۲۰۱۹
فیصلے کرنا: آزادی اِنتخاب بمقابلہ مکاشفہ
اپریل ۲۰۱۹


نوجوان بالغین

فیصلے کرنا: آزادیِ اِنتخاب بمقابلہ مکاشفہ

مصنفہ یوٹاہ، یو ایس اے میں رہتی ہے۔

جب بڑے فیصلے کرنے ہوتے ہیں، تو ہمیں خدا پر کس قدر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ہمیں بتائے کہ کیا کرنا ہے؟

ہر روز ہم میں سے ہر ایک کو فیصلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ تو انتہائی عمومی ہوتے ہیں، جیسا کہ، ”مجھے کیا پہننا چاہیے؟“ ”مجھے دوپہر میں کیا کھانا چاہیے؟“ ”کیا نئی کار خریدنے کا وقت آ گیا ہے، یا کیا میں مزید تھوڑی دیر کے لئے اپنی پرانی کار ہی رکھ سکتی ہوں؟“ مگر کبھی کبھار ہمیں عظیم فیصلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے—”کیا ہمیں واپس سکول جانا چاہیے؟“ ”کیا مجھے یہ ملازمت قبول کرنی چاہیے؟“ ”کیا مجھے نئے شہر میں منتقل ہونا چاہیے؟“ ”کیا مجھے گھر خریدنا چاہیے؟“ ”کیا مجھے اِس شخص کے ساتھ ملاقات پر جانا چاہیے؟“ ”کیا مجھے اِس شخص کے ساتھ شادی کرنی چاہیے؟“ اور ایسے کئی فیصلے۔

جب ہم بڑے فیصلوں کا سامنا کرتے ہیں، تو ہم—مناسب طریقے سے—فیصلہ کرنے کے لئے کچھ زیادہ وقت لیتے ہیں۔ ہم عقائد اور عہود ۹: ۸–۹ میں اولیور کاؤڈری کو دی جانے والی نصیحت کی پیروی کرتے ہیں، جہاں خداوند یوں فرماتاہے:

” مگر، دیکھو، میں تم سے کہتا ہوں، کہ تمہیں اِس کا مطالعہ اپنے ذہن میں کرنا چاہیے؛ پھر تم لازماً مجھ سے پوچھو کیا یہ درست ہے، اور اگر یہ درست ہے تو تمہارے سینے میں حرارت پیدا ہو گی؛ پس, تم محسو س کرو گے کہ یہ درست ہے۔

”لیکن اگر یہ درست نہ ہوا تو تم ایسے احساسات نہ پاؤ گے، بلکہ تمھارا خیال مبہوت ہو جائے گا جو غلط چیزوں کو بھولنے میں رتمھاری مدد کرے گا۔“

اگرچہ بڑے فیصلے کرتے ہوئے، یقینی طورپر یہ ایک اچھی نصیحت ہے، بعض اوقات اِس حصے پر ہم کافی زیادہ بھروسہ کرتے ہیں جہاں خدا ہمیں بتاتاہے کہ کیا درست ہےاور اُس پر زیادہ انحصار نہیں کرتے جہاں وہ کہتا ہے کہ اِس کے بارے اپنے ذہن میں سوچیں۔ اپنے فیصلوں کے استحکام کے لئے ہم خدا کے جواب کے لئے بہت زیادہ پریشان ہو جاتے ہیں کہ ہم ناقابل یقین مواقعوں کو جانے دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہم آزادیِ اِنتخاب کے کردار کو بھی جان سکتے ہیں، مگر ایسا فیصلہ کرنے سے ہم خوف زدہ ہوتے ہیں جو ہمیں متعین کردہ”منصوبے“ سے ہٹا سکتاہے اور اِس مفروضے پر قائم رہتے ہیں کہ سینے میں حرارت کے پیدا ہونے یا آسمان سے آواز آنے کے علاوہ کوئی بھی دوسرا فیصلہ غلط ہے۔ کیوں کہ ہم میں سے کئی لوگوں کے لئے، یہ ذاتی مکاشفہ اور آزادیِ اِنتخاب کے درمیان ان کہی بے چینی ایک اہم سوال کی طرف راہنمائی کرتی ہے: فیصلے کرنے میں ہماری مدد کے واسطے خدا کا کیا کردار ہے؟

