گمشدہ کوٹ
مصنفہ آئیوا، یو۔ایس۔ اے میں رہتی ہے۔
”میں، خداوند، جسے معاف کرنا چاہوں معاف کروں گا، مگر تمھارے لیے تمام آدمیوں کو معاف کرنا ضروری ہے۔“(تعلیم اور عہود ۶۴: ۱۰)
”ماں میرا کوٹ گم گیا ہے!“ برئڈ نے کہا۔ اب چرچ سے گھر جانے کا وقت ہو گیا تھا، لیکن برئڈ کو ریک پر سے اپنا کوٹ مل نہیں رہا تھا۔۔
”آپ کو پکا پتہ ہے کہ آپ نے یہاں ہی ٹانگا تھا؟“ امی نے پوچھا۔
”جی ہاں۔ یہیں پر ہی تو تھا“ برئٖڈ کا کوث اجلے نیلے اور لال رنگ کا تھا۔ اُسے نظر انداز کرنا بہت مشکل تھا۔
”شائد کسی نے کہیں اور رکھ دیا ہو ابو نے کہا ”چلو عمارت کے کسی اور حصے میں ڈھونڈتے ہیں“
امی، ابو اور برئڈ مختلف کمروں میں دیکھنے کے لیے علیحدہ ہو گئے۔ اُنہوں نے گمشدہ اشیاؑ والے ڈبے میں دیکھا، چیپل میں دیکھا، برئڈ کے سنڈے سکول کی کلاس میں، پرایمری کے کمرے اور کوٹ ٹانگنے والی ہر ریک پر دیکھا۔۔ اُنہوں نے حتیٰ کہ باتھ روم میں بھی دیکھا لیکن، کوٹ کہیں نہیں ملا۔
”شاید کوئی غلطی سے لے گیا ہو۔ ابو نے کہا، ”مجھے پکا پتہ ہے کہ جیسے ہی اُنہیں پتہ چلے گا کہ یہ اُن کا نہیں ہے، وہ اگلے ہفتے واپس لے آئیں گے۔“
”اس دوران آپ اپنا پرانہ کوٹ پہن لینا“ امی نے کہا۔
برئڈ کی صورت بگڑ گئی۔ اُسے اپنا پرانہ کوٹ پسند نہیں تھا۔ وہ کوٹ پتلا تھا، اُس کا رنگ اُڑا ہوا تھا اور اُسے چھوٹا ہو گیا تھا۔ اُسے بہت اچھا لگتا تھا کہ کیسے اُس کا لال اور نیلا کوٹ اُسے مافوق البشر ہونے کا احساس دلاتا تھا۔
برئڈ نے سوچا ”کسی کے شائد دیکھا ہو کہ میرا کوٹ کتنا زبردست ہے اور چوری کر لیا ہو گا۔“ لیکن کوئی چرچ میں ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ یہاں تو ہر ایک کو دیانتدار ہونا چاہیے۔ برئڈ نے تیہیہ کیا کہ وہ جور کو جانے نہیں گے گا۔ اُس نے منصوبہ تیار کیا۔ اگلے اتوار وہ بغور دیکھے گا کہ آس کا کوٹ کس نے پہنا ہوا ہے۔ پھر وہ کوٹ چھین لے گا اور زور سے کہے گا ”چور پکڑا گیا! “ پھر اُنہیں بڑا افسوس ہو گا کہ اُنہوں کے کوث کیوں چرایا۔
وہ کے لیے اگلے اتوار کا انتظار کرنا مشکل ہو رہا تھا تاکہ وہ اپنے منصوبے پر عمل کر سکے۔ لیکن اگلے اتوار اور اُس سے اگلے اتوار بھی گرمی بہت ذیادہ تھی اور کوٹ پہنا نہیں جا سکتا تھا۔
اِس کے بعد کے اتوار نے مشکوک نگاہوں سے پرائمری کے سب لڑکوں کو یہ سوچتے ہوئے دیکھا کہ کس نے میرا کوٹ چوری کیا ہو گا۔ کیا اُس لمبے لڑکے نے؟ یا شائد اُس لڑکی نے۔ اُسے لگا کہ کسی پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ برئڈ کو ایسا احساس اچھا نہیں لگا۔۔
چرچ کے بعد برئڈ بلڈنگ کے دوسری جانب لوگوں کو اپنے کوٹ پہنتے ہوئے دیکھنے کے لیے گیا۔ لیکن اُسے اپنا کوٹ کہیں نظر نہیں آیا۔ اُس نے گمشدہ اشیاٗ کے ڈبے میں پھر سے دیکھا… لیکن کوٹ نہیں ملا۔ آخر کوٹ کہاں تھا؟
گھر واپس جاتے وقت، برئڈ نے نیا منصوبہ بنایا، کہ وہ دعا کرے گا۔ اُسے پتہ تھا کہ آسمانی باپ کھوئی ہوئی چیزیں ڈھونڈھ سکتا ہے۔۔ اُس رات برئڈ نے دعا کی اور کہا ”آسمانی باپ مجھے بتا کہ میرا کوٹ کس نے لیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ مجھے واپس مل جائے۔“
برئڈ نے انتظار کیا کہ چور کا چہرہ یا نام اُس کے ذہن میں آ جائے۔ لیکن اس کی بجائے اُسے اپنے دوست کارل کا خیال آنے لگا۔ برئڈ، پرائمری میں عام طور پر کارل کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا۔ وہ آپس میں مزاق کرتے اور ہنستے تھے۔ لیکن کارل کچھ ہفتے سے چرچ نہیں آیا تھا۔ برئڈ اُسے یاد کرتا تھا۔
کیا کارل نے اُس کا کوٹ لیا تھا؟ شائد کارل یہ سوچ کر ڈر رہا ہو کہ اب برئڈ اُس کا دوست نہیں بننا چاہے گا۔ برئڈ چاہتا تھا کہ کارل پھر سے چرچ آئے۔ اگر کارل نے اُس کا کوٹ لیا ہے تو وہ اُس پر چِلائے گا نہیں، برئڈ نے فیصلہ کیا۔ وہ اُسے معاف کر دے گا۔
برئڈ اچھا محسوس کرتے ہوئے اپنے بستر پر چڑھ گیا۔
اگلے اتوار پرائمری میں کارل تو نہیں تھا، لیکن ایک نیا لڑکا تھا۔ اُس نے لال اور نیلی پٹیوں والی ٹائی پہنی تھی۔
نئے لڑکے کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کارل نے کہا ”بہت اچھی ٹائی ہے۔“ ”یہ پہن کر تم سپر ہیرو لگتے ہو۔“
وہ لڑکا مسکرایا۔
برئڈ بھی مسکرایا۔ اب وہ چوروں کو نہیں ڈھونڈ رہا تھا۔ اب وہ دوست ڈھونڈنا چاہتا تھا۔