”A Sacred Responsibility،“ اینزائن، مئی ۱۹۸۶، ۷۷–۷۸؛ ”مورمن کی کتاب—ہمارے مذہب کا کلیدی پتھر“، بھی دیکھئے اینزائن، نومبر ۱۹۸۶، ۴–۷۔

  4. دیکھیں گورڈن بی ہنکلی،”صدارتی مجلس اعلیٰ کا پیغام: A Testimony Vibrant and True“ اینزائن، اگست ۲۰۰۵، ۲–۶۔

شائع کرنا