ہمارے فیصلوں میں خدا کا کردار

شائد اِس سوال کا بہترین جواب یارد کے بھائی کی کہانی سے ملتا ہے۔ اِس کہانی میں ہمیں بڑھوتی کا ایک دلچسپ نمونہ ملتا ہے جو ہمیں وہ طریقہ سکھاتا ہے جس کے ذریعے سے خدا ہم سے فیصلے کرنے کیتوقع کرتاہے۔ بابل کے برج پر جب زبانوں میں اختلاف پیدا ہوا، تو یارد نے اپنے بھائی سے کہا کہ خداوند سے دریافت کرے کہ کیا اُ ن کو وہ ملک چھوڑ دینا چاہیے، اور اگر ایسا ہے، تو اُن کو کہاں جانا چاہیے ( دیکھئے عیتر ۱: ۳۶–۴۳)۔ یارد کے بھائی نے پوچھا، اور خداوند نے اُن کی راہنمائی سمندر کے کنارے کی طرف کی۔ جب اُنہوں نے سفر شروع کیا، تو خداوند بادلوں میں سے ہو کر اُن کے ساتھ کلام کرتا اور اُن کے سفر کے ہر ایک قدم پر اُن کی راہنمائی کرتا۔ آخر کار وہ سمند کے کنارے پر پہنچ گئے، جہاں وہ چار سال تک ٹھہرے رہے۔

چال سال کے اختتام پر، خداوند نے یارد کے بھائی کو کشتیاں بنانے اور سمندر عبور کرنے کی تیاری کا کہا۔ جب یارد کے بھائی نے محسوس کیا کہ کشتیوں میں ہوا نہ ہوگی، تو اُس نے وہی طریقہ اختیار کیا اور خدا سے پوچھا کہ اُسے کیا کرنا چاہیے۔ توقع کےمطابق، خداوند نے تفصیلاً ہدایات فراہم کرتے ہوئے اُسے کشتیوں کے اوپر اور نیچے سوراخ بنانے کو کہا۔ پس مکاشفے کے نمونے پر غور کریں: خدا نے انہیں منصوبہ دیا، اُنہوں نے سوالات کیے کہ منصوبے کی کیسے تکمیل کرنی ہے، اور خدا نے تفصیلی اور حتمی جوابات دیئے۔

مگر جب اُس نے کشتیوں میں سوراخ کئے، تو یارد کے بھائی نے محسوس کیا کہ کشتیوں میں روشنی نہ ہو گی۔ ایک بار پھر اُس نے خدا سے پوچھا کہ اُسے کیا کرنا چاہیے۔ تاہم، جواب کی بجائے، خدا نے کہا، ”تو کیا چاہتا ہے کہ میں تیرے لئے کروں تاکہ کشتیوں میں روشنی ہو؟“ (عیتر ۲: ۲۳)۔ خداوند نے تفصیلی ہدایات دینے کی بجائے جیسا کہ اُس نے پہلے دیں، اِس دفعہ یار د کے بھائی کے فیصلے کا انتظار کیا کہ کیا کرنا چاہیے۔

جب ہم فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو خداوند سے اِس قسم کا جواب شاید سمجھنے کے لئے سخت ترین ہو سکتا ہے۔ ہمیں دعا کرنے اور اِس کا جواب پانے کے بارے سکھایا گیا ہے، پس فطری طورپر ہم پریشان ہو جاتے ہیں جب ہم جواب میں کچھ نہیں پاتے۔ اکثر ہم تعجب کرتے ہیں کہ آیا صاف جواب کا فقدان ”مدہوشی کے خیال“ کے معیار کے طور پر پورا اُترتاہے جو ہمارے غلط انتخاب کی طرف اشارہ کرتاہے۔ دیگر اوقات میں ہم تعجب کرتے ہیں کہ کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خداوند کا جواب سننے کے لئے اتنے راست باز نہیں ہیں یا کیا ہم نے ”سچے ارادے“ سے نہیں مانگا ہے (دیکھئے مرونی ۱۰: ۴)۔ مگر ایک تیسری وجہ جس کے بارے میں بعض اوقات ہم نہیں سوچتے—شاید، یارد کے بھائی کی مانند، خدا ہمارا انتظار کر رہا ہے کہ ہم خود اپنا فیصلہ کریں۔

فیصلہ کرنا

حال ہی میں مجھے ایک ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جس نے آزادیِ اِنتخاب اور ذاتی مکاشفہ کے بارے میری سوچ کو للکارا۔ جب میں گریجوایٹ سکول کے اختتام کے قریب تھی، تو میرے پاس مختلف شہروں میں مختلف نوکریوں کے مواقعے تھے اور میں فیصلہ نہ کر پا رہی تھی کہ کس کے حق میں فیصلہ کروں۔ یارد کے بھائی کی مانند، مجھے کئی ایسے لمحات کا تجربہ حاصل ہوا جہاں بڑے فیصلے کے لئے مجھے دعا کرنا پڑی تھی اور خدا نے مجھے حتمی جواب دیا۔ اُن پہلے تجربات پر بھروسہ کرتے ہوئے، میں نے دعا شروع کی اور خدا سے فیصلہ کرنے میں مدد کے لئے پوچھا کہ مجھے کون سی نوکری کرنی چاہیے۔ میں اپنے طورپر بھی ہر ایک نوکری کے موقع کے بارے میں جان رہی تھی اور کئی لوگوں سے مشورہ کر رہی تھی۔ مسلسل دعا کرنے یا روزے رکھنے کے باوجود، آسمان خاموش رہے، اور مجھے کوئی جواب نہ ملا۔

فیصلہ کرنے کی آخری تاری قریب آرہی تھی، اور میں خوف زدہ ہونا شروع ہو گئی۔ یقیناً یہ اِس قسم کا فیصلہ تھا کہ جس کا خیال خداوند کو رکھنا چاہیے تھا، پس وہ جواب کیوں نہیں دے رہا تھا؟ ہو سکتا ہے اُس کو کوئی پرواہ نہ ہو کہ مجھے کس نوکری کا انتخاب کرنا چاہیے، مگر اُس کو لازمی طورپر خیال کرنا چاہیے کہ میں کس شہر میــں جاؤں کیوں کہ بلاشبہ اِس سے میری زندگی متاثر ہو گی۔ خداوند نے ماضی میں ہمیشہ میرے فیصلوں کا خیال رکھا ہے، پس وہ اِس معاملے میں خیال کیوں نہ رکھے گا؟

تاہم میں نے جتنی بھی سخت کوشش کی، کوئی جواب نہ ملا۔ میں حیران ہونا شروع ہوئی کہ کیا میں خدا سے اس قدر دُور ہو گئی ہوں کہ میں اُس کا جواب نہ سن سکتی تھی۔ میں اِس پر بھی حیران تھی کہ کیا میں اِس لئے نہ سن سکتی تھی کیوں کہ میں نیم شعوری طورپر جواب سننا نہیں چاہتی تھی۔ آخر کار، آخری تاریخ سے ایک دن پہلے، میں نے جانا کہ فیصلہ مجھے ہی کرنا ہے، پس میں نے اپنی سوچ کو استعمال کر کے فیصلہ کیا۔ اُس رات میں نے سادہ سی دعا کی، یہ پوچھتے ہوئے کیا وہ مجھے بتائے گا کہ کیا میرا انتخاب غلط تھا۔ پھر بھی کوئی جواب نہ ملا، پس میں آگے بڑھی اور نوکری قبول کر لی۔

کئی ماہ بعد، میں ابھی تک اپنے فیصلے پر سوال اُٹھا رہی تھی، پس میں نے دوبارہ یقین دہانی پانے کے لئے کہانتی برکت کے لئے کہا۔ برکت میں، مجھے بتایا گیا کہ مجھے اپنی دعا کا جواب اِس لئے نہ ملا کیوں کہ جو فیصلہ میں نے کیا تھا خداوند اُس سے خوش تھا۔ اِس برکت نے میری سابقہ ملنے والی نصیحت کو تقویت بخشی جو مجھے میرے مشن کے صدر نے دی تھی، جس نے مجھے بتایا تھا کہ اکثر اوقات اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ خدا ہمیں سکھانا چاہتا ہے کہ ہم اپنے دو قدموں پر کھڑے ہوں اور اپنی زندگیوں کے بارے میں فیصلہ کریں۔ میرے مشن کے صدر نے بھی مجھے یاد کرایا کہ جب ہم مخلصی سے اپنی سمت کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو خدا، بطور ہمارے آسمانی باپ کے، ہمیں ایسا کرنے کی سزا نہ دے گا اور نہ ہی وعدہ کردہ مواقعے ہم سے چھینے گا۔

یارد کا بھائی کشتیوں کو روشن کرنے کے لئے کسی اور حل کی بھی تجویز دے سکتا تھا، اور خداوند کو وہ قبول ہونی تھی۔ تجربے کی بات نہ صرف یارد کے بھائی کے لئے اُس کے ایمان کی مضبوطی تھی بلکہ یہ بھی تھی کہ وہ سیکھے کہ فیصلے کیسے کرنے ہیں۔

آزادیِ اِنتخاب کی مشق کرنا

ایک ابدی تناظر سے، آزادیِ اِنتخاب کی مشق کرنا ذاتی نشو ونما کا ایک اہم عنصر ہے۔ اِس کے بغیر، ہم ایسے کوئی بھی فیصلے نہیں کر سکتے جو ہماری مکمل صلاحیت کو پوری طرح بروئے کار لانے میں مدد کریں گے۔ بڑھوتی، انجیل میں کسی بھی اور چیز کی طرح،” قطار بہ قطار، تعلیم بہ تعلیم“ آتی ہے ( ۲ نیفی ۲۸: ۳۰)۔ خدا چاہتا ہے کہ ہم مستعد لوگ بنیں، نہ کہ مفلوج لوگ، اور وہ توقع کرتاہے کہ ہم اپنی آزادیِ اِنتخاب کا استعمال کرتے ہوئے جہاں تک ممکن ہو اپنی زندگیوں کو بہترین طریقے سے گزاریں۔

جب ہم آزادیِ اِنتخاب اور مکاشفہ کے درمیان توازن کے بارے میں سیکھ جائیں گے، تو ہم حقیقی روحانی نشوونما کا تجربہ کر پائیں گے۔ یارد کے بھائی کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ کافی سوچ بچار کے بعد، اُس نے ۱۶ پتھروں کو چٹان سے کاٹا اور خدا سے اُنہیں چھونے اور چمکانے کو کہا (دیکھیں عیتر ۳: ۱–۵)۔ اِس وقت، جب خدا نے جواب دیا، تو ہر چیز بدل گئی۔ بادل میں سے خدا کی آواز سننے کی بجائے، یارد کے بھائی نے دراصل خداوند کو دیکھا، جو نہ صرف شخصی طورپر ظاہر ہوا بلکہ یارد کے بھائی کو دنیا کی ناقابل یقین رویائیں دکھائی اور ہر وہ چیز جو ابھی وقوع پذیر ہونی تھی (دیکھئے عیتر ۳: ۶–۲۶)۔ یہ ممکن ہے کہ یارد کا بھائی روحانی طورپر وہ رویا پانے کے لئے تیار نہ ہوتا اگر اُس کو پہلے سے ذاتی نشوونما کا تجربہ نہ ہوتا جو اُس کے اپنے فیصلے کرنے سے آئی تھی۔

جب ہم فیصلے کرتے ہیں، تو یقیناً ہمیں ایلما کی نصیحت پرچلنا چاہیے ”[اپنے] تمام کاموں میں خداوند سے مشورت کر“ (ایلما ۳۷:۳۷)۔ جب خداوند چاہتا ہے کہ ہم کوئی خاص فیصلہ کریں، تو وہ ہمیں آگاہی بخشے گا اور بھٹکنے سے محفوظ رکھنے میں ہماری مدد کرے گا۔ مگر ہمیں کھڑے ہونے اور ایمان میں آگے بڑھنے کے لئے لازمی طورپر تیار رہنا چاہیے، خواہ جواب ملے یا نہ ملے۔ جب تک ہم اپنے عہود کو برقرار رکھتے ہیں اور یسوع مسیح کی انجیل کے ساتھ وفادار رہتے ہیں، تو ہم اپنے راست فیصلوں میں اعتماد اور امن محسوس کرتے ہیں کہ خداوند ہماری کوشش سے خوش ہے۔

وضاحت از ڈیوڈ گرین

شائع کرنا